پاکستان اور ’’یومِ جمہوریہ‘‘


شاید آپ کے ذہن میں کبھی یہ خیال آیا ہو کہ بھارت ہر سال26جنوری کو انتہائی کروفر سے اپنا یومِ جمہوریہ یا ریپبلک ڈے مناتا ہے مگر ہم کیوں نہیں۔ جو لوگ سیاسی معاملات میں دلچسپی رکھتے ہیں انہیں علم ہے کہ ماضی کی محکوم ریاستیں اس دن کو بہت اہمیت دیتی ہیں جب وہ غلامی کا چولا اتار کر ایک جمہوریہ میں منتقل ہو گئیں۔ کوئی بھی ڈکشنری اٹھا لیں”جمہوریہ ‘‘ یا ”ریپبلک‘‘ سے مراد یہی لی جاتی ہے کہ کسی ملک میں بسنے والے عوام بادشاہت یا شخصی آمریت کو رد کرتے ہوئے آئینی طور پر تسلیم شدہ طریقہ کار کے تحت اپنی مرضی سے حکمرانوں کا چنائو کرتے ہیں۔

ایسی بات نہیں کہ ہم نے یہ دن کبھی نہیں منایا۔ میں اس سلسلے میں جو بیان کرنے جا رہا ہوں وہ حقیقت کسی افسانے سے بھی زیادہ دلچسپ ہے۔ بھارت اور پاکستان نے اگست 1947ء میں آزادی حاصل کی۔ آزادی کے فوراً بعد دونوں نے 1935ء کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ میں حسب ضرورت ردوبدل کرتے ہوئے ایک آئینی ڈھانچہ نافذ کیا۔ اس انتظام میں رسمی طور پر ہماری قانونی حیثیت ایک نو آبادیاتی ریاست کی تھی۔ ڈومینین سٹیٹس(Dominion status) کے تحت قانون سازی تاج برطانیہ کے نام پر ہوتی تھی اور برطانوی تاجدار کی سالگرہ پر سرکاری چھٹی ہوتی تھی۔بھارت نے اپنا آئین1950ء میں ترتیب دیا اور جس روز اسے نافذ العمل کیا گیا اس دن تاج برطانیہ سے رسمی تعلق ختم ہو گیا۔ اس دن کو ہر سال یوم جمہوریہ یا ریپبلک ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔

پاکستان میں آئین سازی کا عمل1956ء میں مکمل ہوا۔ وزیر اعظم چوہدری محمد علی نے گورنر جنرل سے آئین کی باقاعدہ منظوری حاصل کرنے کے لیے تاریخ مانگی۔ گورنر جنرل نے 23مارچ کا دن چنا اس سہانی صبح کو وزیر اعظم پاکستان دوسرے عمائدین کے ساتھ ایک سجی سجائی بگھی میں آئین کا مسودہ ساتھ لے کر گورنر جنرل کے پاس آئے۔ آئین پر دستخط ہونے کے بعد 1935ء کا ایکٹ متروک اور نیا آئین نافذ العمل تصور ہوا۔ شاید آپ کے ذہن میں یہ خیال آیا ہو کہ اس دن کا چنائو قرار داد پاکستان کے حوالے سے کیا گیا ہو گا۔ آپ ایسا سوچنے میں حق بجانب ہیں چونکہ اب 23مارچ کا تعلق قرار داد پاکستان سے جڑ گیا ہے مگر 1956ء میں ایسا نہیں تھا

اس کی دو وجوہات ہیں اولاً مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں قرار داد لاہور 23مارچ1940ء کو پیش ہوئی مگر اس کی منظوری24مارچ کو دی گئی۔ ثانیاً قرار دادِ لاہور میں ایک علیحدہ مملکت”پاکستان‘‘ کا ذکر نہیں تھا اور مطالبہ پاکستان باقاعدہ طور پر 1946ء میں منظور ہوا۔ یہی وجہ تھی کہ 1940ء سے لے کر 1947ء تک اور آزادی کے بعد بھی 23یا 24مارچ کا دن سرکاری طور پر منایا نہیں جاتا تھا اور نہ ہی تعلیمی اداروں اور سرکاری دفاتر میں تعطیل ہوتی تھی۔ گورنر جنرل کی طرف سے 23مارچ کا دن اتفاقاً چنا گیا تھا۔ اس دن کے چنے جانے پر وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا اور اسے ”یوم جمہوریہ یا ”ریپبلک ڈے‘‘ کے طور پر منائے جانے کا فیصلہ کیا گیا۔

سادگی پسند کابینہ نے یہ طے کیا کہ ہوائی جہازوں کے ایندھن کی قلت کے باعث کوئی فلائی پاسٹ نہیں ہو گا؛ البتہ فلائنگ کلب کے طیاروں سے بڑے شہروں میں چھپی ہوئی پرچیاں گرائی جائیں گی جن پر عوام الناس کے لیے ”یوم جمہوریہ مبارک‘‘ کا پیغام درج ہو گا۔ چند ہزار روپے کے اخراجات منظور ہوئے۔ یہ طے پایا کہ دارالحکومت میں غرباء اور مساکین کو کھانا کھلایا جائے اور قومی سلامتی کے لیے دعائیہ تقریبات منعقد کی جائیں۔ کابینہ کے اجلاس میں اس روز کے حوالے سے جو فیصلے کیے گئے ان میں قرار داد لاہور یا قرار داد پاکستان کا کوئی ذکر نہ تھا۔

1956ء کے بعد 1957ء اور 1958ء کو بھی 23مارچ یوم جمہوریہ کے طور پر منایا گیا اور عام تعطیل کے علاوہ دارالحکومت میں افواج پاکستان کا مارچ پاسٹ بھی تقریبات میں شامل تھا۔ جب اکتوبر1958ء کے مارشل لاء کے بعد آئندہ سال 23مارچ کا دن قریب آیا تو کابینہ کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس دن کو یوم جمہوریہ کی بجائے یوم پاکستان کے طور پر منایا جائے۔ یہ وقتی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ مارشل لاء کے نفاذ کے بعد1956ء کا آئین منسوخ ہو چکا تھا اور نئے آئین کے مسودے پر ابھی کام جاری تھا۔ ان دنوں 14اگست یوم پاکستان کے طور پر منایا جاتا تھا فیصلہ ہوا کہ 23مارچ کویوم پاکستان اور 14اگست کو یوم آزادی کے عنوان سے موسوم کیا جائے۔ گو چند سال بعد مارشل لاء اٹھا لیا گیا اور 1962ء اور بعدازاں1973ء کے آئین کے تحت پاکستان ایک ریپبلک ہی رہا مگر 23مارچ کا دن یوم جمہوریہ کی بجائے یوم پاکستان کے طور پر ہی منایا جاتا رہا۔

23مارچ کے دن کی نسبت قرار داد لاہور یا قرار داد پاکستان سے کب قائم ہوئی اس بارے میں بغیر جامع تحقیق کچھ کہنا مناسب نہ ہو گا۔ میرے خیال میں یہ تعلق اہل صحافت نے قائم کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قرار داد لاہور چاہے24مارچ کو منظور ہوئی ہو اسے مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں 23مارچ 1940ء کو ہی پیش کیا گیا تھا۔

گو پاکستان میں بوجوہ تاریخ کی صحت اور تحقیق کا رواج اس قدر عام نہیں مگر کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ یوم جمہوریہ کو نظر انداز کر دینا بھی مناسب نہیں۔23مارچ1956ء کا دن پاکستان کی جمہوری تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ تاج برطانیہ کی محکومی سے تعلق ختم کر کے ایک جمہوریہ بننے کا عمل رسماً ہی سہی‘ علامتی طور پر بہت اہمیت کا حامل ہے۔ شاید ہمارے پارلیمانی نمائندوں کو اس بارے میں غور و فکر کرنا چاہیے۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ اس دن کو ریاست پاکستان کے جمہوریہ بننے کے حوالے سے یاد رکھا جائے تو 23مارچ کو ”یوم پاکستان‘‘ کی بجائے ”یوم جموریہ پاکستان‘‘ کے طور پر منایا جا سکتا ہے۔ اس بات کی کوئی اور اہمیت ہو یا نہ ہو یہ تبدیلی پاکستانی قوم کے لیے ”جمہور کی حکمرانی‘‘ کی علامت کے طور پر ایک اہم پیش رفت تصور ہو گی۔ شاید سپیکر قومی اسمبلی یا چیئرمین سینٹ اس تجویز پر غور کرنا پسند فرمائیں۔
(بشکریہ روز نامہ دنیا)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر محمود

بشکریہ: روز نامہ دنیا

zafar-mehmood has 80 posts and counting.See all posts by zafar-mehmood