ایک احمدی کو سلام


\"muhammadیہ کالم ہماری اپنی داستان ہے۔ ہر انسان کی زندگی دلچسپ کہانیوں سے بھرپور ہوتی ہے۔ کچھ بیان کر دیتے ہیں یا بیان ہو جاتی ہیں۔ کچھ انسان کے ساتھ ہی اس دنیا سے رخصت ہو جاتی ہیں۔ ہماری کہانی بھی ہمارے ساتھ ہی دفن ہو جاتی اگر فیس بک ایجاد نہ ہوتی۔ فیس بک ویسے تو ایک اچھی خاصی لغویت ہے مگر کبھی کبھی لغویت سے بھی کام کی بات جنم لے لیتی ہے۔ 2002ءمیں ہم اس ملک کے ایک بہت ہی مشہور ریسرچ ادارے میں ایک پراجیکٹ پر عارضی طور پر کام کر رہے تھے۔ ان دنوں مالی حالات مخدوش تھے۔ سائیکل بھی نہیں ہوتی تھی۔ والد محترم کی مہربانی کہ انہوں نے اپنا ویسپا سکوٹر ہمیں عنایت کر دیا۔ ہمارے لئے یہ سکوٹررولز رائس سے بھی بڑھ کر تھا۔ اس سکوٹر نے تین نسلوں کی خدمت کی۔ (اب بھی ہمارے پاس ہے اور کام کرتا ہے۔) والد صاحب استعمال کرتے تھے۔ ہمیں سکول چھوڑا کرتے تھے۔ ہم ہوئے دوسری نسل۔ پھر ہم اپنے بیٹوں کو اسی سکوٹر پر سکول چھوڑا کرتے تھے۔
ہم اسی ویسپا پر اپنے دفتر میں جایا کرتے تھے۔ اس ویسپا پر ہم اپنے آپ کو دی رومن ہالیڈے کا گریگری پیک سمجھا کرتے تھے۔ بس ایک پرنسس تھی جو نہیں تھی اس کی بیک سیٹ پر۔ اس ادارے میں ایک انتہائی شریف اور خوش اخلاق پی ایچ ڈی سکالر ہوا کرتے تھے (اب بھی ہیں)۔ہم انہیں اور یہ ہمیں بہت پسند کرتے تھے۔ وجہ دوستی خیالات میں ہم آہنگی تھی۔ ڈاکٹر صاحب احمدی تھے۔ پر ہمیں اس سے کیا لینا دینا۔ ہمارے بہترین دوست تو الا ماشااللہ دہریے ہیں۔ ہم ڈاکٹر صاحب کو السلام علیکم کہتے تھے اور اگر وہ پہل کرتے تو ہم انہیں وعلیکم السلام کہا کرتے تھے۔ یہ بات ہمارے سپر وائزر کو بہت ناگوار گذرتی تھی۔ یہ ادارے میں لائبریرین تھے۔ نئی نئی داڑھی رکھی تھی۔ پہلے شیو کیا کرتے تھے۔ مونچھیں نہیں منڈواتے تھے۔ اسلام کے سچے شیدائی تھے۔ بہت متقی ، پرہیزگار اور مذہبی۔ دین سے عشق اتنا کہ ممتاز قادری بھی شرما جائے۔ حد درجے عبادت گزار۔ چاشت کی نمازبھی قضا نہ کرتے تھے۔ دفتر کے اوقات ہی میں لائبریری میں مصلہ بچھا کر گھنٹوں چاشت کی نماز پڑھتے اور اس کے بعد کمپیوٹر پر تاش کھیلتے۔ ان کا سٹاف ان سے پہلے دفتر آتا۔ یہ چونکہ گاڑی چلاتے ہوئے بھی عبادت میں مشغول رہتے اس لئے لیٹ ہو جاتے۔ ناشتہ بھی نہیں کرتے تھے۔ آتے ہی دفتر کی بغل میں موجود کھوکھے پر پہنچ جاتے۔ تھے سخی۔ مریدوں کو بھی ساتھ لے جاتے۔ ایسا نہیں تھا کہ لائبریری کو تا لا لگ جاتا۔ ایک آدھ مرید پیچھے موجود رہتا۔
