شیخ صلاح الدین …. اپنے عہد کا علمی استعارہ


شاید دسمبر کا مہینہ اور 1973 کا سال تھا۔ اتوار کے دن میں اپنے دوست باصر کاظمی کے گھر پہنچا تو ڈرائنگ روم میں ایک بھاری بھرکم شخص ، سوٹ ٹائی میں ملبوس، کوٹ کے نیچے کارڈیگن پہنے، چہرے پر عینک لگائے، آرام کرسی میں تشریف فرما تھے۔ باصر نے بتایا کہ اس کے ابا کے دوست شیخ صلاح الدین صاحب ہیں۔ میں بھی سلام کرکے ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ کئی اور دوست بھی موجود تھے۔ مجھے خود سے عمر میں بڑے، اور جن سے تعارف بھی نہ ہو، اصحاب سے گفتگو کرنے میں بہت حجاب ہوتا تھا۔ پتا نہیں اس دن میرے اندر ہمت کہاں سے پیدا ہوئی کہ میں گفتگو میں شامل ہو گیا۔ شیخ صاحب کی گفتگو میں اسلام کا بہت زیادہ ذکر تھا۔ میں نے ان دنوں یہ نظریہ بنایا ہوا تھا کہ تمام مذاہب و نظریات کی حقیقت کچھ نہیں۔ انسان کے اندر دوسروں پر غلبہ پانے کی جبلت ہے اور انسانی تاریخ میں اسی کا اظہار ہوا ہے ۔ مختلف مذاہب اور نظریات انسان کی اسی جبلت کو تسکین فراہم کرتے ہیں اور اخلاقیات کے اصول بھی اسی جبلت کے تابع ہیں۔ کچھ اسی قسم کے فضول خیالات تھے جن کے اظہار کا میں نے حوصلہ کر لیا۔ شیخ صاحب کا کہنا تھا کہ تاریخی اعتبار سے میری بات درست ہے لیکن یہ انسان کی جبلت نہیں ہے کیونکہ جبلت انسانوں میں نہیں بلکہ حیوانوں میں ہوتی ہے۔

اس اولین ملاقات کے بعد تقریباً ستائیس برس تک شیخ صاحب سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ابتدا میں تو کئی برس باصر کے گھر پر ہی ملاقات ہوا کرتی تھی۔ شیخ صاحب دو مارچ اور پندرہ محرم (ناصر کاظمی کی برسی) پر بالالتزام آیا کرتے تھے۔ وہ اکثر دوپہر کے وقت تشریف لاتے اور پھر رات گئے دیر تک ان سے محفل رہتی۔ ان محفلوں میں میرا اور انیس اکرام فطرت کا شیخ صاحب سے بہت مباحثہ ہوتا۔ مجھے ان کے قرآن حکیم کے متعلق خیالات اور عربی زبان کے الفاظ کے معانی اخذ کرنے کے طریقے سے بہت اختلاف ہوتا تھا، انیس کو شیخ صاحب کے معاشی نظریات سے مسئلہ ہوتا تھا۔ شیخ صاحب کی یہ بڑی خوبی تھی کہ خوردوں کے اختلاف رائے کے حق کو تسلیم کرتے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں جو شخص بھی لکھنے پڑھنے کا کام کرتا ہے اس پر یہ ذمے داری بھی عائد ہوتی ہے کہ اپنے اردگرد ایسے پانچ سات آدمی ضرور جمع کرے جو اس کے ساتھ شدید اختلاف کرتے ہوں۔ان کے رویے نے ہم سب دوستوں کی اس لحاظ سے بہت تربیت کی کہ ہم نے اختلاف رائے کے ساتھ دوستی اور تعلقات کو نبھانے کا ہنر سیکھا۔ الحمدللہ کہ دوستوں کا وہ حلقہ آج بھی سلامت ہے۔آج سے سترہ برس قبل شیخ صاحب 2 اپریل 2000 کو دنیا سے رخصت ہوئے اور ہماری ان محفلوں کا سلسلہ درہم برہم ہو گیا۔

جب میں نے پنجاب یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کیا تو مجھے کارل پوپر کی ایک کتاب کی ضرورت پڑی۔ وہ کتاب شعبے کی لائبریری سے غائب ہو چکی تھی۔ ایک دن شیخ صاحب نے بتایا کہ وہ کتاب ان کے پاس موجود ہے۔ تب پہلی بار میں اکیلا شیخ صاحب کے گھر گیا اور ان سے وہ کتاب حاصل کی۔ اس کے بعد ان کے گھر بہت آنا جانا شروع ہو گیا اور ان کے بہت عمدہ کتب خانے سے بہت استفادہ کیا۔ شیخ صاحب کتاب عنایت کرنے کے معاملے میں بہت فراخ دل تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف ایک دفعہ ان کا اندازہ غلط ہوا کہ انہوں نے ایک شخص کو دو کتابیں دے دیں جو اس نے واپس نہیں کیں وگرنہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میری کتاب واپس نہ آئے۔میرے دوست ڈاکٹر منصور الحمید کو ایک زمانے میں قدیم یونانی مذہب اور سقراط کے مطالعے کا شوق ہوا تو میں ان کے لے کر شیخ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ پہلی ہی ملاقات میں شیخ صاحب نے دو تین کتابیں ان کے حوالے کر دیں۔

