میری گرل فرینڈ بہت با حیا ہے


صنفی علوم کی جماعت میں اپنا ناقص علم چھوڑنے کے بعد کمرہ جماعت باہر نکلی تو پیچھے سے ایک چبھتے ہوئے سوال نے راستہ روکا۔ مڑ کر دیکھا تو ایک طالب علم عمر بامشکل 21 سال سوال کرنے کو بے چین تھا۔ میڈم آپ نے کہا کہ تمہاری بہنوں کو بھی تعلیم حاصل کرنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا تم کو۔ میرا اعتراض ہے میڈم ہمارا تعلق ایک ایسے علاقے سے ہے جہاں ہماری بہنیں پردہ کرتی ہیں۔ ہم نے ان کو گھر سے نکالا تو آپ کو پتہ ہے کیا ہوگا۔ وہ خراب ہوجائیں گی، کیاآپ باہر کے ماحول کو نہیں جانتی۔ ہماری بہنیں ہمارے گھروں کے بہترین ماحول میں تربیت پاتی ہیں باہر نکالا تو لوگوں کی باتوں میں آئیں گی مثلاً کالج بھیجا تو سہیلی کے کہنے پر ہوٹلوں اور پارکوں میں گھومنے جائیں گی۔ برقعے کو نا پسند کرنے لگ جائیں گی اور بے حد برا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی لڑکے سے دوستی کر بیٹھیں گی۔ ہماری بہنیں گھروں پر ہی ٹھیک ہیں۔ ان سوالات کا جوابات تو بعد میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں پہلی فکر آنگیز بات تو یہ ہے کہ 21سال کا نوجوان صنفی معاملات اگر اس طرح سے تربیت پا گیا ہے تو کل اس نوجوان سے معاشرے میں صنفی توازن کے رویوں کی امید کیسے کی جاسکتی ہے؟ کیا یہ اکیس سالہ نوجوان پیدائشی ایسے خیالات لے کر اس دنیا میں آیا تھا؟ یقیناً نہیں۔

قصور آپ کا اور میرا ہے جس نے اس نوجوان کی صنفی کردار سازی کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔ ہمیں احساس ہی نہیں ہوا کہ ماں باپ کے طور پر ہم اپنے اس بیٹے کو سمجھا تے کہ گھر میں جو مقام تمہارا ہے وہی تمہاری بہن کا ہے۔ گھر میں جو جو سہولتیں اور رویے تمہیں مہیا ہوں گے، تمہاری بہن بھی اس کی برابر کی حصہ دار ہوگی۔ ایک ایسا نوجوان جو باپ کو ماں پر ہاتھ اٹھاتا دیکھے گا تو یہی سیکھے گا ناکہ مردانگی اسی شے کا نام ہے کہ صنف نازم کی سوچوں سے لے کر اس کی نقل و حرکت تک ہر پہرے لگا دیے جائیں گے۔ استاد کے پاس جائے گا سوال اٹھانے حق نہین رکھتا، استاد کو کلاس مین الفاظ کی ہیرا پھیری بیچتے ہوئے دیکھے گا، استاد کو صنفی برابری کے نام پر تقریر کرتا سنے گا اور پھر اسی استاد کو مخصوص صنف کو ذاتی پسندیدگی کی بنیاد پر نمبروں سے نوازتا دیکھے گا تو سوچے گا ایسی پڑھائی سے میری بہن گھر ہی ٹھیک ہے۔ دوستوں میں جائے گا تو کوئی نہیں سکھائے گا کہ اصل مرد وہ ہے جو عورت کا احترام کرتا ہے۔ وہاں تو لڑکی کو چھیڑ کر ہی مرد قرار پائے گا کبھی ہم نے سوچا ہم کیسے معاشرے کو تشکیل دے رہے ہیں؟ صنفی تربیت نہ کر کے ہم اپنے نوجوانوں کو کس دلدل میں دھکیل رہے ہیں افسوس ہم ان کو منافقت سکھا رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر اپنی بہن کو تعلیم نہیں دلواتے ہیں اور گھر سے باہر صرف اس لئے نہیں جاتے دینا چاہیے کہ وہ خراب ہو جائے گی۔ تو کیا گارنٹی ہے کہ موبائل کمپنی کا نائٹ پیکج آپ کی دہلیز پہ دستک نہیں دے رہا۔ خرابی کیا ہے؟ اور کیا خرابی کی پہنچ آپ کے گھروں تک نہیں ہے؟ ا گر ایک بچی گھر سے نکلتے ہی خرابی کا باعث بن جاتی ہے تو کیا یہ سوال آپ کے گھر کی عمدہ تربیت پر نہین اٹھتا کہ کیا واقعی آپ نے اپنی بچیوں کو ان کی زندگی میں مواقع اختیار کرنے کا حق دیا تھا۔ کیا انہوں نے اپنے لئے منتخب کیا کہ اپنی زندگی سے چاہتی کیا ہیں؟ اور کیا ہماری تربیت نے ان کو اچھے برے کافرق کرنا سکھا دیا تھا؟ جس پر دے کا آپ ذکر کرتے ہیں اگر اس بچی نے اس پردے کو اپنے مرضٰ اور خوش دلی سے اپنایا ہے تو یقین کیجئے وہ اس کو بہت خوبصورتی اور احترام سے اپنائے رکھے گی اور یہ احترام کی تربیت اس کو رشتوں کے احترام تک لے جائے گی جو پھر سے کہوں تو اگر اس کی مرضی اور خوش دلی سے ہوئی ہوگی۔