ہم یہ بتانا تو بھول گئے کہ موصوف کو سب لوگ احترام سے ”شاہ جی ….‘ کہتے تھے۔ تو شاہ جی طبیعت کے بھی بادشاہ تھے۔ کھوکھے پر ناشتہ کرتے سادہ سا۔ دودھ پتی، بن اور انڈہ۔ اپنے مریدوں کو بھی دودھ پتی پلاتے اپنے خرچے پر۔ جسے ناشتہ کرنا ہو وہ ناشتہ بھی کر لے۔ ویسے کھوکھا بھی کمال کا تھا۔ زبردست دودھ پتی بناتا تھا۔ کھانا بھی کمال کا تھا۔ بیڑہ غرق ہو اسامہ بن لادن کا۔ ہمارے کھوکھے کے کھانوں کا دشمن ہو گیا۔ نائین الیون کر دیا۔ جس کے نتیجے میں اس جاہل جارج بش نے افغانستا ن پر چڑھائی کردی۔ نتیجتاً ڈپلومیٹک انکلیو جہاں یہ کھوکھا واقع تھا، ریڈ زون قرار پایا اور بالآخر ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا۔
تو صاحبو گیارہ بجے تک دودھ پتی اور ناشتہ چلتا رہتا۔ ساڑھے بارہ بجے دوپہر کے کھانے کی فکر پڑ جاتی۔ شاہ جی مریدوں کے ہمراہ یا تو کھوکھے پر یا پھر کسی بھی نزدیکی ڈھابے پر نازل ہو جاتے۔ تین بجے تک کھانا چلتا رہتا۔ کھوکھے یا ڈھابے کی کرسی شاہ جی کے لئے منبر کا کام دیتی۔ دین کی باتیں ہوتیں۔ پہنچے ہوئے پیروں کے قصے بیان ہوتے۔ شاہ جی بولتے جاتے۔ مرید جھومتے جاتے۔ ’راجا بین بجاتا جائے، رانی گانا گاتی جائے، طوطا حلوہ کھاتا جائے‘ والا منظر ہوتا۔ شاہ جی کے سب مرید بہت با ادب چنانچہ بامراد تھے۔ صرف ہم ہی تھے جو ان سے سوال کرتے تھے۔ شاہ جی کے پاس ہمارے سوالوں کا تسلی بخش جواب نہ ہوتا۔ بیچارے جھنجھلا جاتے…. اور ہم پر نامرادی کا فتویٰ لگ جاتا۔ شاہ جی کو فرمانبردار مرید پسند تھے۔ ہم اڑیل ٹائپ کے ’مرید‘ تھے۔ شاہ جی کو سب سے زیادہ دکھ اس وقت پہنچتا جب ہم ڈاکٹر صاحب کو سلام کر دیتے یا ان کے سلام کا جواب دے دیتے۔ ہماری اس حرکت سے ہم پر کفر کا فتویٰ بھی لگتا۔ ہم دائرہ اسلام سے خارج بھی ہوتے۔ اور کیوں نہ ہو۔ ہماری اس حرکت سے اسلام خطرے میں پڑ جاتا تھا۔ شاہ جی کے نزدیک ’قادیانی‘ سے دوستی رکھنے والا اور اسے سلام کرنے والا مرتد تھا اور مرتد کی سزا …. خیر آپ تو سمجھتے ہیں نا۔ بار بار سمجھانے کے باوجود ہم نے ڈاکٹر صاحب سے علیک سلیک ترک نہ کی۔ شاہ جی کا بس نہ چلا تو دفتر میں خبر اڑائی گئی کہ ہم ’را‘ اور آئی ایس آئی کے ایجنٹ ہیں۔ خیر گزری کہ اس خوبصورت الزام میں ہمیں منگولوں کا ایجنٹ قرار نہیں دیا۔ اگر دے دیتے تو ہم کیا بگاڑ سکتے تھے۔ثبوت کی ضرورت شاہ صاحب نے کبھی بھلے وقتوں میں محسوس نہیں کی تھی تاہم ہمارے ضمن میں انگریزی اخبارات میں چھپی ہوئی ’ہماری رپورٹیں‘ شاہ کے کام آئیں۔ یہ پروپیگنڈہ بھی کیا گیا کہ ہمیں انگریزی لکھنا نہیں آتی، ہم کسی سے لکھواتے ہیں اور تس پر بھی ہمارے رسوخ کا یہ عالم ہے کہ یہ رپورٹیں گھنٹوں میں اخبارات میں چھپ بھی جاتی ہیں۔ واہ، واہ کیا بات ہے! کاش ہم واقعی کسی کے ایجنٹ ہو سکتے۔ ہم تو ساری عمر ’مشتری ہوشیار باش‘ کی صدا لگاتے رہے کہ کوئی ہماری خدمات لے لے۔ ہمارے تجزئیے دس روپے فی کلو ہیں۔ کسی نے ہمیں گھاس ہی نہیں ڈالی۔
اس پراپیگنڈے کا بھی ہم پر کچھ اثر نہ ہوا۔ مگر شاہ جی پر عزم تھے کہ ایک نہ ایک دن ہمیں راہِ راست پر لے آئیں گے۔ کھوکھے پر دودھ پتی چلتی رہی۔ شاہ جی کمال کے عاشق مزاج بھی تھے۔ دفتر کی ہر خاتون اور لڑکی کے بدن کا ایکسرے ایک ہی نظر میں کر لیتے اور تمام ’حساس اعداد و شمار‘ ایسے بتاتے جیسے تنتکار اور طبلے والے کے درمیان چھانڈ چل رہی ہو۔ ایک نے لہرا سات ماترے پر رکھا ہو اور طبلے والا بارہ میں کر رہا ہو چھانڈ اور مجال ہے کہ سم ایک ساعت بھی آگے پیچھے ہو جائے۔ ایسی چھانڈ تو ہم نے صرف شاہد پرویز اور آنندو چٹر جی یا شیو کمار شرما اور ذاکر بھائی(استاد ذاکر حسین) کے درمیان ہی دیکھی۔ شاہ جی خود بھی دو عدد انتہائی شائستہ بیٹیوں کے باپ تھے۔ ایک دن دونوں بچیاں دفتر آئیں۔ دیکھ کر دل نے خواہش کی کہ یا خدا ایسی ہی دو خوبصورت بچیاں ہمیں بھی دے۔ وقت مہربان رہا۔ جب ہمارے دونوں بیٹے جوان ہو گئے تو اللہ نے دو بیٹیاں اتنی ہی خوبصورت عطا کیں۔ ایسی نعمت تو قسمت والوں کو نصیب ہوتی ہے۔ پتہ نہیں کونسی نیکی کا صلہ تھا جو ہمیں یہ دولت نصیب ہوئی۔
نہ شاہ جی بدلے نہ ہم۔ ہم دفتر میں دیر تک کام کیا کرتے تھے۔ جب سب چلے جاتے تھے تو ایک ساتھی اونچی آواز میں واہیات انڈین گانے لگایا کرتاتھا۔ ہم بڑے غلام علی خان کو سننے والے۔ یہ شور وغل کیسے برداشت کر سکتے تھے۔ ایک دن مذاق میں یہ کہہ بیٹھے کہ اس کنجر خانے میں کام نہیں ہو سکتا۔ شاہ جی تو موجود بھی نہیں تھے پر مدعی بن گئے۔ ہم پر الزام تھا دل آزاری اور توہین کا۔ کہ ہم نے ایک عظیم الشان ریسرچ ادارے کوجہاں بڑی بڑی نابغہ روزگار ہستیاں تحقیق کرتی ہیں کنجر خانہ کہہ دیا۔ ہم نے لاکھ تاویلیں پیش کیں۔ ہم نے شاہ جی کے خلاف بیان دیا کہ وہ کس کس القابات سے اسی عظیم ادارے کی خواتین کو پکارتے ہیں۔ کس قسم کے اعلی و ارفع خیالات رکھتے ہیں۔ کمیٹی کے سامنے ہمارے بیان کی تائید شاہ جی کے مریدوں نے بھی کی۔ کیونکہ گواہان ایک ایک کرکے کمیٹی کے سامنے تنہا پیش ہوئے تھے۔ مگر ادارے نے فیصلہ ہمارے خلاف دیا۔ Off the record کمیٹی کے ارکان نے ہمارے موقف کی تائید کی۔ مگر on the recordوہ اسلام کے مجاہد کے آگے ڈھیر ہو گئے۔ ہمیں نوکری چھوٹنے کاذرہ برابر بھی افسوس نہ ہوا۔ دکھ ہوا ادارے کی منافقت اور بے بسی پر جو انسانی حقوق کی بات کرتا ہے۔ عورتوں کے حقوق کا علمبردار ہے۔ جو رواداری کا پرچار کرتا ہے جنسی ہراسانی کے خلاف آواز اٹھاتا ہے۔ ایسا ادارہ جہاں ہم کام کرنے کے خواب دیکھا کرتے تھے۔ جہاں کام کرنا فخر سمجھا جاتا تھا۔ مگر ہوا کیا؟ نام بڑے اور درشن چھوٹے!
ہماری مدد کی ہمارے عزیز صحافی دوست ظفر اللہ خان صاحب نے۔انہیں معلوم تھا ہم بے روزگار ہیں۔ ہمارے لئے ایک ماہ کی consultancy کی گنجائش پیدا کی۔ ہماری مدد کی۔ ہمارے سابقہ باس علی توقیر شیخ صاحب نے جو لیڈ پاکستان کے سربراہ ہیں۔ ہمیں اس سے بھی بڑا درجہ ، عزت اور پیار دیا جو ہم ان کے پاس چھوڑ آئے تھے۔ ہمارے لکھنے پر کوئی قدغن نہیں لگائی باوجود اس کے کہ ریاستی اداروں کو ہمارا لکھا کبھی پسند نہیں تھا۔ ہم شکر گزار ہیں نجم سیٹھی اور ان کی اہلیہ جگنو محسن کے جنہوں نے دی فرائیڈے ٹائمز کے دروازے ہم پر کھول دیے۔ یہیں سے ہمیں غیر ملکی اخبارات میں لکھنے کا موقع ملا اور وقت مہربان ہو گیا۔ اب ہم فیس بک پر وقت برباد کرتے ہیں۔ اسی طرح وقت برباد کرتے ایک روز فیس بک پر ڈاکٹر صاحب کو ڈھونڈ لیا۔ دوستی کی درخواست بھیجی جو انہوں نے فوراً قبول کر لی۔ ڈاکٹر صاحب ہمیں نہیں بھولے تھے۔ ہمیں اعتراف ہے کہ ہم بھول گئے تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کی شادی میں ہمیں مدعو کیا تھا۔ ہم ملک میں نہیں تھے۔ شرکت نہ کر سکے۔ اچھا ہو کہ فیس بک نے دوبارہ ملا دیا۔ کچھ عرصے قبل ڈاکٹر صاحب نے اپنی ایک کامیابی کا ذکر فیس بک پر کیا۔ سب نے مبارکباد دی۔ معلوم ہوا کہ شاہ جی بھی ڈاکٹر صاحب کے فیس بک فرینڈ ہیں۔ ہمیں ہنسی آئی۔ اور تو کچھ نہیں ہوا، بس یہ کہانی بیان کرنے کا بہانہ مل گیا۔

محمد شہزاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد شہزاد

شہزاد اسلام آباد میں مقیم لکھاری ہیں۔ ان سے facebook.com/writershehzad پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

muhammad-shahzad has 40 posts and counting.See all posts by muhammad-shahzad

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments