ذوالفقار علی بھٹو، وہائٹ ہائوس اور سی آئی اے


ان دنوں انٹرنیٹ، ای میل، فیکس، موبائل فون اور موجودہ سوشل میڈیا کے ذرائع کا وجود ہی نہیں تھا۔ صرف لینڈ لائن فون سب سے موّثر رابطے کا ذریعہ تھے۔امریکی ریاست نیوجرسی میں 3اور 4؍اپریل 1979ء کی درمیانی شب سو رہا تھا کہ کمرے میں پڑے فون کی گھنٹی نے اچانک نیند سے اٹھا دیا۔ پاکستان میں 4؍اپریل کا دن شروع ہو چکا تھا۔ امریکی ریاست مشی گن سے میرے محترم دوست سلام شیخ انتہائی غمزدہ آواز میں روتے ہوئے کہہ رہے تھے ’’عظیم میاں! ظالموں نے بھٹو کو مار دیا ہے۔‘‘ بھٹو صاحب کے ایّام اسیری کے دوران ہی میر مرتضیٰ بھٹو نیویارک آئے تھے اور اپنے رابطہ کیلئے لندن کا ایک فون نمبر بھی دیا تھا۔ میں نے اس نمبر پر کال کیا تو فون اٹھانے والے (غالباً محترم بشیر ریاض) نے بتایا کہ وہ بہت دیر تک جاگنے کے بعد ابھی سوئے ہیں۔ میں نے خبر کی تصدیق اور پھر اپنا نام اور تعزیت کے الفاظ کے ساتھ فون بند کر دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو سے ان کے دورۂ امریکہ اور دورۂ کینیڈا کے دوران ہی سرسری ملاقاتیں ہوئیں اور ان کے سیاسی تدبّر کا مشاہدہ بھی فروری 1975ء کے دورۂ امریکہ کے دوران ہی ہوا۔

قدرت نے مجھے یہ اعزاز دیا کہ اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ وہائٹ ہائوس میں جانے کا موقع ذوالفقار علی بھٹو کے دورۂ امریکہ میں ملا۔ پاکستان کے ممتاز صحافی عارف نظامی، محمود شام، اے پی پی کے افتخار چوہدری اور میں اس تاریخی ڈنر میں بھی بہ طور صحافی موجود تھے جس میں امریکہ کے وزیر دفاع رابرٹ مکینامارا نے مائیک پر تقریر کرتے ہوئے ہنری کسنجر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خدا کا شکر ہے مسٹر بھٹو تھرڈ ورلڈ ملک میں پیدا ہوئے۔ اگر یہ امریکہ میں پیدا ہوتے تو ہمیں سیاست سے باہر کر دیا ہوتا اور بھٹو صاحب قدرے شرما گئے۔ اس کی بلیک اینڈ وہائٹ ویڈیو کا کلپ اب سوشل میڈیا میں بھی موجود ہے۔ برطانوی روایت کے برعکس امریکی القاب، خطاب اور تعریف کے معاملے میں حقیقت سے قریب رہنا پسند کرتے ہیں، اسی طرح ایک امریکی صحافی نے بھٹو صاحب سے پوچھا کہ واٹرگیٹ اسکینڈل کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے؟ اس سوال کا تناظر ملاحظہ کریں کہ بھٹو صاحب امریکی صدر فورڈ کے مہمان اور صدر فورڈ واٹرگیٹ اسکینڈل کے ذمہ دار صدر رچرڈ نکسن کے استعفیٰ کے بعد صدر بنے تھے یعنی صدر فورڈ ’’واٹرگیٹ‘‘ اسکینڈل کی پیداوار تھے۔ اگر ذوالفقار علی بھٹو واٹر گیٹ اسکینڈل کے بارے میں عوامی جذبات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے تنقید کرتے تو میزبان فورڈ حکومت ری پبلکن تھی ناراض ہوتی اور اگر وہ واٹر گیٹ پر بات کر کے میزبان حکومت کا خیال رکھتے تو عوامی اور میڈیا کا ردّعمل ہونے کا امکان تھا۔

بھٹو (مرحوم) نے برق رفتاری سے اور مسکراتے ہوئے امریکی صحافی کو جواب دیا کہ میرے ملک پاکستان کے کسانوں کو ’’واٹر لاگنگ‘‘ (یعنی سیم اور تھور) اینڈ سیلنٹی کے باعث زمینوں کی تباہی کا مسئلہ درپیش ہے اور میں آپ کے ملک سے اس بارے میں تعاون حاصل کرنے آیا ہوں۔ میرے ملک کے کسانوں کا ’’واٹر لاگنگ‘‘ کا مسئلہ حل ہو جائے تو پھر ’’واٹر گیٹ‘‘ پر تبصرہ کر سکوں گا۔ امریکی صحافی بھٹو صاحب کے اس غیر متوقع جواب پر جھنجھلایا مگر ساتھ ان کی ذہانت کی تعریف بھی کی۔اس دورۂ امریکہ میں ذوالفقار علی بھٹو کے تدبّر اور دوسروں کے سامنے موّقف اور مذاکرات کے میدان میں مدلل گفتگو کے جو انداز سننے اور دیکھنے کو ملے وہ ضیاء الحق، محمد خان جونیجو، بے نظیر، نواز شریف، یوسف رضا گیلانی، آصف زرداری اور پرویز مشرف کے اقوام متحدہ اور امریکہ کے دوروں میں مجھے دیکھنے کو نہیں ملے۔

17؍جنوری 2017ء کو سی آئی اے نے کئی ہزار اپنے خفیہ دستاویزات، رپورٹس، خطوط اور پالیسی پیپرز کو ڈی کلاسیفائڈ کر کے آن لائن جاری کر دیا ہے۔ اپنے ملکوں کے ماضی کے حکمرانوں کے بارے بہت کچھ جاننے، سمجھنے، ان کے عروج و زوال کے حقیقی اسباب جاننے کیلئے ان دستاویزات کا مطالعہ انتہائی مفید ہے۔ ان دستاویزات میں ذوالفقار بھٹو کے دور حکمرانی، دورۂ امریکہ، ایٹمی پروگرام، 16سے 19؍اکتوبر 1973ء کے تین دنوں میں ایران، ترکی اور سعودی عرب کے دورے کے اصل مقاصد اور شام کے حافظ الاسد سے رابطوں کے بارے میں دستاویزات بھی مجھے پڑھنے کا موقع ملا ہے جو بہت کچھ سوچنے اور موجودہ صورتحال کو سمجھنے میں 38سال بعد بھی مددگار ہیں۔ ایسی سی آئی اے رپورٹس بھی ہیں جن سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ امریکی ضیاء الحق کے بھٹو صاحب کو پھانسی دینے کے پلان سے نہ صرف آگاہ تھے بلکہ انہیں علم تھا کہ پھانسی کب دی جائے گی؟

ایک خفیہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستانی فوج کے جنرلوں اور سینئر سول افسروں میں بھٹو صاحب کو سزائے موت دینے کی مخالفت بڑھتی جا رہی تھی جس کے باعث ضیاء الحق نے بھٹو صاحب کو سزائے موت دینے میں جلدی کا راستہ اختیار کیا۔ خود ضیاء کابینہ کے بعض وزراء بھی پھانسی کے خلاف تھے۔ سی آئی اے کی رپورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت کے داخلی استحکام اور عالمی سطح پر پاکستان کیلئے منفی اثرات کی پیش گوئی بھی کی تھی۔ ذوالفقار بھٹو کی موت پر ان کے حامیوں کے سڑکوں پر نہ آنے کی وجہ بھی تحریر ہے۔

ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے دو لخت ہونے، مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش میں تبدیل ہونے، فوجی شکست اور اتنی بڑی فوج کے بھارتی قید میں ہونے کے بعد اقتدار سنبھالتے ہی بھٹو نے بڑی مہارت سے خود کو عوامی مقبولیت سے محفوظ بنا لیا۔ بے اطمینانی اور معاشی مسائل کا بوجھ بھی تھا اور فوج کے مطالبات اور دبائو کا ذکر بھی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا ایک خط سی آئی اے کے سربراہ کے نام اکتوبر 1973ء کا بھی ان دستاویزات میں موجود ہے۔ میرے زیر مطالعہ ابھی تک سی آئی اے پیپرز کی تازہ کھیپ میں سے جو کچھ میں نے پڑھا ہے اس سے ذوالفقار علی بھٹو کا ایک اسمارٹ، ذہین، مغربی فلسفہ، ذہن اور مقاصد کو سمجھنے والی ایک قوم پرست شخصیت کا تاثّر ابھرتا ہے جو اپنے ملک کے مخالفین کا مقابلہ کرنے، ملک کو محفوظ بنا کر آگے لے جانے کیلئے کوشش کر رہا ہے۔ بھارت سے مشرقی پاکستان میں شکست کے بعد بھٹو صاحب کا ایٹمی پروگرام شروع کرنے کا اعلان اور طریقے بھی اس کی نشان دہی کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کو کہاں لے جانا چاہتے تھے۔

امریکی سی آئی اے کی ایک خفیہ دستاویز بھٹو کے ایٹمی پروگرام کو امریکی ایٹم بم بنانے کے ’’مین ہٹن پروجیکٹ‘‘ کے مماثل قرار دیتی ہے۔ بھٹو صاحب کی موت ضیاء الحق اور ان کے حامیوں کی لازمی ضرورت بن چکی تھی اور بیرونی قوّتوں کو بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ بھٹو جیسی متحرک اور وژن رکھنے والی شخصیت اور پاکستان کے ایک مدبّر سیاستدان کی جان بچانے کیلئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کرٹ والڈ ہائیم، سابق اٹارنی جنرل رمزے کلارک نے اپیلیں بھجوائیں۔ رمزے کلارک بھٹو مقدمہ میں پیروی کیلئے پاکستان سے مایوس لوٹے تو وہ تلخ زمینی حقائق اور حکمران ضیاء الحق کی سیاسی ضرورتوں کا ذکر بھی دکھ سے کرتے، جن بیرونی قوّتوں نے ضیاء الحق کو بھٹو کی سزائے موت پر عمل کرنے کی منظوری دی ان ہی قوّتوں نے ضیاءالحق کو فضائی سفر میں انتہائی المناک انداز میں موت سے اچانک ملاقات کروا دی۔ بھٹو کا ترکہ ایٹمی پروگرام ہے جو پاکستان کی سیکورٹی کا واحد ضامن ہے۔ ضیاء الحق کا ترکہ ’’جہاد افغانستان اور مذہبی انتہاپسندی‘‘ ہے جو ہمارے ملک اور معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کر چکی ہے۔ وژن اور وراثت کا یہی فرق ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت کو ممتاز کرتا ہے۔

(بشکریہ روز نامہ جنگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).