میاں صاحب سندھ جانا ہے تو مریم نواز کو میدان میں اتاریں


نوازشریف نے سندھ کے مسلسل دورے شروع کر دیے ہیں۔ ان دوروں نے سیاست میں اک ہلچل سی مچا دی ہے۔ مسلم لیگ نون نے سندھ کو نظرانداز کر رکھا تھا۔ یہ ایک سوچی سمجھی پالیسی تھی۔ سوچ یہ تھی کہ سندھ میں پی پی کو نہ چھیڑا جائے۔ اپنی جیت کا تو کوئی فوری خدشہ ہے نہیں۔ سیاسی پوزیشن ہی خیر خیریت والی ہے۔ جب سادہ اکثریت لینا ہی ممکن نہیں تو پھر پی پی کو سندھ میں کھلا میدان دیا جائے۔

اس پالیسی کا فائدہ یہ تھا کہ پی پی طاقت کے کھیل میں ایک سٹیک ہولڈر بن گئی۔ سسٹم کو ایک استحکام مل گیا سارے حصہ داروں نے یہ سمجھ لیا کہ جب اپنی طاقت کے مطابق شئیر مل رہا تو زیادہ کے چکر میں نہ پڑا جائے۔ زیادہ حصہ لینے کا یہ چکر ہی تھا جو غیر سیاسی قوتوں کو مداخلت کا موقع دیتا تھا۔ یہ وہی موقع ہے جو بری کارکردگی کے باوجود کسی نے حاصل کرنے سے اب گریز ہی کیا ہے۔ ایک وجہ تو ادارے کا اپنا فیصلہ ہے جبکہ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ کوئی سیاسی کندھا دستیاب ہی نہیں ہے۔

الیکشن میں اب سال سے کم وقت رہ گیا ہے۔ ایسے میں آصف زرداری بھرپور انداز میں سرگرم ہو گئے ہیں۔ انہیں اپنی پاور بیس سندھ میں کوئی خاص سیاسی چیلنج درپیش نہیں ہے۔ ایسے میں انہوں نے سیاسی مہم جوئی شروع کی ہے۔ یہ ان کا حق ہے کہ وہ مرکز میں دوسرے صوبوں میں حکومت بنائیں۔ اس کے لیے اپنا گیم پلان مرتب کریں۔

آصف زرداری کا گیم پلان بہت سادہ سا ہے۔ وہ بس اتنا ہی چاہتے ہیں کہ ستر اسی سیٹیں ان کی پارٹی جیت جائے۔ جب ان کے ہاتھ میں اتنی سیٹیں آ جائیں گی تو وہ مرکز میں ایک مخلوط حکومت تشکیل دے سکیں گے۔ نون لیگ کا انداز حکومت شراکت داری پرکوئی بہت یقین نہیں رکھتا۔ آصف زرداری سیاسی سمجھوتے دلیری سے کرتے اور نبھاتے ہیں۔

مسلم لیگ نون اب بھی سندھ کو نظرانداز ہی کیے رکھتی لیکن نوازشریف سیاسی چیلنج کو بروقت بھانپ گئے ہیں۔ آنے والے الیکشن میں تحریک انصاف کا مسلم لیگ نون سے پنجاب میں ایک بھرپور دنگل متوقع ہے۔ کپتان سیاسی غلطیاں کر جائے تو اور بات ہے۔ ورنہ لگ یہی رہا ہے کہ نون لیگ پی ٹی آئی کے ہاتھوں کئی سیٹیں ہارے گی۔

سیٹوں کا یہ خسارہ مسلم لیگ نون نے کہیں سے تو پورا کرنا ہے۔ یہ خسارہ مسلم لیگ نون زیادہ آسانی سے کے پی کے میں پورا کر سکتی ہے۔ ہزارہ میں اس نے کچھ میگا پراجیکٹ شروع کر رکھے ہیں۔ امیر مقام وادی پشاور اور مالاکنڈ ڈویژن میں بہت ہی سرگرم ہیں۔ جنوبی اضلاع میں مولانا کے ساتھ اتحاد بنا کر پشاور ویلی میں اے این پی کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کر کے تحریک انصاف کا زور توڑنا ممکن ہے۔ یہ مسلم لیگ نون کی سیاسی گیم تھی۔

ہوا یہ کہ آصف زرداری اپنے ستر اسی سیٹ والے منصوبے کے ساتھ سامنے آ گئے۔ انہوں نے پنجاب اور کے پی سے ہی یہ اضافی سیٹیں لینی ہیں۔ کے پی میں انہوں نے خاموشی سے بہت سے ایسے کام کیے ہیں کہ وہ ایک ڈارک ہارس ثابت ہو سکتے ہیں۔ کپتان زرداری اتحاد علانیہ ہو یا غیر علانیہ آصف زرداری پی ٹی آئی کو استعمال کر کے نون لیگ کو رگڑا لگائیں گے۔ کے پی میں اگر یہ اتحاد غیر علانیہ بھی ہوا تو پی پی فائدے میں رہے گی۔

ان حالات میں نوازشریف نے سندھ کے دورے شروع کر دیے ہیں۔ ان دوروں کا جواب پی پی نے یوں دیا ہے کہ مسلم لیگ نون سندھ کے صدر اسماعیل راہو کے بارے میں اطلاعات آ رہی ہیں کہ وہ پی پی میں شامل ہو رہے ہیں۔ مسلم لیگ نون کا سندھ میں کوئی حال نہیں ہے۔ اس کے پاس سندھ میں نہ کوئی امیدوار ہے نہ کارکن بس ووٹر ہی ہیں۔ یہ ووٹر بھی لاکھ والے حلقے میں سو پچاس ہی ہیں۔

اس حالت کے باوجود مسلم لیگ نون اگر چاہے تو سندھ سے سیٹیں جیت سکتی ہے۔ یہ جیت ممکن بنانے کے لیے سیاسی سنجیدگی درکار ہے۔

اگر واقعی مسلم لیگ نون سندھ میں فوری سرگرم ہونا چاہتی ہے تو اس کے بہت سے طریقے ہیں۔ ایک آسان ترین طریقہ یہ بھی ہے کہ پی پی کو اس کے گھر میں چیلنج کر دیا جائے۔ لاڑکانہ اب بھی پی پی کا مضبوط گڑھ ہے وہاں جیت کے خواب ہی دیکھے جا سکتے ہیں۔ لیکن پی پی پر اب کنٹرول لاڑکانے کے بھٹو چہروں کا نہیں ہے۔ نوابشاہ کے زرداریوں کا ہے۔

نواب شاہ کتنا زرداریوں کا ہے اس کا اندازہ شہر کے نام سے ہی ہوتا ہے۔ سیدوں کی دی ہوئی زمین پر اس شہر کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اس ضلع کا نام بدل کر بے نظیر آباد رکھ تو لیا گیا۔ لیکن نام کی یہ تبدیلی کوئی بہت خوش دلی سے نہیں قبول کی گئی تھی۔ زرداری کبھی بھی نواب شاہ میں بڑے سیاسی کھلاڑی نہیں رہے۔ سیاسی ملاکھڑے سیدوں جتوئیوں ڈھاریوں میں ہی ہوتے رہے ہیں۔

یہاں اردو بولنے والوں کا ایک بڑا ووٹ ہے جو متحدہ کو پڑتا تھا۔ اتنا ہی ووٹ پنجابی سیٹلروں کا ہے۔ رند اور جمالی وڈیرے بھی یہاں مضبوط ہیں۔ بلوچستان کے جمالی سردار اور پی ٹی اے بلوچستان کے سردار یار محمد رند بھی یہاں سے اچھے امیدوار ہو سکتے ہیں۔ وہ اگر نہ بھی جیتیں تو آسانی سے ہارتے بھی نہیں۔

نوازشریف واقعی سندھ میں اینٹری چاہتے ہیں تو نواب شاہ کی سیٹ سے مریم نواز کو امیدوار بنا لیں۔ رونق لگ جائے گی انہیں آسانی سے ہرانا ممکن نہیں ہو گا۔ اس ایک سیٹ کو بچانے کے لیے آصف زرداری کو بار بار اپنے شہر آنا پڑے گا۔ جتنی بار آئیں گے مقابلہ اتنا ہی سخت ہوتا جائے گا۔ اس ایک چھوٹے سے سیاسی فیصلے کا اثر ارد گرد کے شہروں کی سیٹوں پر بھی پڑے گا اور زوردار سیاسی مقابلے دیکھنے میں آئیں گے۔ امیدوار بھلے جتنے بھی کمزور رہے مقابلے دیکھنے والے ہوں گے۔

یہ کہنے میں آسان لگتا ہے۔ آپ کو کیا لگتا ہے کہ یہ بات وسی بابے کو پتہ ہے اور نوازشریف یا مسلم لیگ نون والوں کو پتہ نہیں ہے۔ ہماری سیاسی جماعتیں جتنی بھی جنگ آزما ہوں اب پارٹی لیڈر حضرات کو مشکل میں نہیں ڈالتی ہیں۔ دو ہزار آٹھ کے الیکشن میں اسفند یار ولی خان کےخلاف پی پی کے مضبوط امیدوار کا حشر خود پی پی نے ہی کر کے سیٹ اسفندیار یار کو جتوا دی تھی۔ مولانا کو اسمبلی پہنچنے کے لیے سہولت فراہم کر ہی دی جاتی ہے۔ نوازشریف کے مقابلے پر بھی کبھی کوئی تگڑا امیدوار میدان میں نہیں اترتا۔

سندھ میں سیاسی طور پر سرگرم ہونے کے کئی طریقے ہیں۔ سب سے آسان روٹ نواب شاہ والا ہی ہے۔ سندھ کے وڈیرے نوازشریف کا ساتھ دینے سے پہلے ان کی سنجیدگی کا اندازہ لگانا چاہتے ہیں۔ تو ٹیسٹر حاضر ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہوتا تو وڈیروں کو آرام ہی کرنا چاہیے بلاوجہ اپنی ٹکور پی پی سے کرانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi