بھٹو اور دار کی خشک ٹہنی


 ضیاالحق کی تقرری

بھٹو صاحب نے جنرل ضیا الحق کو ان سے سینئر جرنیلوں پر ترجیح دیتے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف بنا دیا۔ کئی لوگوں نے بیان کیا ہے کہ جنرل ضیا بھٹوصاحب کی بہت خوشامد کرتے تھے اور ان سے بہت جھک کے ہاتھ ملاتے تھے۔ ایک سینئر بیوروکریٹ نے لکھا ہے کہ ایک بار بھٹو نے ان سے کہا تھا کہ فوج کے سربراہ کا اتنا جھک کے ملنا اس کے شایان شان نہیں۔ اللہ نے بھٹو صاحب کو جو کچھ اور جتنا کچھ دیا تھا اس کے نتیجے میں اگر وہ خود پسند ہو جاتے تو کچھ عجب نہیں تھا البتہ سیاست کے طالب علم، استاد اوراتنا تجربہ رکھنے کے ناتے انہیں خوشامد سے ایسے بدکنا چائیے تھا جیسے کوا غلیل سے۔ اور انہیں یہ بھی خوب پتا ہوگاکہ اِس میدان میں’ اپنا ‘ کوئی نہیں ہوتا، سب اپنا اپنا سوچتے ہیں، اسی کا نام سیاست ہے۔ بھلائی کی تھوڑی بہت توقع صرف اس سے کی جا سکتی ہے جس کے کچھ اصول ہوں اور جو کسی اصول قاعدے کے تحت ہی ’اوپر‘ آیا ہو۔ آپ کسی کے لئے ایک ضابطہ توڑیں گے تو وہ اپنے لئے دو ضابطے توڑے گا ،اور بالعموم آپ کے مفاد کے منافی۔

5 جولائی 1977 کا مارشل لا

جنرل ضیا الحق نے ملک میں ہونے والے ہنگاموں کو مارشل لا کے نفاذ کا جواز بناتے ہوئے اپنی تقریر میں لاہور کے انارکلی بازار میں نکالے گئے جلوس اور وہاں دھنی رام روڈ پر کی جانے والی توڑ پھوڑ کا کا خاص طور پر ذکر کیا۔ دھنی رام روڈ پر ہمارے دوست امجد پرویز کے بہنوئی کی کراکری کی کافی بڑی دکان تھی۔ ہم بری طرح گھبرا گئے اور فوراً وہاں پہنچے لیکن سب خیریت تھی۔ صرف دو تین دکانوں کے شوکیسوں کے شیشے ٹوٹے ہوئے تھے۔ معلوم ہوا کہ ایک چھوٹے سے گروہ نے کچھ غل غپاڑا کیا تھا۔

ناراض بھٹو

جنرل ضیا کے حکم پر متعدد اہم سیاسی رہنماﺅں کو مری ریسٹ ہاﺅس میں نظر بند کر دیا گیا۔ ان میں معزول شدہ بھٹو بھی تھے۔ جنرل ضیا وہاں ان سے ملنے گئے اور اس ملاقات کی تصویر اخبارات کے صفحہ اول پہ شائع ہوئی۔ بھٹو صاحب انتہائی سنجیدہ اور خفا نظر آ رہے تھے۔ اگلے روز سینہ گزٹ سے یہ خبر نکلی کہ بھٹو ضیا پر بہت برسے اور کہا کہ وہ جن مونچھوں کو تاﺅ دے رہا تھا وہ ایک دن اس سے اپنے جوتوں کے تسمے بنوائیں گے۔ افواہوں میں خبروں سے زیادہ جان ہوتی ہے۔ ہم دوستوں کا خیال تھا کہ بھٹو کو ’سیاست‘ سے کام لیتے ہوئے ضیا سے کہنا چاہئے تھا : شاباش میرے اپنے جرنیل، تو نے بہت اچھا کیا۔ میں تو خود روز روز کے ہنگاموں سے تنگ آ گیا تھا اور میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ان سے کیسے جان چھڑاﺅں۔ اب ’چاند میری زمیں پھول میرا وطن‘ تیرے حوالے۔ اس ملک کو رکھنا مرے بچے سنبھال کے۔ جب تو سمجھے کہ حالات تیرے اور میرے لیے سازگار ہیں، الیکشن کرا دینا۔

بھٹو نے تو پتا نہیں ضیا کی مونچھوں سے جوتوں کے تسمے بنوانے کی بات کی تھی یا نہیں البتہ ضیا نے بے شک اپنے بوٹوں کے تسموں سے پھانسی کا پھندا بنوایا۔

بھٹو کی لاہور آمد

بھٹو کو ان کے دورِ اقتدار میں ایجنسیوں نے بتایا تھا کہ ان کی مقبولیت اتنی کم ہو گئی تھی کہ الیکشن ہار جائیں گے۔ یہی بات جب ضیا کو
بتائی گئی تو انہوں نے اسے ٹیسٹ کرنے کی ٹھانی اور بھٹو کو رہا کر دیا۔ بھٹو کے چاہنے والوں نے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ اس کی مقبولیت کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ گئی تھی اس کا ایسا والہانہ استقبال کیا جو شاید لاہور کی تاریخ میں اس سے پہلے کسی رہنما کا ہوا نہ اس کے بعد۔

بھٹو کو لاہور کے ہوائی اڈے پہ اترنا تھا۔ میں، جاویداقبال اعوان اور میرا کزن حماد رضا سندر اس تاریخی واقعے کے عینی شاہد بننے کے لیے گھر سے نکلے۔ اس دن ذرائع آمد و رفت کی شدید قلت تھی۔ ایک رکشا والاتین سواریاں بٹھانے پہ رضامند ہو گیا۔ ہم نے اسے مال روڈ سے ہو کے چلنے کو کہا۔ ابھی ہم ریگل چوک ہی پہنچے تھے کہ راستہ بند پایا۔ آگے صرف پیدل جانے کی اجازت تھی۔ کہاں ہوائی اڈا اور کہاں ریگل چوک۔ خیر، ہم نے سوچا کہ چل کے دیکھتے ہیں کہاں تک جا سکتے ہیں۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم زیادہ سے زیادہ دو تین میل ہی جا پائیں گے جس کے بعد شاید آگے جانے کی اجازت ہی نہ ہو۔ لیکن وہاں تو اجازت ہی اجازت تھی، اگرچہ رش کی وجہ سے مزید بڑھنا بے حد مشکل تھا۔ لوگ بھٹو کی تصویریں اور پیپلز پارٹی کے جھنڈے اُٹھائے ٹولیوں کی صورت میں جوق ددر جوق ائرپورٹ روڈ کی طرف رواں دواں تھے۔ہم فورٹرس سٹیڈیم کے سامنے سے گذر کے دائیں مڑ گئے، جیل روڈ پر پہنچ کے دیکھا کہ ائر پورٹ کی طرف جانا ناممکن بھی تھا اور بے سود بھی، سو ہم پھر دائیں گھوم کے شیر پاﺅ پُل پر آگئے۔ اتنے بڑے پل کے ایک سرے سے دوسرے تک نوجوان، ایک قطار میں، اپنی قمیصیں اتار کے ان سے سڑک کی گرد مٹی ایک طرف کر رہے تھے ، اس جملے کا ورد کرتے ہوئے: سہاڈا بھٹو ایتھوں لہنگے گا۔ (ہمارا بھٹو ادھر سے گزرے گا)

فٹ پاتھ پہ ایک ضعیف عورت بیٹھی تھی۔ چند نوجوان اس کے گرد جمع تھے۔ ایک نے پوچھا:

مائی توں تے ویخ نیں سکدی، توں ایتھے کی پئی کرنیں ایں؟ (اماں آپ کو دیکھ نہیں سکتیں۔ یہاں کیا کر رہی ہیں)

وہ عورت، جو نابینا تھی، بولی:

میں اپنے بھٹو نوں ویکھ تے نیں سکدی پر اوہدی خشبو تے مینوں آوے گی۔ (میں اپنے بھٹو کو دیکھ نہیں کستی لیکن اس کی خوشبو تو سونگھ سکتی ہوں)

اور اس رات جنرل ضیا نے کچھ اہم فیصلے کیے۔ یہ استقبال جو بھٹو کو اٹھانے کے لیے کیا گیا تھا اسے لے بیٹھا۔

ناظم شاہ کی مزاج پرسی کے لیے بیگم نصرت بھٹو کی آمد

بھٹو جیل میں تھے اور اعلی عدالت میں پیشیاں بھگت رہے تھے۔ ان کے حمایتیوں نے لاہور کی سڑکوں پر جو تاریخ رقم کرنی چاہی تھی وہ دیوار پر ایک مختلف عبارت کی صورت نظر آنے لگی تھی۔ ان کی رہائی کے لیے جلوس نکلنے لگے۔ ہر روز کوئی جیالا احتجاجاً خود کو آگ لگاتا۔ اس وقت ٹی وی کا صرف ایک چینل تھا، اور وہ بھی سرکاری۔ بس دو چار اخبارات ان واقعات کی خبر ایک آدھ تصویر کے ساتھ شائع کرتے۔ اس کے باوجود یہی خبریں سب سے زیادہ زیر گفتگو رہتیں۔ پیپلز پارٹی کے کارکن گرفتار کیے جا رہے تھے۔ انہیں قید کے علاوہ کوڑوں کی سزا بھی ملتی۔ یہ سزائیں ’کمانے‘ کے لیے بس کسی چوراہے پہ جا کے ”جیے بھٹو“ کا نعرہ لگانا کافی تھا۔ کوڑوں کی سزا عام کارکنوں تک محدود نہ تھی۔ اہم رہنما اورہائی کورٹ کے ایڈوکیٹ عارف اقبال بھٹی اور جہانگیر بدر بھی ٹکٹکی پر باندھے گئے۔ پرانی انارکلی میں طالب علم رہنما ناظم شاہ کا گھر میرے کزن تاثیر رضا کے گھر سے ملحق تھا۔ اس مکان کی پشت اس مکان کی پشت سے جڑی تھی جہاں میں نے بچپن کے ابتدائی سال گزارے تھے اور جس کے بیرونی کمرے میں ناصر کاظمی، انتظارحسین، شیخ صلاح الدین، حنیف رامے، مظفر علی سید اور احمد مشتاق نے پہروں محفلیں برپا کی تھیں۔ ایک دن میرا ادھرجانا ہوا تو وہاں لوگوں کا ایک بڑا ہجوم دیکھا ۔ پتا چلا کہ اس دن ناظم کو کوڑے لگے تھے اور اور بیگم نصرت بھٹو اس کی مزاج پرسی کے لیے آرہی تھیں۔ بیگم صاحبہ کی آمد پر کارکنوں کا جوش و خروش دیدنی تھا۔

بھٹو کی پھانسی

 سقوط ڈھاکہ کے بعد بھٹوکی پھانسی شاید پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سیاسی سانحہ تھا۔ اول الذکر نے ملک کو دو لخت کیا تو موخرالذکر نے قوم کو۔ اگلی تین دہائیوں تک ووٹ لینے اور دینے کی سب سے نمایاں وجہ یہ رہی کہ کوئی بھٹو کا ہمدرد تھا یا مخالف۔ سیاسی جماعتوں کے منشور اور ان کے امیدواروں کے کردارغیر متعلق ہو گئے۔ بے نظیر کے زمانہ عروج میں اعجاز الحق نے بے نظیر پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے باپ کا انجام یاد رکھیں۔اس پر منو بھائی نے کالم لکھا ؛ کہا کہ ایسا انجام کسے نصیب ہوا؟ وہ شخص اتنے برس سے تختہءدار پہ لٹک رہا ہے اور مرا نہیں۔

صلاح الدین محمود کا نوحہ اور جاوید شاہین کی نظم

 بھٹوکو پھانسی دئیے جانے کے چند روز بعد میں، جاویداور ساجدعلی صلاح الدین محمود صاحب سے ملنے گئے تو انہیں بے حد رنجیدہ پایا۔ انہوںنے کہا کہ کوئی اور بات کرنے سے پہلے وہ ایک نوحہ سنانا چاہتے تھے جو انہوں نے بھٹو کی موت پر لکھا تھا۔ نوحہ اتنامتاثر کن تھا اورانہوں نے ایسے سنایا کہ ہم بھول ہی گئے کہ وہ بھٹو کے مداح نہیں بلکہ ناقد رہے تھے۔ کاش میں اس کی ایک نقل حاصل کر لیتا۔ اس المیے پر جتنا اظہار افسوس کیا گیا، جاوید شاہین کی یہ نظم ایک طرح سے ان بیانات اورتحریروں کی نمائیندگی کرتی ہے:

بھٹو

موت نے اس کی آنکھوں میں دیکھا

وہ اس کے استقبال کے لئے کھڑا تھا

اپنا بوسیدہ بدن ہاتھ میں لیے۔

وہ ڈر گئی

وہ اس کے قاتلوں کے پاس گئی

اور جو دیکھا تھا انہیں بتا دیا

وہ سمجھے موت ان کے خلاف

کسی سازش میں شریک ہو گئی تھی

ان کا شک دور کرنے کی خاطر

وہ اس کا بدن اُن کے پاس لے آئی

مگر جاتے وقت نصیحت کر گئی

کہ اسے سنبھال کر رکھیں

اس دن کے لئے

جب آدمیوں کا قحط پڑ جائے گا

اور اسے

دوبارہ زندہ کرنے کے سوا

کوئی چارہ نہیں ہو گا

(زیر اشاعت کتاب، ’ایک شاعر کی سیاسی یادیں‘ سے اقتباس)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).