میرا اتنڑ تمہاری تقریر اور فکر سے زور آور ہے


پنجاب یونیورسٹی میں پشتونوں کے ثقافتی دن یعنی نوروز کے موقع پر ہونے والے واقعے نے تو میرے جیسے بہت طالبعلموں کی آنکھ اس لئے کھول دی کہ اسلامی جمعیت طلبہ جن کو اپنی ولولہ انگیز تقاریر اور تحریروں پر ناز تھی وہ اتنڑ یعنی پشتون افغان ثقافتی رقص کے سامنے بے بس ثابت ہورہے تھے اس لئے حملہ جہاد سمجھ کر کیا گیا۔

سوال یہ ہے کہ مولانا مودودی، سید قطب اور شیخ اسامہ بن لادن کے وہ نظریات جو واشنگٹن اور ماسکو کو جھنجھوڑنے اور للکارنے اور ان پہ طوفان لانے کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ اور ان کے پیروکار تو آج تک انہی مذہبی جنونیت پر مبنی نام نہاد خیالات کو اسی طرح بیان کرتے نہیں تھکتے۔ مگر حقیقت میں شاید پشتونوں کے کلچر ڈے اور ان کی اتنڑ سے ان سب کو خطرہ لاحق ہونے لگا ہے۔ واشنگٹن اور ماسکو کو دھمکانے والوں کی پشتون طلبہ کی اتنڑ پر حملے نے شاید یہ واضح کیا ہے۔ کہ عوام دین مبین اسلام کے روپ میں علمائے سو اور مذہبی جنونیت کی دعووں اور منافرت پر مبنی افکار کو شکست دینے میں کامیاب ہونے لگے ہیں۔ اس لئے ان کو اب خطرہ کسی بھی بیرونی ملک یا قوت سے نہیں بلکہ پشتونوں کی ثقافتی دن اور اتنڑ سے ہے۔

مگراتنڑ کو اپنی تاریخی اعتبار سے اگر لیا جائے تو یہ مولانا رومی کے وطن افغانستان کا وہ تاریخی اور ثقافتی ورثہ ہے جس کا سماج کی ترقی، دفاع، امن، پشتونولی اور افغانیت میں بڑا کردار رہا ہے۔ یہاں تک کہ روحانیت کے پیرو، اور امن کے چاہنے والے صوفیوں کی دھمال کو کار ثواب مان کر دل بھر کے اس میں حصہ لیتے ہیں۔ یہ نہ صرف انسان کی جسمانی فٹنس کےلئے ایک زبردست ریہرسل ہوتی ہے بلکہ روحانی امن، محبت اور اخوت کی درس دیتے ہوئے انسان میں ولولہ اور جذبہ برفا کرتی ہے۔

اتنڑ کی اپنی تاریخ ہے اور یہ پشتونوں کے تمام علاقوں میں چاہے وہ افغانستان میں ہو یا پاکستان میں ہو؛ البتہ اس کی سٹپس جن کی بنیاد ایک ہی ہوتا ہے ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں مختلف ہوتا ہے۔ دو قسم کی اتنڑ ہوتی ہے یا تو مرد اپنے لئے کرتے ہیں اور عورت اپنے ہی گروپس بنا کے ڈھول کے گرد گھومتے ہیں۔ لیکن وزیرستان، لورالائی، پشین اور چمن کے گرد و نواح میں ایک اتنڑ کو [گڈہ امی] جس میں مرد اور عورت کسی خاص تعداد کے تحت مکس ہوتے ہیں۔ یعنی ہر ایک لڑکے کے بعد ایک لڑکی اس طرح گھول دائرہ بنا کر گھومتے ہیں۔

بعض بزرگوں کا کہنا ہے کہ یہ جو گڈہ امی یا مکس اتنڑ ہوتا تھا۔ یہ کسی شادی کے موقع پر آگ کے ارد گرد نوجوانوں کی ٹولیاں بنتی تھی اور جو ماں باپ تھے وہ دیوار سے ٹیک لگا کر اتنڑ کو انجوائے کرنے کے ساتھ ساتھ داد دیتے تھے۔ اور کمال کی بات یہ ہوتی ہے کہ والدین اپنے نوجوان بچی یا بچے کی اتنڑ میں جو دلچسپی ہوتی تھی وہ دیکھ رہے ہوتے تھے۔ انٹرسٹ سے میرا مراد، والدین کو پتہ چل جاتا تھا کہ ان کے بچے جو ایک دوسرے کو اتنڑ میں اشارے اور ایک دوسرے کی پیروی کرنے پر سمجھ جاتے تھے کہ ان نوجوانوں کی بنتی ہے۔ تو خاندان بیٹھ کر جوڑیاں بنانے کےلئے بحث کرتے تھے۔ اس طرح ایک خوشی کے موقع پر اکثر ایک دوسری خوشی کا اشارہ دیا جاتا تھا۔

پشتونوں کے جتنے بھی تاریخی جرگے یا پھر علاقائی طور پر جرگے ہوتے تھے تو اس میں ڈھول اور اتنڑ کا ہونا لازمی ہوتا تھا۔ اور اس جرگے کے آخر میں خوشی کے فیصلے کے بعد تو نوجوان اور بزرگ اپنے لمبے بالوں کو تیل میں نہلا کر سر ہلا ہلا کر اتنڑ کرنے لگ جاتے۔ جو نہ کہ ان کی صحت کو بلکہ روح کو خوش کرانے اور ان میں امن، محبت کی جذبے کو اور بھی بڑھانے کی وجہ ہوتی تھی۔

دوسرا ڈھول جو پشتونوں کی ثقافت رہی ہے؛ اور جنگ سے لے کر خوشی کے پیغامات دینے کےلئے بجایا جاتا تھا۔ اور یہ کمونیکیشن کا ایک زبردست ذریعہ بھی ہوتا تھا۔ مثال کے طور پر اگر درخت لگانے کا موسم ہو اور نوروز کے موقع پر درخت لگانے ہو تو آج بھی افغانستان کے بیشتر علاقوں میں جہاں لوگوں کو [اشر] یعنی اجتماعی کام کی دعوت دی جاتی ہے تو ڈھول بجا کراتنڑ کرا کر لوگوں کو دعوت دیا جاتا ہے کہ آج شجر کاری ہورہی ہے۔ اس طرح درخت بھی لگائے جاتے ہیں، وقفے وقفے سے فولکلوری سندری جو غزل اور ٹپے یا پھر لنڈی جو کہ کلاموں کے تین اقسام ہیں گائے جاتے ہیں۔ اور اس طرح کام بھی ہوتا ہے اور خوشیاں بھی بنٹی جاتی ہے۔

تیسرا جو اہم کام تھا ڈھول اور اتنڑ کا یہ افغانوں کی لشکروں کو جمع کرکے ان کی اس وقت کی آرگنائزنگ کے لئے بے حد ضروری تھی۔ اتنڑ جس میں سٹپس اور گھومنے کے انداز چاہے 10 لوگ حصہ لیتے ہو یا پھر 100 سب کی ایک ہی تالی، ایک ہی سٹپ، ایک ہی آواز سے ٹپہ اٹھانا، ایک ہی انداز میں گھومنا اتنڑ کی اصل روح رواں ہوتا ہے۔ اس طرح جو تاریخی ملٹری تیاری ہوتی تھی اس میں اتنڑ کا مقام واضح نظر آ رہا ہے۔

اب جب پشتونوں کی سرزمین دہشت گردی و انتہا پسندی سے دوچار ہے، ایک لاکھ سے زیادہ لوگ خود کش حملوں، بم دھماکوں، ٹارکٹ کلنگز اور آئی ای ڈیز کی نذر ہوگئے ہیں؛ ان کی نہ جماعت، نہ حجرہ اور بازار محفوظ ہے۔ حتیٰ کہ شادی بیاہ کے پروگراموں کو بھی بموں سے اڑائے جانے کے واقعات ہم سب کے سامنے ہیں۔ چاہے سوات کے ملا فضل اللہ اور صوفی محمد کے شکل میں دی جانی والی سزا ہو یا پھر حکیم اللہ محسود اور بیت اللہ محسود کی شکل میں وزیرستان کی صورتحال ہو۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے آئی ڈی پیز بن کر اپنے گھر بار چھوڑ کر کیمپوں میں سکونت اختیار کر لی۔ اور تعلیمی اداروں کا حال یہ رہا کہ مذہبی جنونی تو تعلیمی اداروں کو بھی اپنے عقائد کے منافی سمجھ کر پشاور آرمی پبلک سکول اور باچا خان یونیورسٹی سمیت 1400 تعلیمی اداروں کو بموں سے اڑا گئے۔ جس کی وجہ سے لاکھوں طلبہ و طالبات علم کی زیور سے آراستہ ہونے سے محروم رہے۔ اب جب پشین، کوئٹہ، وزیرستان، سوات، مردان، چارسدہ، ڈی آئی خان، ٹانک، بنوں کے نوجوان پنجاب یونیورسٹی کو اپنی تعلیمی مرکز بنائے ہوئے ہے اور یہاں کی پرامن فضا میں تعلیم حاصل کرنے آئے ہیں۔ تو اپنی ثقافت ساتھ لیکر آئیں گے اور اسی خاطر جشن نوروز کے سلسلے میں پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر صاحب کے مطابق ان پشتون بچوں نے درخواست دیکر اپنی کلچر ڈے منانے کی اجازت لی تھی۔ اور دوسری طرف جماعت اسلامی کے مرکزی جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ صاحب کا کہنا ہے کہ جامعات کے رولز کے مطابق ناچنا ٹاپنا اور ڈانس کرنے کی اجازت نہیں۔ اس لئے وہ پشتون طلبہ پر حملے کو ایک کور دے کر اپنے پالے ہوئے جمعیت کے نوجوانوں کو اخلاقی پولیس کا مقام دینا چاہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).