جب 1974 میں باصر گورنمنٹ کالج کے مجلہ راوی کا مدیر بنا تو اس نے شیخ صاحب سے ایک کہانی حاصل کی جو ان کے زیر تصنیف ناول کا ایک باب تھی۔ اس پر نام صلاح الدین عادل درج تھا۔ باصر نے دوستوں کو بتایا کہ یہ اس کے ابا کے ایک اور دوست ہیں۔ ناصر کاظی کے حلقہ احباب میں شیخ صاحب کے علاوہ صلاح الدین محمود اور صلاح الدین اکبر نام کے دو اور افراد بھی تھے۔ اس لیے ہم نے باصر کی اس بات پر یقین کر لیا کہ یہ چوتھے صلاح الدین ہیں۔ وہ کہانی بہت عجیب تھی۔ نثر کا ایک انوکھا ہی انداز تھا۔ اس کے کردار کسی اور ہی دنیا کی مخلوق دکھائی دیتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارا دوست نجیب صادق کالج کینٹین میں بیٹھا سر کے بال نوچتے ہوئے باصر سے کہہ رہا تھا کہ یہ سحر انگیز تحفہ کہاں سے حاصل کیا ہے۔ پھر باصر نے بتایا کہ یہ اپنے شیخ صاحب کا ہی قلمی نام ہے۔

 1985 ءکی بات ہے کہ شیخ صاحب نے ایک ناولٹ لکھا جسے غالب احمد صاحب نے” مصائب و آفات کو امام کیا “کے نام سے چھپوا دیا۔ اس پر گفتگو کے لیے دسمبر کے مہینے میں حنیف رامے صاحب کے گھر پر ایک نشست کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت انتظار حسین صاحب نے کی۔مجھے بھی اس پر مضمون لکھنے کو کہا گیا تھا جو میں اپنی طبعی کاہلی کی بنا پر نہ لکھ پایا۔ نشست کے آغاز سے پہلے چائے پر میں نے رامے صاحب سے درخواست کی کہ میں چونکہ مضمون نہیں لکھ سکا اس لیے میرا نام پروگرام سے خارج کر دیا جائے۔ انہوں نے کمال بے اعتنائی سے میری درخواست رد کرتے ہوئے کہا کہ آپ زبانی بات کریں۔ میں نے عرض کیا کہ دیگر شرکاء مجھ سے بہت سینئر ہیں اوروہ لکھے ہوئے مضامین پڑھیں گے؛ یہ مناسب نہیں لگتا کہ میں زبانی بات کروں۔ لیکن انہوں نے میری کوئی بات نہ سنی۔ محفل میں کچھ لوگ اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ آج کل ہم لوگ ہیں جو شیخ صاحب کے پاس اٹھتے بیٹھتے ہیں اس لیے انہیں گمان تھا کہ میرا نام شاید تعریف کرنے کے لیے ڈالا گیا ہے۔ جب نشست کا آغاز ہوا اور رامے صاحب نے میرا نام پکارا تو میں نے عرض کیا کہ میں نہ ادیب ہوں نہ نقاد۔ دو تین مضامین لکھے ہیں جو ان موضوعات پر ہیں جن سے مجھے اختلاف ہے۔ اس کتاب میں بھی کچھ مقامات ایسے ہیں جن سے مجھے اختلاف ہے، اس لیے میں ان پر گفتگو کروں گا۔ میری گفتگو کے بعد ڈاکٹر سہیل احمد خان، ڈاکٹر انور سدید اور بانو قدسیہ نے بہت عمدہ مضامین پڑھے اور انتظار صاحب نے ’ہمارے شیخ صاحب ‘کے عنوان سے بہت پرلطف مضمون سنایا۔ کچھ دن بعد میں شیخ صاحب کے گھر ملاقات کے لیے حاضر ہوا۔ شیخ صاحب ڈرائنگ روم میں تشریف لائے، اپنی نشست پر براجمان ہوئے اور پہلا جملہ یہ کہا:People were shocked. جب انہیں کوئی بات زیادہ زور دے کر کہنا ہوتی تھی تو پنجابی یا انگریزی کا سہارا لیتے تھے۔

شیخ صاحب کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے تھا جو علم و فضل کے اعتبار سے یکتا تھا، لیکن انہوں نے اپنی رسمی تعلیم مکمل نہ کی تھی۔ میٹرک کے بعد سناتن دھرم کالج میں داخلہ لیا لیکن کچھ عرصے بعد پڑھائی چھوڑ دی۔ اس کی وجہ ان کے چھوٹے بھائی، شیخ سجاد حسن صاحب، نے یہ بتائی تھی کہ شیخ صاحب کی زبان میں لکنت تھی جس کا دوسرے طالب علم مذاق اڑاتے تھے۔ اس سے تنگ آ کر انہوں نے کالج کو خیرآباد کہہ دیا اور لاہور امپرومنٹ ٹرسٹ میں جونیئر کلرک کے طور پر ملازمت کا آغاز کر دیا۔ یہ ادارہ ایل ڈی اے کا پیش رو تھا۔ یہاں بھی ان کا امتیاز یہ تھا کہ اپنے کام میں مکمل مہارت اور دسترس رکھتے تھے۔ جس فائل پر جو نوٹ انہوں نے لکھ دیا وہ پھر کبھی سپریم کورٹ تک بھی تبدیل نہیں ہوا تھا۔ رفتہ رفتہ ان کی اتنی دھاک بیٹھ گئی تھی کہ ان کے فیصلے کے بعد بہت کم لوگ عدالت کی طرف رجوع کرتے تھے اور ایل ڈی اے میں مقدمات میں بہت کمی واقع ہو گئی تھی۔

 شیخ صاحب کا دفتری معاملات کا سنایا ہوا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ لاہور کی ایک بڑی تاریخی مسجد کے خطیب صاحب نے سرکاری کوٹے سے پلاٹ لینے کی درخواست دی۔ اب درخواست دہندہ کو ایک بیان حلفی داخل کرنا ہوتا ہے کہ اس نے پہلے کوئی پلاٹ حاصل نہیں کیا۔ خطیب صاحب پہلے بھی پلاٹ لے چکے تھے۔ ازرہ تقویٰ و احتیاط وہ غلط حلف نامہ نہیں دینا چاہتے تھے۔ اس کا طریقہ انہوں نے یہ نکالا کہ گورنر صاحب سے ایک خط لے آئے جس میں انہیں حلف نامہ داخل کرنے سے استثنا دے دیا گیا تھا۔ شیخ صاحب نے انہیں کہا کہ اگر میں فائل پر نوٹ لکھ دوں تو آپ کو پلاٹ نہیں ملے گا لیکن میں یہ نہیں لکھوں گا۔ میں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے آپ کا گریبان پکڑوں گا کہ آپ نے یہ پلاٹ ناجائز طور پر لیا تھا۔ لیکن جیسا کہ ہمیں پتا ہے مولانا حضرات پر قیامت کی وعید کا کوئی اثر نہیں ہوتا اس لیے وہ بات سن کر بس مسکراتے رہے اور پلاٹ لے لیا۔

شیخ صاحب نے تمام عمر ایک ایسے محکمے میں ملازمت کی جس کے اہل کار مال بنانے میں بہت مشہور ہیں لیکن وہ امانت و دیانت کے معاملے میں غلو کی حد تک محتاط تھے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ یاد آ رہا ہے جسے ریکارڈ پر لانا میں ضروری خیال کرتا ہوں۔ شیخ صاحب کی والدہ کا انتقال ہوا۔ جنازہ کے بعد ہم نیو مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں کھڑے تھے۔ میں نے شیخ صاحب سے پوچھا کہ صلاح الدین محمود صاحب دکھائی نہیں دے رہے۔ شیخ صاحب نے جواب دیا کہ ان کے گھر پر ٹیلی فون نہیں ہے اس لیے انہیں اطلاع نہیں دی جا سکی۔ باصرنے کہا کہ آپ ان کے دفتر فون کر دیتے۔ اس پر شیخ صاحب نے جو جواب دیا اس پر ہم دونوں لرز کر رہ گئے۔ کہنے لگے ان کو کام کرنے کی تنخواہ ملتی ہے نہ کہ میرے ٹیلی فون سننے کی۔ حیران ہو کر باصر نے کہا کہ ہم آپ سے ملنے آپ کے دفتر آتے رہے ہیں۔ شیخ صاحب نے کہا کہ ہاں میں نے کبھی آپ کو منع نہیں کیا تھا لیکن کیا آپ کے بیٹھے ہوئے میں نے کبھی کام بند کیا تھا۔ اس پر ہمارا دونوں کا بیک وقت کہنا تھا کہ ہاں آپ نے کبھی کام تو بند نہیں کیا تھا۔

شیخ صاحب بہت وسیع المطالعہ شخص تھے اور ان کا ذخیرہ کتب بہت عمدہ تھا ۔ لیکن وہ بس کتابوں کو کھنگالتے نہیں تھے۔ کتاب کا بہت ڈوب کر مطالعہ کرتے تھے۔ جو کتاب زیادہ پسند آتی، یا جس سے بہت زیادہ اختلاف ہوتا، اس پر بڑے طویل حواشی بھی لکھتے تھے۔ سلیم احمد کی کتاب ”اقبال ایک شاعر“ میں کسی صفحے پر کوئی سفید جگہ نہیں بچی تھی جس پر انہوں نے کوئی حاشیہ نہ لکھا ہو۔۔ شیخ صاحب کی وفات پر ان کے بھائی اور غالب احمد صاحب بات کر رہے تھے کہ اس لائبریری کا کیا جائے تو میں نے تجویز پیش کی کہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ کو عطیہ کر دی جائے۔ مجھے خوشی ہے کہ انہوں نے میری تجویز پر صاد کیا اور آج یہ گراں بہا ذخیرہ کتب محفوظ ہے۔

شیخ صاحب نے اکتوبر 1954 ءمیں ”خوشبو کی ہجرت“ کے نام سے ایک ناول لکھنے کا آغاز کیا۔ پھر وہ ساری عمر اس ناول کو لکھتے رہے۔ اس پر ان کے ادیب دوستوں میں لطیفے بھی بنتے رہے۔ مثلاً کسی نے پوچھا کہ ناول مکمل کیوں نہیں ہو رہا تو دوسرے دوست نے کہا امریکہ میں زراعت پر ایک تازہ تحقیق ہوئی ہے۔ جب وہ پاکستان پہنچے گی تو شیخ صاحب اس کو پڑھنے کے بعد ناول کو آگے بڑھائیں گے۔ اسی زمانے میں ناصر کاظمی، انتظار حسین، حنیف رامے اورشیخ صاحب کے مابین ایک مکالمہ ہوا۔ ناصر کاظمی نے یہ کہہ کر کہ آپ کا ناول تو پتا نہیں کب مکمل ہوگا، ہم اس مکالمے کو یہ نام دے دیتے ہیں۔ مکالمہ سویرا میں شائع ہوا۔ اس کے بعد شیخ صاحب نے ناول کو ”خوشبو کی گلیاں “کا نام دیا لیکن انہوں نے مسودے میں پہلے نام کو بھی حذف نہیں کیا تھا۔ جب جاوید اقبال اعوان، باصر اور میں نے اس ناول کی اشاعت کا بیڑا اٹھایا تو بہت بحث و تمحیص کے بعد ہم نے یہی فیصلہ کیا کہ اسے خوشبو کی ہجرت کے نام سے ہی شائع کیا جائے۔ البتہ اس پر نام صلاح الدین عادل ہی لکھا گیا۔

 اس ناول میں بیان کے اتنے مختلف پیرائے استعمال کئے گئے ہیں کہ ہر حصے میں نثر کا لحن اور آہنگ جدا جدا ہے ۔ خیالات اور جذبات کے اظہار؛ ماحول، کرداروں؛ مرئی اور غیر مرئی چیزوں کیdescription کے لئے ایسے ایسے پیرائے استعمال کئے گئے ہیں جو نامانوس ہوتے ہوئے بھی بھرپور تاثر کے حامل ہیں۔ اس ناول کے ایک کردار نے ایک دوسرے کردار کی گفتگو کے بارے میں جو کچھ کہا وہ اس نثر پر بھی صادق آتا ہے: ” اس کی زبان سے سیدھے سادے فقرے بھی عجیب طلسم معلوم ہوتے۔ وہ جانے بوجھے لفظوں کواتنے نئے نئے رشتوں میں سمو دیتا کہ اکثر یہ خیال آتا کہ وہ بالکل اجنبی زبان میں بات کر رہا ہے۔“

 شیخ صاحب کے ناول پر ممتاز ادیب عبداللہ حسین نے جو فلیپ لکھا تھا، مناسب دکھائی دیتا ہے کہ مضمون کا اختتام اس پر کیا جائے:

’شیخ صلاح الدین صاحب کا مزاج شروع سے دیو مالائی تھا۔ غالباً 1966 میں میں نے ان کے ناول کا پہلا باب پڑھا تو مجھے احساس ہوا کہ انہوں نے حکایت اور دیومالا کے امتزاج سے ایک انوکھا طرزِ تحریر ایجاد کیا ہے جو عجیب سحر انگیز ہے۔ اس زمانے میں جادوئی حقیقت بیان کرنے والا گینگ ابھی منظرِ عام پر نہیں آیا تھا (بلکہ مارکیز کا مشہور ناول ایک صدی کا سناٹا بھی اس وقت صرف ہسپانوی زبان میں چھپا تھا)۔ اس لحاظ سے شیخ صاحب نے ایک نئے ا نداز کی دریافت کی تھی‘۔

Apr 2, 2020


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).