سِتاروں کے جُھرمٹ میں خورشید تاباں
بچپن کے امتحانوں میں ایک سوال کثرت سے آتا تھا کہ اپنے پسندیدہ استاد پر مضمون قلم بند کریں مگر اس وقت استاد کی قدروقیمت کا اندازہ ہی نہیں تھا۔ جب ”استاذ“ کے صحیح معنی سمجھ آنے لگتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ کسی استاذ کی شان عظمت کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کا ذخیرہ بھی بے معنی ہے۔ بسا اوقات کسی شخصیت کا احاطہ کرنا کارِ محال نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے۔ خاص طور پر استاد کی ہستی کو الفاظ کے موتیوں میں پرو کے لکھنا انتہائی دشوار ہے مگر میں آج یہ جسارت کر رہی ہوں اور اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ کو لے کر اپنے استادِ محترم کی شخصیت کو بیان کرنے کی چھوٹی سی کوشش کرنے والی ہوں۔ انسان کو زندگی میں جن شخصیات سے واسطہ پڑتا ہے ان میں استاد کی شخصیت بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ استاد کی شخصیت متاثر کن ہو یا نہ ہو زندگی بھر یاد رہتی ہے۔ البتہ متاثر کرنے والے استاد کا نقش طالب علم کے ذہن کے ساتھ ساتھ شخصیت پر بھی ہوتا ہے۔ آج میں ماضی قریب (Nostalgia) کے اپنے ایک ایسے ہی عظیم استاد کا ذکر کرنا چاہتی ہوں۔
اب سے تقریباً پانچ سال قبل شعبہ اردو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد میں جب بطور طالبہ داخل ہوئی تو جن اساتذہ کی جامع علمی شخصیت نے بے حد متاثر کیا محترم استاذی المکرم سابق صدر شعبہ اردو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد ڈاکٹر سعید احمد صاحب ان میں بہت معتبر ہیں۔ آپ کا تعارف محتاج ِ بیاں نہیں۔ جن شخصیات نے تحقیق، تنقید، ترجمہ ہر چند حوالوں سے اردو ادب کی آبیاری کی اور اِسے وسعتِ آشنا کیا دورِ حاضر میں ایسی ایک معتبر شخصیت پروفیسر ڈاکٹر سعید احمد صاحب ہیں۔ آپ علمی دنیا میں ایک مایہ ناز محقق، ماہر معلم، زیرک نقاد، ادیب، شاعر اور ماہر ترجمہ ہیں۔ آپ اپنی علمی و تحقیقی کاوشوں کے سبب اپنا ایک الگ مقام رکھتے ہیں۔ داستانیں، اساطیر، سائنسی علوم آپ کی خاص دلچسپی کا محور ہیں۔
آپ کی جامع علمی شخصیت کے بارے میں اپنی معروضات لکھتے ہوئے کیفیتِ عجز کی بیداری فطری بات ہے۔ اس لیے نہیں کہ بطور شاگرد میں ان سے متاثر ہوں بلکہ آپ اتنے بڑے محقق، معلم، نقاد، ادیب، مترجم وسیع المطالعہ بلند علمی شخصیت ہیں کہ ان کے بارے میں کچھ لکھتے ہوئے مجھے ڈاکٹر سہیل احمد خان کی ایک تشبیہ یاد آ رہی ہے۔ معروف روسی ناول نگار لیو ٹالسٹائی کے ناول ”WAR AND PEACE“ کے اردو ترجمے از شاہد حمید کا پیش لفظ رقم کرتے ہوئے انھوں نے لکھا اتنے بڑے ناول پر میرا کچھ لکھنا ایسے ہی ہے جیسے نیاگرا آبشار کے سامنے کوئی پانی کا نلکا کھول دیا جائے۔ آپ کی اب تک 12 کتب شائع ہو کر منظر عام پر آ چکیں ہیں ان میں تحقیقی پیرائے، تنقیدی مضامین اور تراجم شامل ہیں۔ آپ کی پہلی کتاب 2012 ء میں ”داستانیں اور حیوانات“ کے نام سے ادارہ فروغ قومی زبان سے شائع ہوئی۔
جو کہ آپ کا تحقیقی سندی کام ہے۔ اسی طرح آپ کا ایم۔ اے تحقیقی مقالہ ”اردو داستانوں میں تصورِ خیر و شر“ الف الامیراث ”پرِطاؤس“ اردو حریفائے مکالے ”رسالہ چہاریہ“ نامہ نامی ”شامل ہیں۔ آپ نے انگریزی اور پنجابی سے متعدد کہانیوں اور افسانوں کو اردو کا روپ دیا ہے۔ جن میں جولیس لسٹر کی“ بندر لوگ ”اور اکبر لاہوری کی“ جنگل میں جمہوریت ”قابلِ ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ تراجم میں“ گیارہ منٹ ”اور“ الکیمسٹ ”سے شہرت پانے والے مشہور برازیلی ناول نگار پاؤلو کویئلو کے تین ناولوں کو اردو زبان کے قالب میں ڈھال چکے ہیں۔ جن میں“ By the river piedra I sat down and wept ”کا ترجمہ گریہ بھر کنارے دریا“ کے نام سے، warrior of the light ”روشنی کا جنگجو،“ The Archer ”کا ترجمہ تیر انداز کے نام سے کر چکے ہیں۔ مجھے آپ کی تقریباً تمام کتابوں کے مطالعہ کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ مطالعہ کے دوران جتنا مجھے“ داستانیں اور حیوانات ”نے حیرت و استعجاب میں ڈالے رکھا یعنی ہر ہر سطر پر وسیع معلومات کا بحرِ بیکراں ہے۔ یعنی اس تحقیقی سرمائے کو داستانوں کا انسائیکلوپیڈیا کہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ تحقیق پر آپ کو استناد کا درجہ حاصل ہے۔ ڈاکٹر سعید صاحب نے اپنی محققانہ بصیرت سے اردو کے تحقیقی ذخیرے میں اضافہ کر کے اردو زبان و ادب کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آپ کی تحریروں پر اخبارات اور ادبی جریدوں میں متعدد مضامین، کالمز لکھے جا چکے ہیں۔ بطور نقاد، مترجم تنقید اور ترجمہ پر بھی آپ کو کمال کا تسلط حاصل ہے۔ آپ کی تنقید حیرت زدہ نہیں کرتی بلکہ فکری دریچے وا کرتی ہے۔ مدلل، متوازن، متین یہ تین میم آپ کی تحریروں کی درست عکاسی کرتے ہیں۔ آپ کی تحریریں ایک ایسے متجسس ذہن کی پیداوار ہیں جس میں فکر و نظر کی گیرائی بھی ہے اور گہرائی بھی۔ یہ سب ایک عام قاری کی فوری رائے کا ثمر ہے ورنہ، من آنم کہ من دانم۔ میں کہاں اور یہ مقام کہاں۔ کہ میں ڈاکٹر سعید صاحب کی تحریروں پر کوئی تبصرہ کر سکوں۔
پروفیسر سعید صاحب سے اردو پڑھنا ایک یادگار تجربہ ہے۔ بچپن میں ہم امّی جان سے پوچھتے تھے کہ استاد اور عظیم استاد میں کیا فرق ہوتا ہے؟ تب انھوں نے جو بتایا چھوٹے ذہن کے مطابق سمجھ تو آ گیا لیکن آپ کی باوقار علمی شخصیت سے کسب فیض کے بعد یہ فرق بھی واضح ہو گیا۔ جو خصوصیات ڈاکٹر سعید احمد صاحب کو میرے تمام اساتذہ کی فہرست میں اول درجہ پر لاتیں ہیں وہ ہے ان کا اندازِ بیان، منکسر المزاجی، شستہ و شائستہ بلند قامت نفیس وسیع المطالعہ علمی شخصیت گویا آپ میں ہر وہ خوبی موجود ہے جو کسی بھی استاد کو عظیم بناتی ہے۔ ڈاکٹر سعید صاحب کی شخصیت اس بات کی غماز ہے کہ ”استاد قوم کے معمار ہوتے ہیں“ ان کی شخصیت اپنی تابانی کے باعث اپنے تمام شاگردوں میں مثالی ہے۔
آپ کی تمام تر ترجیحات کا مرکز و محور علم کی تحصیل اور ترسیل ہے۔ آپ نے علم کے معاملات کو محض ذہن تک محدود نہیں رکھا بلکہ قلب و روح کا حصہ بنایا ہے۔ ان کے اسلوب گفتگو، طرزِ عمل اور طور فکر کے علاوہ انداز نگاہ سے بھی ان کی علمی و تہذیبی شخصیت کا عکس نمایاں نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر سعید احمد بطور معلم، محقق، ادیب، نقاد اور مترجم بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ اردو اور انگریزی ادبیات سے سائنسی علوم تک نظم، نثر، قواعد، زبان، لسانیات، فصاحت و بلاغت، علم عروض، علم قافیہ، علم معانی، علم بیان، علم بدیع، تنقید، اسلوب شناسی، لغت شناسی، قرآن و حدیث، تصوف و عرفان، تاریخ ادبیات جیسے دقیق اور پر مغز لسانی و ادبی مضامین و موضوعات پر آپ کو ماہرانہ دسترس حاصل ہے۔ گویا آپ علم و فضل کا سر چشمہ ہیں۔ فارسی زبان و ادب سمیت دیگر زبانوں پر آپ کی گہری نظر ہے جس کا واضح ثبوت استاد محترم کا گراں قدر تحقیقی کام ان کا ایم۔ اے کا مقالہ ”داستانیں اور تصور خیر و شر“ اور ایم۔ فل کا مقالہ ”داستانیں اور حیوانات“ ہے۔
ہمیں میقات ششم اور ہشتم میں آپ سے پڑھنے کا اعزاز حاصل ہوا ہم نے چار سال میں دو نصاب ان سے پڑھے تھے۔ بی ایس کے تیسرے سال آپ نے ہمیں نصاب میں ”بیان و بدیع و عُروض“ پڑھایا۔ جبکہ چوتھے سال نصاب میں ”اردو کی نثری اصناف“ پڑھایا۔ اردو کی نثری اصناف اور اردو گرائمر نصاب میں شامل ہو اور پڑھانے والے ڈاکٹر سعید احمد صاحب ہوں اور یہ لفظوں میں بیاں ہو ممکن نہیں۔ اس حِظ کا اندازہ انہی کو ہے جو ان کی جماعت میں ان سے پڑھتے رہے۔ یہ ہماری نادر خوش قسمتی ہی ہے کہ ڈاکٹر سعید احمد صاحب ہم جیسے بے بضاعت کم علم طالبعلموں کے استاد ٹھہرے۔ آپ بطور استاد اعلیٰ سیرت و کردار، علمی لیاقت اور بے پناہ تدریسی صلاحیت کے حامل ہیں۔ آپ سادہ اور موثر انداز بیان میں اپنی بات سمجھانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ آپ ایک قابل، محنتی اور غیر معمولی استاد ہیں۔ انھیں پڑھانے سے بے حد دلچسپی تھی۔ پڑھانے سے انھیں طبعی مناسبت معلوم ہوتی۔ ان کا شوقِ تدریس دیکھ کر یوں محسوس ہوتا جیسے تدریس آپ کی فطرت کی پکار ہو۔ ان کا پڑھایا ہوا اس لیے بھی یاد رہ جاتا تھا کہ اس میں موجود پدرانہ شفقت کا احساس اسے قیمتی، معتبر اور کبھی نہ مانند پڑھنی والی روشنی کا استعارہ بنا دیتا تھا۔ ایک شفیق استاد کی حیثیت سے ان کی زندگی پر نظر ڈالتے ہوئے مغربی دانشور کا کہنا سر سعید احمد صاحب پر پوری طرح صادق آتا ہے کہ :
A teacher effects eternity;
He can never tell where his influence stops
آپ کی راہنمائی میں ادب کو پڑھنا سیکھا۔ انھوں نے بیان و بدیع و عروض جیسے دقیق اور پُرمغز مضمون کو بھی اپنی ماہرانہ تدریسی صلاحیت سے آسان اور عام فہم بنا دیا آپ کا پڑھایا ہوا آج بھی سماعتوں میں محفوظ ہے۔ بطور استاد ان کا ایک وصف یہ بھی تھا کہ اپنے شاگردوں میں اپنا سا مطالعاتی ذوق پیدا کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتے۔ نثر کی نسبت اردو گرائمر پڑھانا آپ کو زیادہ دلچسپ لگتا۔ دوران لیکچر لغات اور قواعد پر سیر حاصل گفتگو کرتے تھے اور بعض اوقات ایک لفظ کی لغوی و صرفی وضاحت میں پوری کلاس کا وقت صرف ہو جاتا تھا۔ تدریسی انہماک کے باعث انھیں وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہو پاتا۔ ادب کا جو ذوق آپ میں سرایت کیے ہوئے تھا آپ اُسے اپنے منفرد طریقہ تدریس سے اپنے طلباء کے ذہنوں میں اتار دیتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ طلباء و طالبات آپ کے لیکچر سے نہ کتراتے نہ گھبراتے اور نہ ہی آپ کے اس طرز عمل کی شکایت کرتے بلکہ سر سعید صاحب کے لیکچر کا انتظار کرتے جو اس بات کی روشن دلیل ہے کہ آپ تدریس وقت گزاری کے لیے نہیں بلکہ شیوہ پیغمبری سمجھ کر کرتے۔ دورانِ تدریس لفظوں کا انتخاب، فقروں کی بُنت، پڑھانے کا شائستہ انداز ان کے اردو کے استاد اور اہلِ زباں ہونے کی تصدیق کرتا۔ علم العروض کرواتے ہوئے تقطیع پہ لطیف اشارے، رموز اوقاف کا دھیان، اعراب کی مماثلتیں مثلاً قَدَر اور قَدُر میں تمیز، مُتظِر اور مُتظَر میں فرق اور خود اعراب کو سمجھانے کے لیے شگفتہ برمحل شعروں کا استعمال، لُغت کے اصولوں کی جانچ پڑتال ڈاکٹر سعید صاحب کے دروس کی زینت بنتے۔
ڈاکٹر سعید صاحب کے پڑھانے کا انداز عالمانہ اور سنجیدہ علم و ادب کا خزینہ ہوتا تھا۔ دو رانِ تدریس ایک ایک لفظ آپ کے وسعت مطالعہ کا پتا دیتا اسی لیے مجھ سمیت دوسرے طلباء آپ کی کلاس میں شرکت کا موقع پانے پر فخر محسوس کرتے تھے۔ اور آپ کے لیکچر سے غیر حاضری میرے لیے بڑی نعمت سے محرومی معلوم ہوتی۔ اوزانِ شعری پر کمال کا تسلط تھا اور صرف ایک بار سن کر ہی شعر کا وزن اور بحر بتا دیتے تھے۔ آپ سے اقبالیات تو نہیں پڑھی لیکن دوران لیکچر کبھی ان کی گفتگو میں اقبال کی شاعری کا تذکرہ آتا تو اُن کی محویت دیدنی ہوا کرتی تھی۔ آپ ایک خاص کیفیت میں ہوتے تھے۔ ان کی گفتگو بتا دیتی کہ آپ خاص جوش اور حب کے ساتھ اقبال کی فکر و نظر کو یوں بیان کرنا چاہتے ہیں کہ طلبہ کے قلوب و اذہان میں اپنی بات بٹھا سکیں۔ ان کی دھیمی آواز اور نرم گوئی کا کیا مذکور ایسا لگتا تھا کہ استاد مکرم کو الفاظ کے ساتھ بھی ایک طرح کی انسیت ہے کہ ہر لفظ کو سنوار کر اور نکھار کر بولتے تھے۔ کلاس میں آنے کا ان کا یہ معمول ہوتا کہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کمرہ تدریس میں داخل ہوتے پھر ایک دو سوالات پوچھتے تا کہ ہم سب متوجہ ہوجائیں۔ پرچی پر لیکچر کا موضوع اور کبھی ساتھ ایک دو حوالے کی کتابیں بھی لائے ہوتے تھے لیکن سارے لیکچر میں ان کتابوں کے کھولنے کی ضرورت کبھی پیش نہیں آئی۔ وسیع المطالعہ شخصیت ہونے کے باعث اپنی گفتگو میں دلچسپ موضوعات لے آتے۔
اردو گرائمر، تلفظ اور لہجہ پر آپ کی خصوصی توجہ ہوتی۔ اشفاق احمد کے سائنس فکشن افسانوں کا مجموعہ ”طلسم ہوش افزا“ ہو، اختر حسین رائے پوری کی آپ بیتی ”گرد راہ“ ہو مشتاق احمد یوسفی کی ”آبِ گُم ہو یا کوئی اور کلاس میں تحریر کی بلند خوانی کرتے تا کہ طلباء کا تلفظ درست ہو سکے اور جہاں کہیں مشکل لفظ آتا تو اس کا معنی بتاتے اور پوری کوشش کرتے کہ ہر ہر سطر پر طُلبا اپنے علم میں اضافہ کرتے جائیں۔ دوران لیکچر آپ کی طرف سے سوال پوچھنے کی مکمل اجازت ہوتی۔ اگر کوئی جلد باز طالب علم قطع کلامی کرتے ہوئے کوئی سوال پوچھ بیٹھتا تو بھی آپ جامع جواب دیتے۔ کبھی بھی وہ اس طرح کی مداخلت پر خفا نہیں ہوئے۔ انھوں نے ہمیں اردو کی نثری اصناف اور اردو گرائمر کو ایک مضمون کے طور پر نہیں پڑھایا بلکہ قواعد و لغت اور ادب شناسی کی ایک سطح پیدا کرنا چاہی۔
آپ حال ہی میں صدرِ شعبہ کے منصب سے سبکدوش ہوئے ہیں۔ چونکہ ہمارا چار سالہ بی ایس کا دورانیہ آپ کی شعبہ کی صدارت کا دور تھا۔ اس دوران کبھی آپ کو غصے میں آپے سے باہر نہیں دیکھا۔ کبھی اپنے منصب کو لے کر آپ میں تکبر کا شائبہ تک نہیں پایا۔ ہمیشہ اپنے طلباء سے خوش سلیقگی سے ملتے۔ مجھے یہ بات لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ صدر شعبہ کے منصب کی یہ سعد طالعی ہے کہ اسے ڈاکٹر سعید احمد صاحب جیسی با وقار بلند علمی شخصیت میسر آئی۔ آپ صدر شعبہ ہونے کے باوجود اپنی تدریسی ذمہ داریاں بخوبی نبھانے کی کوشش کرتے۔ منصبی مصروفیات کے باعث جب کبھی پڑھا نہ پاتے تو ہفتے کے دوسری کلاسوں میں اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کرتے۔ بحیثیت استاد ان کا علمی قد بہت بلند ہے۔ ڈاکٹر سعید احمد صاحب کی ذات سے ان کے طلباء نے اپنے اپنے ظرف کے مطابق فیض اٹھایا۔ لیکن چند حوالے جن کا خصوص سے استاد محترم اپنی کلاس میں اہتمام کرتے۔
سر سعید صاحب گرائمر، تلفظ اور لہجہ کو اپنے شاگردوں میں معروضیت کے ساتھ منتقل کرتے۔ جملہ رموزِ زبان و ادب پر دسترس رکھتے تھے۔ دقیق لفظوں کے معنی، تراکیب، ان کے مصدر اور حاصلِ مصدر کی نشان دہی کرتے ہوئے اس کا تعلق کس زبان سے ہے بتا دیتے نیز لغت بینی کی تلقین بھی کرتے۔ آپ کی قواعد و لغت سے اس قدر شناسائی تھی کبھی کبھی تو گماں گزرتا کہ قواعد و لغت آپ ہی کی ایجاد ہے۔ اردو گرائمر پر تو آپ کی خاصی توجہ ہوتی جب بھی کوئی طالب علم پریزنٹیشن دیتا تو آپ اکثر ان سے مشکل الفاظ بورڈ پر لکھنے کا کہتے پھر جہاں کہیں غلطی ہوتی تو فوراً درست کرواتے مشکل الفاظ کے معنی ان کی واحد، جمع، رموز و اوقاف، صحیح اعراب بھی بتاتے۔ آپ اپنے لیکچروں میں اردو تلفظ، لہجہ کے ساتھ ساتھ کتب کے مطالعہ پر خاصہ زور دیتے آپ اسے اپنے تقریباً ہر لیکچر میں دہراتے۔ کہتے آج کے طالب علم فاسٹ فوڈ اور ایسی دیگر چیزوں پر خرچ کرنے سے قطعاً نہیں کتراتے لیکن بدقسمتی سے جب بھی کتابیں خریدنے کا معاملہ ہو طلباء کنجوسی کا مظاہرہ کرتے ہیں حالانکہ کتابیں خریدنا اور اس کا مطالعہ کرنا زیادہ مفید ہے۔
آپ کے لیکچروں کی نوٹ کردہ دو بیاضیں میرے پاس موجود جنھیں بوقت ضرورت کھولتی ہوں تو ماضی کے دریچوں میں پہنچ جاتی ہوں اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ابھی کل ہی بات ہو۔ ڈاکٹر سعید صاحب کا ہمیں پڑھانا اور ہمارا ان کے لیکچر سننا اور نوٹ کرنا یہ سب میرے لیے اب ناسٹلجیا بن چکا ہے۔ سر سعید احمد صاحب۔ آپ کی دی گئی ہر شاباشی نے مجھے مزید محنت اور لگن سے کام کرنے کا جذبہ دیا۔ میں خود کو اس قابل ہر گز نہیں سمجھتی لیکن آپ کا میرے دیگر اساتذہ سے میرا تعارف شعبہ کی قابل طالب علم کہہ کر کروانا، آپ کی مجھے تحریری طور پر دی گئی شاباش یہ سب بلا شک و تردد میرے لیے سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ استاد کی طالب علم کو دی گئی حوصلہ افزائی ہی اسے بہت آگے تک لے جاتی ہے اور تب آپ اپنے اندر چھپے اعتماد اور یقین کو بحال کر پاتے ہیں۔ میری خواہش ہے مجھے زندگی میں آپ جیسی باوقار شخصیت سے دوبارہ مستفیض ہونے کا موقع ملے جو بلاشبہ میرے لیے باعث فخر و اعزاز ہو گا۔
ڈاکٹر سعید احمد کا تدریسی شعبہ سے وابستگی کا یہ سفر ربع صدی پر محیط ہے۔ ہزاروں تشنگانِ علم کی تعلیم و تربیت اور راہنمائی کرتے ہوئے آپ کے علمی لگاؤ کا یہ سفر آج بھی جاری و ساری ہے۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد یقیناً خود پر ناز کرتی ہو گی کہ اس کی قدر و منزلت کو بڑھانے میں ڈاکٹر سعید احمد صاحب کا نام نامی بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر سعید صاحب کی شخصیت کم از کم ایک مقالے کی غماز ہے۔ مُعلم بے بدل، استادِ کبیر ڈاکٹر سعید صاحب کے بارے میں مزیدکیا لکھوں کہ ان کی شخصیت ہزار ہا خوبیوں کی حیرت انگیز مثال جسے انھوں نے اپنے سعی بسیار سے مزید نکھارا ہے۔
بلاشبہ آپ کے شایانِ شان میرے پاس الفاظ نہیں لیکن میں ہمیشہ استاذی المکرم کے لیے صمیمِ قلب سے دعا گو ہوں کہ اللّٰہ پاک آپ پر ہمیشہ اپنے خاص فضل و کرم کا سایہ کیے رکھے، مستقبل کی مزید کامیابیوں کے لیے بہت ساری نیک تمنائیں، دعا ہے کہ آپ کا قلم یونہی جولاں رہے، صحت و عافیت اور سلامتی کی تمام اچھی دعائیں۔ سر، سلامت رہیں۔
- سِتاروں کے جُھرمٹ میں خورشید تاباں - 30/10/2024
- روشنی کے سفیر - 19/05/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).