کیا واقعی ہم نے اپنی بچیوں کو پردوں سے نکالا۔ ان کو معاشرتی رویے سیکھنے کی آزادی دی ان کو باشعور بننے میں ان کی مدد کی؟ ان کو با اختیار بنایا نوجوان بچیاں بتاتی ہیں کہ میڈم یہ ’عبایا‘ ہم نے اس لئے کرنا شروع کیا ہے کہ اب شادی کا ٹائم آگیا ہے اور لوگوں کو ”باحیا“ لڑکیاں چاہیے۔ حیا تو پھر یہ بھی ہوگی کہ بچی آدھی رات کو بوائے فرینڈ کو موبائل ہولڈ کرائے اور کہے اچھا اب میں تہجد پڑھ کر آتی ہوں۔ آپ 15منٹ بعد دوبارہ کال کرلیں۔ آپ خوشی سے پھولے نہ سمائے کہ میری گرل فرینڈ بہت نیک اور حیادار ہے اور پھر ہمارے اصلی گھر کی نمائندگی نہ کرنے والے سجے سجائے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر انتخاب کیا جائے گا ان سچے رشتوں کا جسمیں عورت عورت کی دشمن بن کر بچی سے کہے گی ذرا چل کر دیکھائیں آپ کا قد دیکھنا ہے کتنا ہے۔ اور جی ہمیں تو کم عمر چاند سی بہو چاہیے یہ سوچے بغیر کہ جس میں حسن تلاش کر رہے ہیں کیا اس میں کردار کا حسن بھی ہے کہ کل اس بچی نے آپ کے خاندان کے آنے والی نسل کی تربیت کرنی ہے۔

حیا کے جو پیمانے معاشرے نے بنادئے ہیں آج کے نوجوان نے اس کے لئے بہت سے شارٹ کٹ ڈھونڈ لئے ہیں۔ اب سوال یہ نہیں کہ میں حیادار ہوں کہ نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ آپ نے معاشرے میں میرے کردار کو جانچنے کے جو فرسودہ اور ظاہری معیار بنادئے تھے میں ان پر پورا اترتا ہوں کہ نہیں اور سوچ کردار اور عمل کے متضاد رویوں میں تقسیم رہوں اور منافقت کی زندگی جیتا رہوں۔ حل صرف یہ ہے کہ نوجوان کو تربیت کرنے کے بعد اختیار دے کر دیکھیں۔ تربیت درست کی گئی ہوگی تو اپنے گرد حدود کے حصار یہ نوجوان خود ہی بنا لیں گے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ یہ تربیت ہم نے اپنے نوجوانوں کی ہی نہیں ہے۔ اور اب وہ دو اختلافی حدود پر کھڑے ہیں جسمیں ایک کو تو آپ دقیانوسی کہتے ہیں اور دوسرے کو جدید یت کے دلدادہ، تو پھر یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جدیدیت کی بھی اپنی اخلاقیات ہیں جو اہم ہیں مگر ہم اس سے واقف نہیں ہیں۔

تو پھر جانو کسی اور دن ڈیٹ پر جائیں گے ویلنٹائن ڈے حرام ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).