کرکٹ کے سرفرازی دور کا آغاز



پاکستان کرکٹ ٹیم کا کپتان بننا کتنا مشکل ہے؟ زیادہ نہیں۔ اگر آپ کی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی تو آپ کپتانی کے لیے آئیڈیل چوائس ہو سکتے ہیں یا دوسری صورت میں اگر آپ کچھ عرصہ سے ناقص فارم اور کاکردگی کی وجہ سے ٹیم سے باہر ہیں تو بھی کپتانی کے لیے آپ مضبوط امیدوار ہیں۔ تیسری صورت میں اگر آپ میں تھوڑی سی فسادانہ صلاحیتیں ہیں اور آپ ٹیم میں گروپنگ بنا کر کپتان کو ہروا سکتے ہیں تو بھی آپ کے کپتان بننے کے روشن امکانات ہیں۔ چیئرمین پی سی بی کی تبدیلی بھی ان حضرات کے لیے کپتانی کا راستہ صاف کر سکتی ہے جو جی حضوری میں کوئی برائی نہیں سمجھتے۔

مگر میں نے ان سب میں سے ایک بات بھی سرفراز احمد کے لیے نہیں لکھی۔ سرفراز نے محنت، لگن اور حوصلے سے کپتانی کمائی ہے۔ سرفراز نے کپتانی کے سفر کا آغاز انڈر19  ورلڈ کپ 2006 ء سے کیا تھا جس میں انور علی کے جادوئی سپیل نے سرفراز کو بھارت کے خلاف چیمپئن بنوا دیا تھا۔ پھر کراچی کی ٹیم کی کپتانی کرتے ہوئے سرفراز کراچی کو مختلف فارمیٹس میں کم از کم چار دفعہ فائنل میں پہنچا کر ہمت ہار بیٹھے۔ پی ایس ایل فرنچائز کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی کپتانی سرفراز کو اس وقت ملی جب کوئٹہ کو کوئی بھی سیریس لینے کو تیار نہیں تھا مگر کوئٹہ نے دونوں دفعہ فائنل کھیلا اور ہارا۔ یہ فائنل ہارنے کی روایت سرفراز کی بدقسمتی کی مظہر ہے یا پھر بڑے میچ کے پریشر کو نہ سنبھال سکنے کا نتیجہ ،اس کا فیصلہ تو تاریخ ہی کرے گی،مگر سرفراز ایک اچھا کپتان ثابت ہو گا اس بات کا یقین مجھ سمیت پوری قوم کو ہے۔

کم از کم اب تک کا ریکارڈ تو یہی بتاتا ہے۔ ریکارڈ کو بھی چھوڑیے سرفراز کی بس ایک خوبی ہی اسے بڑے بڑے اعزاز دلوا سکتی ہے اور وہ ہے ماڈرن کرکٹ کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ۔ سر ویون رچرڈز جب سرفراز کو پاکستان کی موجودہ ٹیم کا سب سے بڑا کرکٹر قرار دیتا ہے تو میں ایک سو ایک اعتراض کر سکتا ہوں مگر جب وہ یہ وجہ بتاتا ہے کہ پاکستان کی ٹیم میں میچ کے دوران کم بیک کرنے اور صورتحال کو اس کے مطابق نمٹنے کی صلاحیت صرف سرفراز میں ہے تو عمر اکمل، احمد شہزاد اور اسد شفیق کے نام ذہنوں میں آتے ہی دل ویون رچرڈز کی بات ماننے لگتا ہے۔

احمد شہزاد سے یاد آیا ایک اظہر علی ہوا کرتا تھا آج کل گمشدہ ہے۔ جی جی وہی اظہر علی جو یونس خان کے بعد پاکستان ٹیسٹ ٹیم کا مستقبل ہے۔ آخری خبریں آنے تک اس نے پینتالیس ون ڈے انٹرنیشنلز میں انتالیس کی اوسط اور چھہتر کے سٹرائیک ریٹ سے ڈیڑھ ہزار سے زائد رنز بنا لیے تھے اور ابھی کچھ دیر پہلے ہی اس نے ویسٹ انڈیز کے خلاف ون ڈے سنچری سکور کی تھی اور دورہ آسٹریلیا میں تو پاکستانی بیٹنگ کے سارے ریکارڈ توڑ کر آیا تھا مگر یار لوگ کہتے ہیں کہ پھر وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی نظر بد کا شکار ہو گیا۔

برسوں سے ایک ہی رونا ہے کہ پاکستانی کرکٹ میں سٹارز پیدا نہیں ہو رہے اور جب کوئی سٹار پیدا ہونے لگتا ہے تو آکسیجن کی نالی کھینچ لی جاتی ہے۔ مستقبل کے عظیم ٹیسٹ بلے باز کے ساتھ یہ سلوک کیا جاتا ہے کہ اسے بتائے بغیر ہی ون ڈے ٹیم سے نکال کر اس کی جگہ ایک غیر اہم کرکٹراحمد شہزاد کو ٹیم میں لیا جاتا ہے جس کے بارے میں وقار یونس، مصباح الحق سے لے کر اس کے سب سے قریبی دوست شاہد آفریدی تک نے یہ کہہ دیا کہ اس ڈسپلن سے عاری اور خود غرض کھلاڑی کو کبھی ٹیم میں نہ لیا جائے۔ انضمام الحق کو یاد دلانا چاہیے کہ ڈسپلن مسائل پر دنیا کے تیز ترین باﺅلر شعیب اختر کو خود انضمام نے ہی دو سال ٹیم سے باہر رکھا تھا۔ شعیب اختر کے مقابلے میں یہ احمد شہزاد کس کھیت کی مولی ہے۔ انضمام نے ٹیم میں اظہر علی کی جگہ سیلف مین احمد شہزاد کو کھلا کر بہت گھاٹے کا سودا کیا ہے۔

کامران اکمل کی واپسی نوشتہ دیوار تھی اور ہونی بھی چاہیے مگر جس معیار پر کامران اکمل کو پرکھا گیا اسی معیار پر سہیل خان جو کہ پی ایس ایل کا ٹاپ وکٹ ٹیکر تھا سلیکشن کا حق دار تھا مگر پینتیس سالہ کامران اکمل تو پرفارمنس پر سلیکٹ ہو گیا اور تینتیس سالہ یعنی کامران اکمل سے دو سال چھوٹا سہیل خان زیادہ عمر کی وجہ سے انضمام کے شاہی دربار میں نا اہل قرار پایا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے دور میں ایسی زیادتیوں پر کوئی پوچھنے والا نہیں تو سلیم الٰہی اور عاصم کمال جیسوں کا کون والی بنتا؟

جاتے جاتے سرفراز کے بارے میں پی ایس ایل میں یہ تاثر میرے ذہن میں ابھرا ہے کہ سرفراز کو کپتانی تو پہلے ہی آتی تھی اب سرفراز میں بھی کپتانی آتی جا رہی ہے اور پاکستانی کرکٹ میں اگر کسی میں کپتانی آنا اس کے کیریئر کے لیے تین سو واٹ کے جھٹکے سے کم نہیں کیونکہ یہ پاکستان ہے آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، بھارت یا انگلینڈ نہیں۔ یہاں بس مصباح سٹائل ہی چل سکتا ہے۔ خان صاحب والے زمانے اب نہیں آنے والے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).