میں جعفر حسین نہیں ہوں


 ایک دن میں نے جعفر حسین سے پوچھا، تم مزاح لکھتے ہو؟ بولا، بالکل مزاح لکھتا ہوں۔ اس پر مجھے اطمینان ہوا کیونکہ کئی لوگ اس کے بارے اکثر شبہات کا شکار رہتے ہیں۔ سو میں نے اپنا مدعا پوچھا، یہ بتاؤ کہ مزاح لکھنے کے لیے سب سے اہم چیز کیا ہوتی ہے؟ وہ بولا، حس مزاح!

یہ کیسا آدمی ہے؟ اتنی سی بات نہیں جانتا کہ حس مزاح، مزاح لکھنے کے لیے نہیں بلکہ پڑھنے کے لیے لازم ہوتی ہے۔ مزاح لکھنے کے لیے تو بس ایک قلم اور کاغذ یا آج کل کہیے، ایک بلاگ کافی ہے۔

اس کے بلاگ سے متعلق یہ ہے کہ بھلے مانس آدمی سن دو ہزار آٹھ سے بلاگ لکھ رہا ہے۔ دو تین روز قبل یہ ہوا کہ اس کا ایک بلاگ کسی عقل مند  کے ہاتھ لگ گیا اور پھر کچھ دوسرے عقل مندوں کو بھی خبر ہو گئی (جنہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ تو پہلے سے یہ سب جانتے تھے) ۔۔۔پھر کیا تھا، تب سے ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔

یہ صرف ایک تحریر کی بات نہیں ہے، میں تو کہتا ہوں ‘جعفر کے حال دل’ کا پورا پول کھول کر رکھ دینا چاہیے۔ مجھ سے پوچھیے، ان صاحب نے پچھلے نو برسوں میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ اگر ناجی صاحب تھوڑی سی عنایت مزید کریں اور جعفر حسین جیسے تھڑ دلے لکھاری کا ‘بچی حضور والا بچی’ بھی چھاپ دیں تو خدا کی قسم، رنگ میں بھنگ ڈل جائے گا۔ کل دوپہر تک خلیفہ بھی اپنے لاؤ لشکر سمیت نکل آئیں گے۔ اس بابت اس کے بلاگ پر جتنا بارود بھرا ہے، وہ بھی خود بخود ہی نکل آئے گا۔ اس کا تو قلع قمع ہو ہی رہے گا، خلیفہ صاحب کو فائدہ یہ بھی ہو گا کہ اس تحریر کو محمد حنیف نے بھی سراہا تھا۔ محمد حنیف کو دیکھو، ناجی کہیں کا!

جاوید چوہدری کی مجھے فکر نہیں ہے کیونکہ جب تیر کمان سے نکل چکے گا تو پھر ناجی صاحب کی عنایات کی مزید ضرورت نہیں پڑےگی۔ چوہدری اور ان کی ٹیم پرائی شادی میں عبداللہ دیوانے کے مصداق جعفر کے یہاں چوہدری صاحب کا انداز پہچان لے گی۔ جب ایسا ہو رہے تو پھر وہ خود ہی اس سے نبٹ لیں گے، پرائی شادی کی رسموں میں جوتا چرا کر اسی کے سر پر ماریں گے۔ چوہدری صاحب کو خود کشٹ اٹھانے کی بھی کوئی ضرورت نہیں، ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ پچھلے دس پندرہ برس سے انہوں نے خود تو کوئی کالم نہیں لکھا، ان کی ٹیم ہی لکھتی آئی ہے۔ اگر ایسا ہے تو ٹیم ہی کے حوالے کر دیں لیکن کیا پتہ، جعفر حسین ہی چوہدری صاحب کی ٹیم نکل آیا تو پھر؟

رؤف کلاسرہ صاحب، یہ بہتی گنگا ہے۔ جنوبی پنجاب کی طرح آپ پھر پیچھے رہ گئے ہیں۔ آپ تو خود ہی تھوڑی سی حرکت کر لیں، انشاء اللہ برکت ہو گی۔

شعیب ملک کے ردعمل کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ جعفر حسین نے ثانیہ مرزا کو کئی خطوط لکھے تھے۔ عین ممکن ہے، وہ دو نالی بندوق اٹھا فیصل آباد پہنچ جائے؟ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ حسن نثار کو کہیں پہنچنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، وہ صرف لٹھ اٹھائیں اور اپنے لائل پور ہی میں بغل کے کسی محلے میں جعفر حسین کو پائیں۔ اس کی درگت بنائیں۔

جعفر حسین کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ بہت ہی آزاد خیال واقع ہوا ہے، حالانکہ اس نے اپنی عمر کا بڑا حصہ خلیج عرب جیسی جگہ پر گزار رکھا ہے۔ اتنا ڈھیٹ ذہن ہے، خدا جانے کیوں مگر ابھی تک غلامی پر آمادہ ہی نہیں ہوا؟ اس نے تو وقار کو بھی چھیڑ رکھا ہے۔ وقار کے یہاں عام آدمی تو چھوڑو، آزاد پنچھی بھی پر مارنے سے ہٹتے ہیں۔ اب مزید کیا کہوں؟ جعفر حسین جیسے لوگ ملک دشمنی اور ملک صاحب کی دشمنی میں فرق ہی نہیں سمجھتے۔

نعیم الحق صاحب تو خواہ مخواہ ہی دیوار سے لگ گئے۔ ابھی بلاگ کھولیں اور آج رات ٹی وی کو پھر سے گرما دیں۔ اس نے تو ان کے ہر دلعزیز لیڈر کو بھی کہیں کا نہیں چھوڑا۔ بہت لتاڑا ہے، ذاتی رائے میں ہی سہی مگر حد کر دی ہے۔ اسی وجہ سے پٹواری بھی کہلایا گیا۔ ماتھے پر اس کلنک کو دھونے کے لیے ‘میاں صاحب کی ڈائری’ بھی لکھی مگر بے سود۔۔۔ لوگ ہیں، پھر بھی چھیڑتے رہتے۔ چنانچہ گلی کے پاگل ‘لالو’ کی طرح جب کچھ نہ بن پڑا تو ایک دن ‘سپہ سالار کی ڈائری’ بھی لکھ ڈالی۔ عجیب، مخبوط الحواس شخص ہے۔ واقعی، اسی لیے تو مزاح لکھتا ہے۔

جعفر حسین، تمھارے بلاگ پر شاعری اور گانے شانے بھی مل جاتے ہیں۔ ان کی چنداں فکر نہ کرو کیونکہ ان سے کسی کا کچھ نہیں بگڑتا، ان سے صرف دل کے پھپھولے پھوٹتے ہیں۔ دل کے پھپھولوں سے یاد آیا، خدا جانے علمدار کہاں ہو گا؟ اسے خبر کرو۔۔۔ اس کی بات بھی 2013ء کے انتخابات کی بات جیسی ثابت ہو گئی۔ جعفر حسین، جیسا تم فلموں کا جائزہ لکھتے ہو، ویسا ہی ناجی صاحب نے کہا۔۔۔ صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں؟ گھٹیا لکھاری ہو لیکن اف خدا، اتنا مزیدار لکھتے ہو؟

 مبشر زیدی نے ایک دن بہت خوب بات لکھی تھی، غالباً کہا تھا کہ ادب اور بالخصوص فکشن پڑھے بغیر کوئی شخص جھوٹ اور سچ میں فرق نہیں کر سکتا۔ یہ پڑھے لکھے جاہل مگر ذمہ دار لوگ واقعی جھوٹ اور سچ میں فرق نہیں کر سکے۔ بھئی، یہ دونوں ہی کیا، ٹرک کی بتی کے پیچھے لگے سبھی ‘سیکل’ نکلے۔ ان ‘سیکلوں’ کی وجہ ہی سے تو کسی زمانے میں نسیم حجازی جیسوں کی چاندی رہی۔

لیکن مذاق برطرف، یہ دھیان رہے۔ جعفر حسین کے بلاگ پر ایک حصہ ایسا بھی ہے جہاں آپ کی ملاقات سودی، کالے صاحب، جعفر حسین، رفیق صاحب، منیر نیازی، رستم علی ضیاء، بابا حاجی، توڑی سائیں اور کئی دوسرے کرداروں سے ہو سکتی ہے۔ وہ سب سچ ہے۔ ایک بال برابر بھی اس میں کوئی کھوٹ نہیں ہے۔ اس حصے سے بچ کر رہیے۔

یہ جدید دنیا ہے۔ انسانوں نے وقت کے ساتھ ‘مصنوعی ذہانت’ اور ‘قدرتی حماقت’ میں خوب ترقی کر لی ہے۔ دیکھیے تو، دس سال بعد یہ وقت بھی آنا تھا کہ جعفر کے بلاگ پر انتباہی نوٹ لکھ کر چسپاں کر دیا گیا ہے۔ میں ایک دفعہ پھر عرض کرتا ہوں۔ بالخصوص خواتین متوجہ ہوں۔۔۔ ‘جعفر کا دسترخوان’ پر ملنے والی کھانے پکانے کی ترکیبیں خالص مزاح کے پیراہے میں لکھی گئی ہیں۔ نعیم الحق صاحب کی ہی طرح غلطی مت دہرائیں، ان ترکیبوں کو پکانے کی ہر گز کوشش مت کریں۔ لیکن چونکہ شوقین ہیں تو پھر اگر پکا ہی لیں تو خدارا، خود کھانے اور دوسروں کو کھلانے سے باز رہیے گا۔ بتائے دیتا ہوں، جعفر حسین کسی بھی صورت نتائج کا ذمہ دار نہیں ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).