’پیر نے جو کیا ٹھیک کیا‘


پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ضلع سرگودھا ایک زرعی علاقہ ہے جہاں زیادہ تر آبادی دیہات میں مقیم ہے۔دیہاتی آبادی پر مشتمل اس ضلع میں پنجابی زبان کا لہجہ بدلتا رہتا ہے مگر ایک چیز جو ہر جگہ مشترک ہے وہ یہاں کے لوگوں کی درباروں، درگاہوں اور صوفیا سے عقیدت ہے۔

سرگودھا شہر سے ذرا باہر نکلیں تو محض پانچ سے چھ کلو میٹر شمال کی جانب سلانوالی روڈ پر چھوٹے دیہات کا ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ ان ہی میں سے ایک گاوں چک 95 شمالی بھی ہے جہاں اتوار کو 20 افراد کے قتل کا واقعہ پیش آیا۔

گاوں میں داخل ہوتے ہی پہلی ہی گلی میں ایک گھر کے باہر چٹائیاں بچھی ہیں جن پر لوگ قتل ہونے والے افراد کے ورثا سے تعزیت کر رہے ہیں۔ ان افراد کو یہاں واقع دربار کے ایک متولی عبدالوحید نے مبینہ طور پر اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ ملکر ڈنڈوں اور چاقوو¿ں کے وار کر کے قتل کیا تھا۔

سڑک سے دو کلو میٹر دور واقع اس گاوں میں تا حد نظر گندم کے کھیت دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے درمیان کھڑے اینٹوں کے بھٹے اور دربار نمایاں ہیں۔ چند گھروں پر مشتمل اس گاو¿ں اور اس جیسے قریبی دیہاتوں میں پانچ سے چھ دربار دیکھنے کو ملتے ہیں۔

گاوں کے ایسے درباروں پر لوگ اپنے مالی اور سماجی مسائل کے حل کے لیے منتیں ماننے آتے ہیں۔ سالانہ عرس اور میلوں میں مریدین کی طرف سے اپنے پیر یا روحانی پیشوا کی خدمت میں نقد رقوم اور دیگر اجناس کی شکل میں چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں۔

ایسے کسی دربار کے گدی نشینی یا متولی کا عہدہ انتہائی پر کشش ہوتا ہے۔ لوگ عموماً اپنے پیر کے احکامات اور باتوں کی سختی سے پیروی کرتے ہیں۔

شاید یہی وجہ ہے کہ جب بات دربار کے متولی عبدالوحید کے خلاف مدعی بننے یا اس کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کروانے کی آئی تو مرنے والوں کے ورثا میں سے کوئی سامنے نہیں آیا۔ گھنٹوں انتظار کے بعد مقدمہ سرگودھا تھانہ صدر پولیس کی مدیت میں درج کیا گیا۔

پولیس کے مطابق 20 لوگوں کے قتل کے پیچھے بظاہر گدی کا معاملہ لگتا ہے۔ پولیس کے سامنے اعترافِ جرم کرتے ہوئے متولی عبدالوحید کا کہنا تھا کہ اس نے ان لوگوں کو اس لیے قتل کیا کہ وہ سب اس کو زہر دے کر مارنے کی سازش کر رہے تھے اور دربار کی گدی پر قابض ہونا چاہتے تھے۔

اس واقعے میں زندہ بچ جانے والے محمد توقیر نے بی بی سی کو بتایا کہ متولی عبدالوحید نے ایک ایک کر کے تمام لوگوں کو بہانے سے وہاں اکٹھا کیا اور ان کو ڈنڈے مار کر قتل کر دیا۔

سرگودھا کے ریجنل پولیس آفیسر ذولفقار حمید کا کہنا تھا کہ پولیس کی مدیت میں مقدمہ اس لیے درج کیا گیا کہ مقتولین کے ورثا میں سے کوئی مدعی بننے کے لیے سامنے نہیں آیا۔

’مقدمہ تو اب درج ہو چکا مگر میں ان لوگوں کو تاکید کروں گا کہ وہ آگے آئیں اور اگر ان کے پاس ثبوت ہیں تو پولیس کے ساتھ تعاون کریں تاکہ تفتیش کے بعد ایک مکمل کیس عدالت میں جا سکے اور اس میں کوئی جھول نہ ہو۔‘

ایک پولیس اہلکار کے مطابق متولی عبدالوحید نے یہ بھی کہا۔’میں نے ان افراد پر تشدد ان کی مرضی اور اصرار پر کیا۔ ڈنڈے لگنے سے ان کے گناہ معاف ہوئے اور وہ جنت میں چلے گئے۔‘

چک 90 سے تعلق رکھنے والی کراچی کے رہائشی محمد اقبال گجر نے بی بی سی کو بتایا کہ قتل ہونے والے لوگوں کے لواحقین میں زیادہ تر ایسا ہی سمجھتے ہیں۔

’اس کے سارے عقیدت مند یہ سمجھ رہے ہیں کہ مرنے والے امر ہو گئے۔ اللہ کو یہی منظور تھا۔ پیر نے جو کیا ٹھیک کیا ہے۔‘

(عمر دراز ننگیانہ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp