پاکستان میں Incest کا مسئلہ


“میں پانچ سال کی تھی جب سے مجھے یاد ہے کہ میرا باپ مجھے جنسی ہوس کا نشانہ بناتا تھا۔ وہ ایک کالج کا پروفیسر تھا۔ میں جوں جوں بڑی ہوتی گئی تو مجھے پتا چلا کہ میری ماں کو بھی اس بات علم ہے اور وہ اس دکھ سے مر رہی ہے لیکن وہ مدد نہیں کر سکتی کیونکہ یہ بات وہ کس سے کرے اور کیسے کرے۔ حالانکہ میری ماں پڑھی لکھی تھی اور وہ نوکری بھی کرتی تھی۔ میں شدید پریشان اور خوف زدہ رہتی تھی۔ میں نے اپنی ذہنی پریشانی کا علاج کرنے کی خاطر خود بھی نفسیات میں ڈگری کی ہے۔ لیکن میں پھر بھی اپنا علاج نہیں کر پائی۔ مجھے سائیکالوجسٹ کی مدد درکار ہے۔ اب میں بڑی ہوں میں اپنی لڑائی لڑنے کے قابل ہوں لیکن میں اپنے دل کا غبار ویسے نہیں نکال سکتی جیسے میں چاہتی ہوں کیونکہ میرا باپ اب مر چکا ہے”۔ یہ “بیداری” تنظیم میں آنے والی اپنے باپ کے ہاتھوں جنسی تشدد (Incest) کا شکار ایک لڑکی کی کہانی ہے۔

ایک اور کیس میں ایک باپ اپنی چار بیٹیوں کو جنسی ہوس کا نشانہ بناتا تھا۔ ماں بھی باخبر تھی لیکن بے چاری خوف زدہ تھی اور مدد کرنے کے قابل نہ تھی۔ بات سائیکالوجسٹ تک اس وقت پہنچی جب پڑی بیٹی 24 سال کی ہو گئی اور اس کی شادی بھی ہو گئی اور سب سے چھوٹی دس سالہ بہن کی اس کرب سے گزرنے کی باری آ چکی تھی۔ بڑی بہن اب لڑائی لڑنا چاہتی تھی۔ اس کیس میں باپ ایک معمولی ملازمت کرتا تھا۔

چند سال قبل اسلام آباد کے ایک گاؤں کی نوجوان خاتون نے اپنے باپ پر جنسی زیادتی کا الزام لگایا تھا۔ باقاعدہ مقدمہ قائم ہوا۔ جب میڈیکل ہوا تو وہ لڑکی حاملہ بھی تھی۔ لڑکی کا بھائی جو ایک نوجوان لڑکا تھا بہن کا ساتھ دے رہا تھا۔ کافی شواہد لڑکی کے سچے ہونے کے تھے۔ اصول بھی یہی ہے کہ ایسے حالات میں لڑکی کا ساتھ دیا جائے کیونکہ کسی بھی لڑکی کے لئے اپنے باپ پر ایسا جھوٹا الزام لگانے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور نمائندوں نے لڑکی کا ساتھ دیا۔ باپ گرفتار ہوا اور لڑکی کو اس کی حفاظت کی خاطر دارالامان بھجوا دیا گیا۔ لڑکی کا بھائی جو مقدمے کی پیروی کر رہا تھا وہ کچھ عرصے بعد قتل ہو گیا۔ لڑکی بھی مقدمے کے دوران ہی دارالامان میں ٹی بی کی بیماری سے فوت ہو گئی۔

میں چونکہ ایسے بیسیوں واقعات سے واقف تھا اس لئے جب ایک دن میں نے مفتی نعیم صاحب کو ایک ٹی وی ٹاک شو میں بچیوں پر اپنے گھروں میں اپنے ہی محرم رشتہ داروں کے ہاتھوں ہونے والے جنسی تشدد (incest) سے قطعی انکار کرتے سنا تو مجھے دھچکا لگا۔ وہ ماروی سرمد کے ساتھ جھگڑ رہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسا یورپ اور امریکہ جیسے گندے معاشروں میں تو ہوتا ہو گا لیکن پاکستان میں نہیں ہوتا کیونکہ ہم مسلمان ہیں اور غیرت مند پاکستانی ہیں۔ یہ مولانا لوگ جنہوں نے ہماری رہنمائی کا زبردستی ٹھیکہ لے رکھا ہے انہیں معاشرتی مسائل سے آگہی کس قدر کم ہے اور ان کی دلیلیں کتنی بودی ہوتی ہیں۔ بہت لوگوں میں بہرحال یہی تاثر پایا جاتا ہے کیونکہ ہم شدید جہالت کے دور سے گذر رہے ہیں۔

کچھ ماہ قبل ایک جج صاحب نے کسی کیس کی شنوائی کے دوران تبصرہ کیا تھا کہ اسلام باپ بیٹی کو اکیلے کمرے میں اکٹھے ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس پر بہت لوگوں نے مزید تبصرے کیے کہ جہاں ایک مرد اور عورت اکٹھے ہوں وہاں تیسرا شیطان ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ جتنے منہ اتنی باتیں لیکن بد قسمتی سے زیادہ تر بحث جہالت پر مبنی تھی۔

جج صاحب نے بات تو نہایت نامناسب کی تھی مگر ان کے اس بیان سے ایک موقع نکلا کہ بچوں، خاص طور پر بچیوں، کے ساتھ گھروں میں اپنے محرم رشتہ داروں کے ہاتھوں ہونے والے جنسی تشدد جیسے انتہائی اہم موضوع پر بات کی جا سکے۔

بدقسمتی سے حقیقت یہ ہے کہ بچوں اور خاص طور پر بچیوں کے ساتھ اپنے محرم رشتہ داروں کے ہاتھوں جنسی تشدد اور جنسی زیادتی پاکستان سمیت ہر معاشرے میں موجود ہے۔ ایسے واقعات اور ان سے متاثر ہونے والی بچیوں کی تعداد عام لوگوں کے اندازے سے کہیں زیادہ ہے۔ زیادہ تر معاشروں میں اس پر بات کرنا ناممکن ہے۔ ایک بھیانک حقیقت یہ بھی ہے کہ کوئی معاشرہ بچوں کے ساتھ جنسی تشدد جیسے سماجی مسائل پر بات کرنے سے جتنا کتراتا ہے اس میں عورتوں، بچیوں اور بچوں کے ساتھ جنسی تشدد اور جنسی زیادتی ک امکانات اتنے ہی بڑھ جاتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے میں ان مسائل پر بات کرنا بہت ہی مشکل ہے اور پھر ہمارے مذہبی حلقے حقیقت سے آنکھ چرانے پر نازاں بھی ہیں۔ سوشل ورکرز اور حقیقی سماجی تجزیہ نگار اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ہمارے ہاں یہ مسئلہ بہت زیادہ ہے مگر منظر عام پر اس لئے نہیں آ سکتا کیونکہ اس کی گنجائش ہی موجود نہیں ہے۔ اس کا شکار بچیاں اور بچے پوری زندگی اکیلے ہی یہ عذاب جھیلتے ہیں اور کسی سے ذکر تک نہیں کر سکتے۔ کیونکہ ان کی کوئی مانتا ہی نہیں ہے۔

بیداری (bedari.org.pk)، روزن (rozan.org) اور ساحل (sahil.org) جیسے بچوں اور عورتوں کے حقوق اور ان کے خلاف جنسی تشدد کے خاتمے کا کام کرنے والے ادارے اپنے سیکڑوں کلائینٹس کی وجہ سے جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں یہ تشدد (incest) بہت زیادہ ہے۔ بچوں کو جنسی تشدد سے بچاؤ پر کام کرنے والے تمام اداروں کو آئے دن ایسے معاملات سے واسطہ پڑتا ہے۔

آپ حیران ہوں گے کہ کسی قسم کی کوئی ایڈورٹائزنگ نہیں ہے۔ ماحول میں شدید گھٹن ہے۔ بات تک کرنے کی اجازت نہیں ہے پھر بھی اتنی بچیاں، بچے اور عورتیں کیسے ان اداروں تک پہنچ جاتے ہیں۔ تو یہ بھی گواہی ہے اس چیز کی کہ پرابلم بہت زیادہ ہے۔ اور اس تشدد کے خلاف لڑکٰیوں، لڑکوں اور عورتوں کو مدد کی ضرورت بہت زیادہ ہے۔ حالانکہ ایسے ادارے صرف چند بڑے شہروں تک محدود ہیں پھر بھی ہر سال سیکڑوں شکایات وصول کرتے ہیں۔

جو کچھ مفتی نعیم صاحب نے کہا تھا وہ حقیقت کے بالکل برعکس ہے اور جج صاحب کی رائے بالکل ہی نامناسب تھی۔ اس لئےکہ لاکھوں کروڑوں باپ اور بیٹیاں آپس میں بے پناہ پیار اور احترام سے رہتے ہیں اور کسی جنسی تشدد کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ وہ لاکھوں کروڑوں باپ بیٹیاں ایک دوسرے کے پیار کے سہارے معاشی تنگ دستی جیسے مسائل کے باوجود بھرپور زندگیاں گزارتے ہیں۔ ایسے ان گنت باپ بیٹیوں کے درمیان شک کی یہ فضا پیدا کرنا انسانیت کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہو گی۔ ویسے بھی جنس کی بنیاد پر انسانوں کو ایک دوسرے کو الگ کرنا مسائل کم نہیں کرتا بلکہ انہیں بڑھاتا ہے۔ اور پھر Incest جیسے بھیانک جنسی تشدد کے خاتمے کا یہ صحیح طریقہ نہیں ہے۔

صحیع طریقے کے مطابق پہلا قدم مسئلے کے وجود کو تسلیم کرنا ہے۔ اس پر بات چیت شروع کرنا ہے۔ تاکہ بچیوں اور ان کی ماؤں کو یہ تشدد چپ چاپ سہنا نہ پڑے۔ انہیں احساس ہو کہ کوئی ان کی بات سننے، ماننے اور مدد کرنے والا موجود ہے۔ کوئی سسٹم موجود ہو جس کے تحت اس عذاب میں پھنسی ہوئی لڑکیاں مدد حاصل کر سکیں۔

مزید ایسے انتظامات کرنے کی ضرورت ہے کہ اس عذاب میں پھنسی بچیاں تمام سماجی رکاوٹوں کے باوجود مدد کرنے والے اداروں تک پہنچ سکیں۔ اور وہ ادارے ان کی مدد کو پہنچ سکیں۔

اس مسئلے پر سمجھ بوجھ بڑھانے کے لئے یونیورسٹیوں میں تحقیقی کام ہونا چاہیئے۔ سکول اور اساتذہ اس سلسلے میں بہت مدد کر سکتے ہیں۔ ان کی تربیت کی جائے تاکہ وہ اس پرابلم میں پھنسے ہوئے بچوں کو جلدی پہچان سکیں اور ان کی مدد کر سکیں۔ تعلیمی اداروں میں شکایات کو سننے، مدد کرنے اور رازداری کو برقرار رکھنے کا ایک مربوط اور موثر نظام ہونا اشد ضروری ہے۔


سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik