ایک پروف ریڈر کی سرگزشت


پرانی کتابوں کے ایک ٹھیلے سے آج نقوش کا خطوط نمبر ملا تو بچپن کی یادیں تازہ ہوگئیں۔ مجھے خط لکھنے کا شوق تھا اور اخبارات اور رسائل کے ایڈیٹرز کو خط لکھا کرتا تھا۔ اسکول کے زمانے میں ایک بار جب میں نے بی بی سی کو خط لکھا تو بچوں کے پروگرام شاہین کلب کی ٹیم نے جواب میں اپنی ایک تصویر بھیجی۔ رضا علی عابدی اور ان کے ساتھیوں کی وہ تصویر آج بھی میرے پاس ہے۔ ہمدرد نونہال میں میرے کئی خط چھپے۔ لیکن جو خط نہیں چھپا وہ زیادہ قیمتی ثابت ہوا کیونکہ اس کا جواب حکیم محمد سعید کے دستخطوں کے ساتھ میرے گھر پہنچا۔ ایک بار ماہنامہ سرگزشت کو خط لکھا تو اس کے ایڈیٹر انور فراز نے مجھے اپنے دفتر طلب کیا اور ملازم رکھ لیا۔

ماہنامہ سرگزشت سے میری جذباتی وابستگی رہی ہے۔ میں نے اس میں ہر وہ کام کیا ہے جو کسی ڈائجسٹ میں ممکن ہے۔ اس میں میرے خط چھپے، میں نے دوسروں کے خطوط کے جوابات لکھے، سچی کہانیاں لکھیں، تراجم کیے، پہلا صفحہ لکھا، کہانیوں کے انٹرو لکھے اور تراشے فراہم کیے۔ لیکن سب سے پہلا کام جو دیا گیا، اس سے مجھے بہت مایوسی ہوئی۔

ایڈیٹر صاحب نے میرا ’’عہدہ‘‘ سب ایڈیٹر مقرر کیا تھا لیکن پہلے دن پروف ریڈنگ پر لگادیا۔ میں نے اس پر احتجاج کیا۔ ایڈیٹر صاحب نے کہا، ’’میاں! اصل کام تو یہی ہے۔ پروف ریڈنگ نہ کی تو اور کوئی کام کیسے کرو گے؟ کیا تم جانتے ہو کہ جون ایلیا کس بات پر فخر کرتے تھے؟ اس بات پہ کہ وہ پروف ریڈر رہے ہیں۔ ‘‘ میں اس وقت نوجوان تھا، یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔ لیکن شکر ہے کہ کام سے لگ گیا۔

ماہنامہ سرگزشت جو ادارہ شائع کرتا ہے، اسی کے تحت سسپنس، جاسوسی ڈائجسٹ اور پاکیزہ بھی شائع ہوتے ہیں۔ مجھے محی الدین نواب، احمد اقبال، علیم الحق حقی، اقلیم علیم، ایچ اقبال، محمود احمد مودی، طاہر جاوید مغل، ساجد امجد، احمد صغیر صدیقی اور منظر امام جیسے رائٹرز کی کہانیوں کی پروف ریڈنگ کا موقع ملا۔ ان رائٹرز کی کہانیوں کی بدولت مجھے آسان زبان لکھنا آئی، ان کہانیوں نے مجھے الفاظ کا ذخیرہ دیا، دس طرح سے جملہ لکھنے کا طریقہ بتایا، خشک تحریر کو دلچسپ بنانے کا گر سمجھایا اور سسپنس پیدا کرنے کا ہنر سکھایا۔

اگر کوئی شخص کہانی لکھنا نہ جانتا ہو اور وہ ایسے لکھنے والوں کی کہانیاں پڑھے تو اسے کہانی لکھنا آجائے گی۔ میں پہلے بھی کہانیاں لکھتا تھا لیکن اس مختصر دور کی ملازمت نے مجھے کچھ سے کچھ بنا دیا۔ ایک اہم کام یہ سکھایا کہ لغت دیکھنے کا عادی بنا دیا۔

میں دفتری اوقات میں پروف ریڈنگ کرتا تھا اور گھر جاکر کہانیاں ترجمہ کرتا تھا۔ میرا خیال ہے کہ اس وقت سسپنس اور جاسوسی کے بڑے رائٹرز کو فی صفحہ چار سو روپے معاوضہ دیا جاتا تھا۔ میں جونیئر رائٹر تھا اس لیے میرا معاوضہ سو روپے فی صفحہ مقرر کیا گیا۔ اس وقت مجھے یہ کافی مناسب لگتا تھا۔

ایک دن میں نے سوچا کہ میری تنخواہ تین ہزار روپے ہے۔ اگر میں گھر بیٹھ کر ایک دن میں صرف ایک صفحہ لکھوں تو مہینے کے تین ہزار ہوجائیں گے۔ دو صفحے لکھے تو مہینے کے چھ ہزار اور تین صفحے ترجمہ کیے تو مہینے کے نو ہزار ہوجائیں گے۔ بس یہ خیال آنا تھا کہ میں نے استعفا لکھ کر ایڈیٹر صاحب کو پیش کیا۔ فراز صاحب نے منع کیا اور معراج رسول صاحب نے بھی بلا کر سمجھایا لیکن میں استعفا واپس لینے پر راضی نہ ہوا۔

پھر یوں ہوا کہ میں گھر بیٹھ کر دو چار سے زیادہ کہانیاں نہ لکھ سکا اور مجھے زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے ایک اخبار میں نوکری کرنا پڑی۔

ڈائجسٹوں کے برعکس اخبارات میں سب ایڈیٹر الگ ہوتے ہیں اور پروف ریڈرز الگ۔ کراچی سے روزنامہ ایکسپریس نکلا تو میں اس کی پہلی ٹیم کا حصہ تھا۔ نائٹ شفٹ کے چار پانچ پروف ریڈرز جو چار پانچ غلطیاں چھوڑ دیتے تھے، وہ میں آخری کاپی میں پکڑ لیتا تھا۔ ایڈیٹر نیر علوی صاحب چار الفاظ یعنی ’’مسئلہ کشمیر کے حل‘‘ کے بجائے دو الفاظ یعنی ’’تصفیہ کشمیر‘‘ لکھتے تھے۔ ایک دن یہ دو الفاظ لیڈ یعنی مرکزی سرخی کا حصہ تھے۔ کاپی چھپنے جانے والی تھی کہ میں نے لفظ تصفیہ پکڑ لیا جسے تفصیہ لکھا گیا تھا۔ یہ اتنا موٹا موٹا لکھا تھا کہ صبح اخبار میں چھپ جاتا تو بھد اڑ جاتی۔ اس دن ایڈیٹر صاحب نے بہت شاباشی دی۔

آج جو بچے جرنلزم میں آرہے ہیں، ان میں سے بہت سوں کو اردو لکھنا نہیں آتی۔ وہ رومن میں رپورٹ لکھتے ہیں۔ جنھیں اردو آتی ہے، ان کی املا درست نہیں۔ بہت سے رپورٹرز اور اینکرز کا تلفظ ٹھیک نہیں۔ اس کے باوجود نہ وہ کتاب پڑھتے ہیں، نہ لغت دیکھتے ہیں۔ میں شکر ادا کرتا ہوں کہ میرے کریئر کی ابتدا پروف ریڈنگ سے ہوئی ورنہ میں بھی آج غلط املا لکھ رہا ہوتا اور غلط تلفظ ادا کرتا۔

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi