اوریا مقبول جان کا جاپانی جھوٹ۔۔۔۔ ذرا ہوشیار رہیے


 خواجہ معین الدین کے لازوال ڈرامے تعلیم بالغاں کا ایک منظر ہے۔ استاد مولوی صاحب ایک شعر کی تشریح کی کوشش کرتے ہوئے اپنے طلبا پر رعب ڈالنے کے لیے کہتے ہیں

“اس شعر میں ایک تلمیح ہے”

غریب طالب علم سٹپٹا کر پوچھتے ہیں کہ

“مولوی صاحب، یہ تلمیح کیا ہوتی ہے؟”

اب مولوی صاحب غریب کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں ہے کہ تلمیح کس چڑیا کا نام ہے اس لیے وہ کچھ ناکام سی بات بنانے کی کوشش کرتے ہیں پر بات بنتی نہیں۔ ادھر ایک شرارتی طالب علم جس کا نام شمسو ہے۔ مولوی صاحب کی نقل اتار کر انہیں چڑانا شروع کر دیتا ہے۔ مولوی صاحب کو اور تو کچھ نہیں سوجھتا ، الٹا شمسو سے پوچھتے ہیں

“تو بتا، تلمیح کیا ہوتی ہے؟”

شمسو چپ رہتا ہے کیونکہ ظاہر ہے اسے پتہ نہیں ہے تو مولوی صاحب کے ہاتھ گویا ترپ کا پتہ آ جاتا ہے۔ وہ ایک قہقہہ لگاتے ہیں اور شمسو کی طرف اشارہ کر کے کہتے ہیں

“دیکھو، اتنا بڑا ہو گیا، اسے ابھی تک تلمیح کے معنی نہیں آتے”

باقی طالب علم بھی موقع پاتے ہیں اور شمسو کو نکو بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ شمسو بیچارہ جزبز ہو کر چپکا ہو جاتا ہے۔ اس دوران مولوی صاحب کو ترکیب سوجھ جاتی ہے۔ وہ پوچھتے ہیں

” اچھا بتاو، کسی کو تلمیح کا مطلب پتہ ہے؟”

جواب میں سارے نفی میں سر ہلاتے ہیں۔ یہ دیکھتے ہی مولوی صاحب چمک کر بولتے ہیں

” ارے واہ۔ پھر تو بہت آسان ہے۔ میں بتاتا ہوں”

اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے

” دیکھو، ایک ہوتا ہے شعر کا لغوی معنی اور ایک ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ اس کا ۔۔۔۔ معنوی معنی۔ ان دونوں کو ملا کر جو تیسرے معنی نکلے ہیں اس کا مطلب ہے تل میح ۔۔۔۔ تلمیح۔ تو یہ ہوتی ہے تلمیح”

سارے طالب علم واہ واہ کر اٹھتے ہیں اور مولوی صاحب سب کو الو بنانے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ اگلے سبق کی جانب بڑھتے ہیں۔

اوریا مقبول جان کو بھی ایسے ہی چاہنے والے میسر آئے ہیں جو اپنی کم علمی کے باعث ان کے ہر جھوٹے سچے ارشاد پر واہ واہ کے ڈونگرے برسانے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ اور جب کہیں اوریا صاحب کسی شمسو کے آگے پھنس جائیں تو ان کا بھی پہلا حربہ یہی ہوتا کہ کہ دیکھو اتنا بڑا ہوگیا اور اسے تلمیح کے معنی پتہ نہیں۔ اس کے بعد تسلی کر کے کہ کسی اور کو بھی معنی پتہ نہیں وہ اپنے معنی ایجاد کرتے ہیں اور ٹی وی شو ہو یا کالم، اس میں تیقن سے اس کا الاپ شروع کر دیتے ہیں۔

بات تاریخ اور مذہب کا حلیہ بگاڑتی اب معاشیات اور مالیات تک پہنچ گئی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ کتاب الفتن کی احادیث اوریا صاحب کا خاص موضوع ہیں اور وہ اس ایقان کے ساتھ ان کا بیان کرتے ہیں گویا اس سے بہتر ثبوت اور کوئی ہے نہیں۔ کتاب الفتن کی احادیث پر جید علماء کا کام اور تنقید موجود ہے اور اس کا سرسری مطالعہ بھی یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ اوریا صاحب جن روایات کو حرزایمان بتاتے ہیں، ان میں سے اکثر انتہائی ضعیف اور صحت سے خالی ہیں۔ تاریخ کو انہوں نے گھر کی کنیز بنایا ہوا ہے۔ جب دل کرتا ہے اسے مرضی کا لباس پہنا کر اپنی دھنوں پر نچاتے ہیں۔ پاکستان، عرب اور افغان تاریخ کا تیا پانچہ کرنا صاحب کا مشغلہ ہے۔ چلیے مان لیں کہ یہ وہ موضوعات ہیں جہاں بحث کی گنجائش ہے۔ مختلف تفہیمات اور تشریحات خواہ وہ کیسی ہی ناقابل یقین ہوں، برامد کرنے کا جوہر ممکن ہے۔ پر اب تو حضرت شہہ پا کر ان عنوانات کو بھی اپنی مرضی سے جھوٹ کے لبادے میں لپیٹ کر پیش کرنا شروع ہو گئے ہیں جہاں ایک کے بعد دوسری رائے ممکن ہی نہیں اور اس سے بھی کمال یہ ہے کہ کسی نے اس پر گرفت بھی نہیں کی۔

کچھ عرصے سے جناب اوریا مقبول جان کا ایک پسندیدہ موضوع کاغذی کرنسی، سود اور بینکاری رہا ہے۔ کاغذی کرنسی کے بارے میں انہوں نے ان گنت سازشی نظریات پیش کیے۔ زیب داستاں کے لیے بات یہاں تک پہنچا دی کہ کاغذی کرنسی اصل میں 73 سال قبل ایک خاص سازش کے تحت وجود میں آئی۔ اب انہیں کون بتائے کہ کاغذی کرنسی کی تاریخ دو ہزار سال پرانی ہے۔ اور اس کی موجودہ شکل کا آغاز تیرہویں صدی میں ایک منگول مسلم حکمران کیخاتو خان المعروف ایل خان کے ہاتھوں ہوا تھا۔ چلیں اس بحث کو چھوڑیں کہ آج کا موضوع ان کا وہ معرکتہ الآرا انکشاف ہے جس میں انہوں نے قوم کو یہ بتایا ہے کہ جاپان میں شرح سود منفی کر دی گئی ہے۔ بینک کھاتہ داروں سے رقم رکھنے کا معاوضہ لے رہے ہیں۔ عملا سود ختم کر دیا گیا ہے۔ اور تو اور یورپ بھی اس راہ پر چل نکلا ہے۔ یہ اسلامی تعلیمات کی فتح ہے پر ہمارا دجالی میڈیا اس خبر کی تشہیر نہیں ہونے دے رہا کہ کہیں ہماری قوم بھی یہی مطالبہ کرتی سڑکوں پر نہ نکل آئے اور طاغوت کا یہ سودی نظام پاش پاش نہ ہو جائے۔ یہ کمال تبصرہ انہوں نے اسی دجالی میڈیا کے ایک چینل اور ایک اخبار کے ادارتی صفحات کے ذریعے قوم تک پہنچایا ۔

اس قوم کے عام آدمی کو تو چھوڑیے، اس کے خواص بھی تعلیم بالغاں کے وہی طالب علم نکلے جو تلمیح کے معنی سے ناآشنا ہیں۔ اوریا صاحب نے بات کی داد سمیٹی اور کسی جانب سے کوئی شمسو بھی برآمد نہ ہوا۔ مجھے اس معاشیات اور مالیات کی دنیا کی کچھ معمولی سی سمجھ ہے کہ زندگی کی تیسری دہائی ہے اس دشت کی خاک چھانتے، تو اگر طبع نازک پر گراں نہ ہو تو ذرا اوریا صاحب کے اس دعوے پر کچھ عرض کروں۔ کوشش یہ ہے کہ بات دقیق نہ ہو اور ہر ایک کو سمجھ آ جائے۔

پہلی بات تو یہ کہ منفی سود کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یورپ میں اس کا استعمال کوئی پچیس سال پرانا ہے۔ حال ہی میں جاپان نے بھی یہ تجربہ کیا لیکن اس کا تعلق عام سودی بینکاری یا کھاتہ داروں سے ہر گز نہیں ہے۔

آپ کو کچھ سادہ مثالوں سے یہ کہانی سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بات سمجھ لیں کہ بینک کیسے کام کرتا ہے۔ بینک میں کھاتہ دار رقم رکھواتے ہیں۔ ان رقومات پر بینک ایک خاص شرح سود انہیں دیتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی رقومات اکٹھی ہو کر بینک کے لیے ایک بڑی رقم بن جاتی ہیں اور بینک انہیں کاروبار کے لیے لوگوں کو قرض پر دیتا ہے۔ اب بینک کھاتے داروں کا قرض دار ہے اور کاروباری بینک کے قرض دار ہیں۔ اگر بینک کھاتہ داروں کو 5 فی صد سود دیتا ہے تو آگے وہ اس رقم کو 8 فی صد شرح پر دے گا۔ جو تین فی صد بچے گا اس سے بینک کے خرچے ہوتے ہیں اور اسی میں سے بینک کا منافع نکلتا ہے۔

حکومت اس بات کا اہتمام کرنے کی پابند ہے کہ کھاتہ داروں کی رقوم کا تحفظ یقینی رہے۔ ساتھ ساتھ ایک مفروضے پر توجہ دیں۔ لوگوں نے بینک میں پیسے رکھوائے اور بینک نے وہ سارے پیسے آگے قرض پر دے دیے۔ ایک صبح بینک کے سارے کھاتہ دار اپنی رقم نکلوانے بینک پہنچے لیکن بینک کے پاس تو رقم ہے ہی نہیں۔ اس صورت میں بینک نادہندہ ہو جائے گا۔ کھاتہ دار الگ حیران پریشان پھریں گے۔ ان دو باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر ملک میں ہر بینک ایک مرکزی بینک کے تحت کام کرتا ہے۔ پاکستان میں یہ مرکزی بینک اسٹیٹ بنک کہلاتا ہے۔ امریکہ میں اسے فیڈرل ریزرو بنک کہتے ہیں۔ یہ طے کر لیا جاتا کہ کھاتہ دار جو بھی رقم بینک میں جمع کرائیں گے۔ بینک اس کا 75 فی صد سے زائد قرض میں آگے نہیں دے سکتا ( 75 فی صد ایک مثال ہے۔ مختلف ممالک میں یہ شرح مختلف ہے) اور باقی 25 فی صد ہر وقت بینک مرکزی بینک کے ساتھ رکھے گا۔ گویا یہ 25 فی صد رقم حکومت کی تحویل میں رہے گی۔ اس کو statutory reserve یا قانونی ذخائر کہتے ہیں۔ ہر ہفتے بینک کے پاس موجود کھاتہ داروں کی رقم کا حساب لگتا ہے اور اس حساب سے 25 فی صد مرکزی بینک کی تحویل میں چلا جاتا ہے۔

بعض اوقات کاروباری دنیا مندے کا شکار ہوتی ہے تو کمرشل بینک اس 25 فی صد کے علاوہ بھی پیسہ مرکزی بینک کے پاس رکھوا دیتے ہیں ۔ اس پر مرکزی بینک کمرشل بینکوں کو معمولی سود ادا کرتا ہے۔ اس کو excess reserve کہتے ہیں۔ اس ریزرو پر ملنے والی سود کی شرح اگر افراط زر کی شرح سے زیادہ ہو تو کمرشل بینک کو فائدہ ہے ورنہ حقیقی معنوں میں یہ نقصان ہے یا Real Interest یعنی حقیقی سود منفی ہو گا۔ مثال کے طور پر شرح افراط زر یا inflation 5 فی صد ہے اور سٹیٹ بنک کمرشل بنک کو اضافی ذخائر پر 3 فی صد دے رہا ہے تو ہم کہیں گے کہ بینک کو 3 فی صد اسمی سود یا nominal interest  ملا پر حقیقی سود یا real interest منفی 2 فی صد ہے۔ ایسا یورپ میں کئی سال سے ہو رہا ہے۔ اس ساری کہانی میں سودی بینکاری ویسے ہی چل رہی ہے۔ کھاتہ داروں کو ان کی رقم پر سود مل رہا ہے اور بینک جو رقم آگے قرض پر دیتا ہے اس پر بھی سود لیتا ہے۔

 منفی سود کی دوسری شکل وہ ہے جس کا حالیہ تجربہ جاپان میں ہوا۔ اس میں مرکزی بینک نے یہ فیصلہ کیا کہ قانونی ذخائر کے علاوہ کوئی بھی کمرشل بینک اگر مرکزی بینک کے ساتھ اضافی ذخائر رکھنا چاہے گا تو اس پر کوئی سود نہیں دیا جائے گا بلکہ الٹا کمرشل بینک سے اس پر چارجز وصول کیے جائیں گے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ بینک زیادہ سے زیادہ رقم مارکیٹ میں کاروباری لوگوں کو سود پر دیں تاکہ کاروبار میں بڑھوتری ہو اور بازار میں تیزی کا رجحان دیکھنے کو ملے، نہ کہ آسان راستہ اپناتے ہوئے یہ پیسہ مرکزی بینک میں محفوظ کر کے اس پر کمائی کی جائے۔ اسے کہا گیا منفی سود۔ اس فیصلے کے بعد دیے گئے قرضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا اور مقصد حاصل ہو گیا۔ یاد رہے کہ اسی دوران جاپان میں کمرشل بینکوں نے کھاتہ داروں کو بھی سود دیا اور قرضہ دینے پر سود وصول بھی کیا اور شرح کے فرق سے اپنا منافع بھی کمایا۔ بس یہ تھی ساری کہانی جس کا اوریا صاحب نے ایک جھوٹا افسانہ بنایا اور اور اپنے موقف کی تائید میں اس کا “معنوی معنی” قوم کو بیچ ڈالا۔ جہاں کسی نے کچھ پوچھنے کی کوشش کی تو اسے شمسو بنا ڈالا۔

یہ مضمون نہ سود کی تائید میں ہے نہ مخالفت میں۔ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ جو کچھ آپ پڑھتے ہیں اور جو کچھ آپ سنتے ہیں وہ سب سچ نہیں ہوتا۔ قوم کی راہ نمائی کے دعویدار دھڑلے سے جھوٹ بولتے ہیں، حقائق کا ملغوبہ بناتے ہیں اور سچ کو ذاتی منفعت پر قربان کرنے کا دھندہ کرتے ہیں۔ یہ جاپانی جھوٹ بھی بولتے ہیں۔ ان سے ہوشیار رہیے۔
Apr 9, 2017

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad