صد شکر میں احمدی پیدا نہیں ہوا


کبھی ایسا تھا کہ سردیوں میں راول پنڈی شہر میں کورا پڑا کرتا تھا۔ گھاس پر اوس جم جاتی، نالیوں کی سطح پر برف کی دبیز چادر دکھائی دیتی۔ بچپن وہ سفید بھالو ہے، کہ ننگے بدن گھومنے سے بھی سرد ہوا کے جھونکے کا احساس نہیں ہوتا۔ وہ وہیں کہیں رہتی تھیں، لیکن ہم محلے کے سب بچے ڈرتے تھے، کہ اسکول جاتے ان اینگلو انڈین نانی سے سامنا نہ ہو، جو راہ چلتے روک کر ڈانٹ دیتی تھیں۔

“سویٹر کے بٹن کیوں‌ نہیں بند کیے؟”

“مفلر کانوں پر کیوں نہیں اوڑھا؟”

“دستانے ہاتھ میں کیوں پکڑے ہیں، پہنتے کیوں نہیں؟”

صبح اسکول جاتے محلے کے ہر بچے کی نظر سڑک کے اُس موڑ پر ہوتی، جس کے دوسری طرف چرچ تھا، وہیں سے جھریوں زدہ چہرہ لیے، اینگلو انڈین طرز کا گگھرا پہنے وہ جگت نانی نمودار ہوتی تھیں۔ انھیں پاتے ہی ہر کوئی کانوں کو ڈھک لیتا، سویٹر کے بٹن کس لیتا، ہاتھ جیبوں میں ٹھونس لیتا۔ ہر بچے کو ڈانٹ دینا گویا نانی کا بنیادی انسانی حق تھا۔ مجال ہے کسی بچے کے وارث نے نانی کو روکا ہو ٹوکا ہو۔ میرے بچپن میں پاکستان میں اس اسلام کا دور دورہ نہ تھا، جیسا اب ہے؛ ورنہ کیوں کر اس اینگلو انڈین نانی کی اتنی جرات ہوتی کہ بعض اوقات تو کسی ایسے بچے کے گھر جا کر اس کے والدین کو ڈپٹ دیا کرتی جسے صحیح طرح سے ڈھانپ کر نہ بھیجا گیا ہو۔

اینگلو انڈین کون ہوتے ہیں، بچپن میں ان باتوں کی خبر نہ تھی۔ غالباً ساتویں یا آٹھویں جماعت میں تھا؛ ایک ہم جماعت نے پوچھا، تم کون ہو۔ رٹا رٹایا جواب دیا، ہم مسلمان ہیں۔ اس نے مزید استفسار کیا کہ کس فقہے سے ہو؛ تب مجھے شعور حاصل ہوا کہ صرف مسلمان ہونا کافی نہیں۔ گھر آ کے امی سے پوچھا کہ ہم کون ہیں، وہی جواب کہ ہم مسلمان ہیں؛ یہ تو مجھے معلوم ہی تھا، لہٰذا فقہے کی بابت سوال کیا تو امی کا جواب تھا، بس اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ میں مسلمان کیوں ہوں؛ اس لیے کہ میں مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا، اور فرقہ بندیوں کا شکار اس لیے نہ ہوسکا کہ وہ گھرانا اتنے “دقیق علمی مباحثوں” سے دور دور ہی رہا، جس سبب میں ایمان لاتا کہ مسلمان وہی ہے جو میرے فقہے سے ہے، دوسروں کا ایمان مشکوک ہے۔ خدا نے مجھے پاکستانی مسلمان گھرانے میں پیدا کیا تو میں مسلمان ہوا۔ خدا مجھے پاکستانی مسیحی گھرانے میں پیدا  کرتا تو میں مسیحی ہوتا، کیوں کہ زمانے کا یہی چلن رہا ہے۔ ماسوائے یہ کہ میں جنونی ہو کر کسی مسلمان کا قتل کر دیتا، اور وکیل مجھے جان بچانے کے عوض اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتا۔ میں اسلام قبول کر لیتا، یوں اُمت مسلمہ میں ایک مسلمان کا اضافہ ہوجاتا اور مقتولوں کے ورثا سکون پاتے۔ خبر کے مطابق لاہور چرچ سانحے کے ملزمان کو سرکاری وکیل انیس نے یہی ضمانت تو دی ہے کہ وہ مسلمان ہو جائیں تو ان کی جان بخشی کی امید پیدا ہو سکتی ہے۔

آپ مانیں یا نہ مانیے، مجھے یہ منوانے کی جستجو بھی نہیں؛ ہم میں سے زیادہ تر وہ ہیں کہ جس گھرانے میں پیدا ہوتے ہیں، وہی ہمارا “ایمان” ہوتا ہے۔ ہزار بار کم ہے، میں بار بار شکر ادا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی نے مجھے پاکستان میں پیدا کیا تو مسلمان گھرانے میں پیدا کیا۔ اگر خدا مجھے مسیحی گھرانے میں پیدا کرتا تو میں کیا کر لیتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہ بوڑھا ہونے پر اسکول جاتے بچوں کا خیال رکھتا کہ ان کے والدین نے انھیں ڈھانپ کر بھیجا ہے یا نہیں! مسیحی تو پھر بہتر حالات میں ہیں، میں ایک اینگلو انڈین نانی ہی کو نہیں جانتا تھا، بلکہ مسیحیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع یوں بھی ملا کہ میری والدہ مشنری اسکول میں پڑھاتی تھیں، ظاہر بات ہے وہاں مسیحی ملازمین بھی تھے۔ ایسٹر اور کرسمس پر ہم اُن کے یہاں مبارک باد دینے جاتے، اور عیدین پر وہ ہمارے یہاں مبارک باد لے کر آتے۔ ہندو یہودیوں اور احمدیوں سے واسطہ نہ پڑا، کہ شہر میں نہ تھے، یا شناخت چھپائے پھرتے ہوں گے۔

ایک بار سرگودھا کے مرکزی بازار میں ایک کپڑے کی دکان کے باہر یہ بورڈ آویزاں دیکھا، “یہاں احمدیوں سے لین دین نہیں ہوتا۔” جی چاہا دکان دار سے پوچھوں، کیا وہ اپنے گاہکوں سے پوچھتا  ہے، کہ ان کا دین و مذہب کیا ہے؟ کیوںکہ سرگودھا میں میرا کوئی واقف نہ تھا جو میری مسلمانی کی گواہی دے سکتا، اس ڈر کے مارے نہ پوچھ سکا، مبادا سوال پوچھنے والے کو احمدی قرار دے دیا جائے۔ کوئی تاجر خرید و فروخت کرتے مذہب کا نہیں پوچھتا؛ ہرگز نہیں پوچھتا! میں نے آج تک ایک تاجر نہیں دیکھا، جو اپنے گاہک کا  مذہب پوچھتا ہو، اور پھر لین دین کرتا ہو۔ ہاں! جن کی تجارت ہی دین و مذہب ہے ان کی بات سوا ہے۔ یوں تو ہر جا احمدیوں کے لیے منافرت بھرے جملے سنتا آیا، لیکن سرگودھا سے فیصل آباد کی پٹی میں احمدیوں سے نفرت کے جو مظاہرے دیکھنے کو ملے، وہ کہیں اور نہ دیکھے۔ چناب نگر بھی وہیں کہیں بیچ میں پڑتا ہے۔ سو نفرت کا یہ مآل خوب بکتا ہے۔ میں نے جب کسی “سادہ لوح” سے کہا کہ احمدیوں کو بھی اسی طرح قبول کر لیا جائے، جیسے پاکستانی غیر مسلم کو قبول کیا جاتا ہے، لیکن اتنی سی بات کہنا بھی اپنے دین و مذہب کو مشکوک بنانے والی بات ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پاکستانی غیر مسلم کی جان و عزت ہر لحاظ سے محفوظ ہیں، لیکن احمدیوں کو صرف اس لیے قتل کر دیا جائے، کہ وہ احمدی ہیں کسی طرح بھی اسلام نہیں ہے۔ گزشتہ جمعرات کو یہی ظلم ہوا ننکانہ صاحب میں؛ مبینہ طور پر ایک احمدی کو اس لیے قتل کر دیا گیا، کہ احمدی گھرانے میں پیدا ہوا۔ ایک بار پھر اپنے خالق کا شکر ادا کرتا ہوں، کہ اس نے مجھے پاکستانی بنایا تو احمدی گھرانے میں پیدا نہیں کیا، بلکہ دین حق پر قائم گھرانے میں جنم دیا۔

میرے ایک دوست کے سسر ملحدانہ نظریہ رکھتے تھے۔ ان کی آخری عمر میں میرے دوست نے کہا، “ابا جی اب چل چلاؤ کا وقت ہے، خدا پر ایمان لے آئیں، اگلے جہاں جا کر خدا کو کیا منہ دکھائیں گے، اور روز قیامت کیا حساب دیں گے؟” ملحد نے تیقن سے کہا، “اگر سچ مچ خدا ہوا اور حساب طلب کیا، تو میں کہوں گا، اللہ میاں تو نے پاکستان میں پیدا کیا تھا، حساب کس چیز کا مانگتا ہے؟” ہم یہ لطیفہ نما بات سن کر خوب محظوظ ہوئے تھے، لیکن اب سوچتا ہوں وہ صاحب غلطی پر تھے، خدا نے انہیں پاکستان میں پیدا کیا اور مسلمان گھرانے میں پیدا کیا؛ اللہ تعالی کی یہ نعمت کم تو نہ تھی۔ اگر خدا انھیں احمدی گھرانے میں پیدا کرتا، تو پھر یہ نہ کہہ پاتے۔ آخر میں ایک بار پھر اپنے ایمان کی تجدید کرتا چلوں کہ میں بالکل ویسا ہی پاکستانی ہوں، جیسے بہت سے پاکستانی ہیں۔ سرکاری محکموں سے کیسے کام نکالنا ہے، قطار کیسے توڑنی ہے۔ ٹیکس کیسے چھپانا ہے، ملاوٹ کیسے کرنا ہے، کہاں اپنا “کارڈ” دکھا کر مراعات حاصل کرنی ہیں، یہ سب اور بہت کچھ مجھے آتا ہے۔ اگر خدا مجھے مسلمان پیدا کرتا اور روہنگیا نسل سے اٹھاتا تو میں آج ذلیل ہو کر جی ہو رہا ہوتا۔ کہیں فلسطین میں پیدا کیا ہوتا، تو غلیل کی مدد سے اپنا دفاع کر رہا ہوتا۔ مقبوضہ کشمیر میں نہیں پیدا کیا،  افغانی نہیں بنایا، شام میں نہیں اتارا، عراقی نہیں کیا تو یہ نعمتیں کم نہیں۔ میں پاکستانی ہوں اور مسلمان ہوں۔ مجھے حق حاصل ہے کہ میں ہر غیر مسلم کو نفرت کی نگاہ سے دیکھوں۔ اس کے بعد موقع ملے تو فقہوں کے پیروکاروں سے بغض رکھوں جو میرے فقہے سے نہیں ہیں۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran