کیماڑی ۔۔۔ میرا محلہ، میرا بچپن


 جب بھی کسی گلی سے گزرتے ہوئے کسی عورت گھر کے دروازے سے آواز لگا کر گلی میں کھیلتے کسی بچے کو بلاتے دیکھتا ہوں تو اپنا محلہ، اپنی گلی اور اپنا بچپن یاد آجاتا ہے۔ گلی میں کھیلتے بچوں کو فاطو آپا اس طرح آواز دے کر بلاتی تھیں، وہ اپنے مخصوص انداز میں کہتیں، دیکھو قدیر دکاندار سے ایک پیکٹ ہرن مارکہ تمباکو، ایک چھٹانک گنڈیری کتھا اور ایک چھٹانک سپاری لے آنا۔ فاطو آپا کی اولاد نہیں تھی،وہ گلی میں کھیلتے بچوں کو آواز لگا کر اپنی روزمرہ کی اشیا دکان سے منگوا لیتی تھیں۔ مجھ سمیت ہر بچہ ان کے گھر کے قریب سے گزرتے ہوئے ڈرتا کہ ابھی پردہ ہٹے گا اور فاطو آپا کی آواز سنائی دے گی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے کام کے لیے جانا پڑتا۔

آج کل کے بچے ان دلچسپیوں اور رناگ رنگ زندگی کا تصور نہیں کر سکتے جن میں ہمارا بچپن گزرا ہے۔ جو ہم نے کھیلے ہمارے بچوں نے ان کھیلوں کے نام تک نہیں سنے جو ہم نے کھیلے۔ بچپن میں کھیلوں کے بھی موسم ہوتے تھے۔ لٹوکا موسم ہے تو ہر گلی میں لٹو چل رہا ہے۔ گِلی ڈنڈے کا موسم آیا تو ہر محلے میں گلی ڈنڈا کھیلا جا رہا ہے، بسنت آتی تو لگتا کہ شاید پورا کراچی پتنگ اُڑا رہا ہے ۔ کنچوں کے موسم میں صرف اور صرف کنچے کھیلے جاتے تھے۔ موسموں سے وابستہ ان کھیلوں کے علاوہ اونچ نیچ، برف پانی، اک، بک، تک کی آواز کے ساتھ لوہے کی سلاخ کو زمین میں گاڑنا، چھُپن چھُپائی یا آنکھ مچولی، نجانے کتنے کھیل تھے جو کبھی ختم نہیں ہوتے تھے ۔

کیماڑی کے دو کمروں کےچھوٹے چھوٹے کوارٹروں میں رہنے والے لوگ ایک دوسرے سے اس طرح جُڑے تھے جیسے ایک خاندان کے لوگ ۔ یہ انیس سو ستر اور اسی دہائی کا دور تھا، محلے کے تقریباً پچاس گھروں میں صرف چار گھر ایسے تھے جہاں ٹی وی ہوتا تھا لہٰذا محلے کے تمام بچے ہر شام ٹی وی دیکھنے ان چار گھروں میں سے کسی گھر میں جا دھمکتے۔ پی ٹی وی واحد چینل تھا اور ہر روزرات آٹھ بجے سے نو بجے کے درمیان کوئی نہ کوئی ڈراما نشر ہوتا تھا۔ میں اورتنویر بھائی یہ ڈرامے پابندی سے دیکھتے تھے، گھر والوں کے منع کرنے کے باوجود ہم دونوں کسی نہ کسی بہانے ایک گھنٹے کا ڈراما دیکھنے ان چار گھروں میں سے کسی بھی گھر میں چلے جاتے۔  محلے سب بچے زمین پر بیٹھ کر ٹی وی دیکھتے تھے۔ اس زمانے میں لوگوں کے دل کشادہ ہوا کرتے تھے اس لی لیے ٹی وی والے گھروں نے بچوں کے اس طرح جمع ہونے پر کبھی اعتراض نہیں کیا۔ ہم اس طرح ان کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتے جیسے ان کے گھر میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھنا ہمارا حق ہے۔ نوبجے ڈرامہ ختم ہونے پر ان گھروں سے بچوں کے ریوڑ اس طرح باہر نکلتے جیسے کسی سینما گھر میں فلم شو ختم ہونے پر لوگ باہر آتے ہیں۔ راستے میں اس دن کے ڈرامے کے کرداروں پر تبصرے ہوتے اور اگلی قسط پر خیال کے گھوڑے دوڑائے جاتے۔ مثلاً: ”یار مجھے تو لگتا ہے نوشے کی ماں کو پتہ چل جائے گا“، دوسرا کہتا ”نہیں یار! تم دیکھ لینا نانا کی جان ضرور کوئی حرام پائی کرے گا۔ کسی کی آواز آتی”لگتا ہے اگلی قسط میں قمرو
اورشمع کی منگنی ہوجائے گی“۔ اس طرح کے تبصروں میں باقی رات کٹ جاتی اور اگلے شام آٹھ بجے کسی اور ڈرامے یا ڈارمے کی اگلی قسط کا انتظار رہتا۔

گھر کا کھانا پسند نہ آتا تو اپنے حصے کا سالن پڑوس کے گھروالوں سے بدلوا کر لے آنا کیماڑی جیسے محلوں میں زندگی کا حصہ رہا ہے۔ ان غریب بستیوں کے چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہنے والے انسان بڑے دل کے مالک تھے۔ ہماری دال کے بدلے اپنے گھر سے گوشت کا سالن دینے میں انہیں خوشی محسوس ہوتی تھی۔ کبھی کبھار ہمارے گھر میں مرغی کا شوربے والا سالن بنتا تو اس دن امی سب سے پہلے ران کی بوٹی والے سالن کے پیالے اڑوس پڑوس میں بھیجتی اور ہمارے گھروالوں کے لیے صرف چھوٹی موٹی بوٹیاں بچتیں۔ مرغی کے بدن کا کوئی حصہ بے کار نہیں تھا۔ حتیٰ کہ امی اس کے پنجے تک صاف کر کے مزیدارسوپ بنا دیتی تھیں۔ کلیجی، پوٹا بھی بہت عزت اورپیار کے ساتھ کھایا جاتا تھا۔ انتہائی غربت کے باوجود ان لوگوں نے باہمی رشتوں کو مضبوط کر کے غربت کو شکست دی اور وسائل سے محرومی کے باوجود ایک لاجواب عہد کوجنم دیا۔

چند برس پہلے تک جب امی جان حیات تھیں تومیں عموماً ان کے پاس بیٹھ کر گزری ہوئی زندگی کی باتیں سنتا تھا۔ وہ ایک ماہر قصہ گو تھیں۔ ایک دن میری کسی بات پر انہوں نے بتایا کہ سردیوں کی ایک رات تمہارے ابا رات کی ڈیوٹی پر جا رہے تھے، حسب معمول وہ اپنی لالٹین لیے روانہ ہوئے۔ اس رات ہلکی بارش بھی ہورہی تھی، اس لیے میں نے انہیں سوئٹر کے ساتھ ایک گرم چادر بھی دی تاکہ بندرگاہ پر سرد ہواﺅں سے محفوظ رہ سکیں۔ سویرے جب گھر آئے تو دروازہ زور زور سے بجایا۔ میں نے دوڑ کر دروازہ کھولا۔ تمہارے ابا سوئٹر اور چادر کے بغیر سردی سے کانپ رہے تھے۔ میں نے پوچھا سوئٹر اور گرم چادر کہاں چھوڑ آئے؟ ابا نے بتایا کہ راستے میں ایک بوڑھا شخص فٹ پاتھ پر سردی میں کانپ رہا تھا، میں نے سوئٹراور چادر اُسے دے دی۔ یہ سنتے ہی بے ساختہ میری آنکھیں نم ہوگئیں۔ یہ صرف میرے والدین کا ہی کردار نہیں تھا۔ غریب آبادیوں میں رہنے والے لوگ ایسے ہی مضبوط کردار کے مالک تھے۔

اس دور میں مہمان نوازی کی روایات بہت پختہ تھیں۔ کبھی دور پار سے کسی مہمان کے آنے کی اطلاع ہوتی تو امی نئے بستر اور چادریں نکالتیں، ہاتھ کی کڑھائی والے تکیے اور گاﺅ تکیے نکالے جاتے۔ مہمان کے بستر اور کمرے کو نہایت سلیقے سے سجایا جاتا۔ مرغی خرید کر محلے کے موذن صاحب کے حوالے کی جاتی۔ محلے کے سب بچے موذن صاحب کے گرد دائرے میں کھڑے ہو کر مرغی ذبح ہونے کا تماشا دیکھتے۔ مرغی کے سالن، کوفتے، پلاﺅ اور ایک میٹھی ڈش سے مہمان کی خاطر مدارت کی جاتی۔ اگر گھر میں اچھے برتن کم پڑجاتے تو اڑوس پڑوس سے نئے اور خوبصورت برتن مانگ لیے جاتے تھے۔ پڑوسی کے گھر میں کوئی اچھا کھانا تیار ہوتا تو وہ مہان والے گھر ضرور بھجواتا تاکہ پڑوس کے مہمان کی تواضع ہو سکے۔

ان محلوں میں چھوٹے چھوٹے گھروں کے درمیان دیواریں برائے نام تھیں، دیوار بجا کردوسرے گھر کی عورتوں سے گفتگو کر لیتی تھیں۔ صحن کی دیوار سے جھانک کر پڑوسی سے گفتگو کرنا عام بات تھی۔ امی اورنانی صحن میں سلائی کے دوران اپنے پڑوس کی خواتین سے گفتگو کرتی رہتی تھیں۔ ایک گھر سے دوسرے گھر میں آمدورفت کے لئے صحن کی دیوار میں چھوٹی کھڑکی ہوتی تھی۔

کیماڑی کے تقریباً ہر گھر کے صحن میں ایک درخت ضرور ہوتا تھا۔ دن کا بڑا حصہ صحن اوردرخت کے سائے تلے ہی گزرتا تھا۔ گرمیوں کی دوپہر میں درخت کا سایہ کسی نعمت سے کم نہیں تھا۔ امی اور نانی پورا پورا دن صحن میں سلائی کا کام کرتیں۔

 نانی ہماری سب سے اچھی دوست تھیں۔ ان کی قمیض میں دونوں طرف ایک ایک جیب ہوتی تھی۔ کھیلتے کودتے جب پیسوں کی ضرورت محسوس ہوتی تو نانی کی جیب میں بلاتکلف ہاتھ ڈال کر پیسے نکال لیتے

کیماڑی کے اس محلے میں کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ملازمین کی بستی تھی۔ یہ تمام گلیاں دو کمروں کے چھوٹے چھوٹے کوارٹرز پر مشتمل تیں جن کی چھتیں سیمنٹ کی چادروں کی تھیں، دونوں کمروں کے ساتھ دو صحن تھے، ایک صحن میں غسل خانہ، باورچی خانہ اور لیٹرین جب کہ دوسرے صحن میں ہر گھر میں ایک درخت ہوتا تھا۔ واحد دو منزلہ عمارت برماشیل لائن کی تھی جہاں پر برماشیل میں کام کرنے والے ملازمین رہتے تھے، عید کا چاند اسی عمارت کی بالائی منزل پر جا کردیکھا جاتا تھا۔ عید کی رات سب بچے اپنے نئے کپڑے استری کرکے دیوار پر لٹکا دیتے، تمام رات خوشی سے نیند نہیں آتی تھی، کب صبح ہوگی اورکب کپڑے پہنیں گے، چند سکوں کی عیدی سے بہت ساری خریداری کی جائے گی۔ کھلونے خریدے جائیں گے، جھولوں کی سواری کی جائے گی، پلیٹوں کی کمی کی وجہ سے مختلف کھانے پینے کی اشیا کا مل بانٹ کر کھانا بھی بچپن کی دوستی کا حصہ تھا۔ فانٹا کی ایک بوتل سے کئی دوست ایک ایک گھونٹ باری باری لیتے اس طرح چھولے چاٹ کی ایک پلیٹ میں کئی دوست باری باری ایک ایک چمچے سے چاٹ کا مزا لیتے اور میٹھے گولا گنڈے کو سب مل کر اپنی ڈیزرٹ کے طور پر استعمال کرتے تھے۔

بارش کا موسم سب سے اچھا ہوتا تھا، بارش میں نہانا اور پورا پورا دن گلیوں میں دوستوں کے ساتھ برسات میں گھومنا۔ کے پی ٹی گراﺅنڈ میں جب بارش کا پانی جمع ہوجاتا تو وہ ایک بڑا سا تالاب بن جاتا تھا۔ میں اس تالاب میں بہت نہایا، بارش ختم ہونے کے بعد بھی یہاں پر کئی دنوں تک پانی جمع رہتا تھا۔ گھر آنے پر ہماری خوب مرمت ہوتی تھی، مگر اس تالاب میں نہانے کا مزا مار کی تکلیف بھلا دیتا۔

سیمنٹ شیٹ کی چھتوں پر بارش کے گرنے کی آواز آج بھی یادآ ٓتی ہے۔ رات سوتے میں جب بارش شروع ہوتی توچھت پر بارش کے گرنے کی آواز سے سب کی آنکھ کھل جاتی، سیمنٹ کی چھت پر کئی جگہوں سے پانی ٹپکتا تھا، ٹپکے کی جگہ گھر کے برتن رکھ دیے جاتے تھے۔ برتن پانی سے بھر جاتا تو اسے خالی کرکے دوبارہ اسی جگہ رکھ دیا جاتا۔ برتن میں گرتے پانی کی ٹپ ٹپ اور برتن بھر نے کا انتظار بہت اچھا لگتا تھا۔ امی اس موسم میں ٹپکتی چھت میں مٹی کے تیل سے جلنے والے چولہوں کی بتیاں درست کرتیں اور اس ماحول میں ہمارے لیے بہت مزیدار واشلے بناتیں۔ یہ ایک خاص قسم کا کھانا ہے جو سردیوں کی بارش میں بنتا ہے، اس طرح کڑھی پکوڑے اور مکئی کے بہت سارے آٹے میں تھوڑا سا قیمہ اور سبز پیاز ڈال کر نہایت عمدہ کباب بناتی تھیں۔ آٹے میں قیمہ اور پیاز سے بنے کباب برسات کا لطف دوبالا کردیتے تھے۔ امی بہت محبت اور خلوص کے سا تھ چھوٹے سے باورچی خانے میں پورا پورا دن ہم لوگوں کے لیے کھانے بناتی رہتی تھیں، جس میں بمشکل دو بندے سما سکتے تھے اور چھت ٹپک رہی ہوتی تھی چولہا کبھی بجھ جاتا اور کبھی دھواں اگلتا ۔ میں نے خود انہیں سکون سے بیٹھے کھانا کھاتے نہیں دیکھا، وہ پکانے کے دوران یا برتنوں کی صفائی کے دوران ہمارا بچا کچا کھا کر گزارا کرلیتی تھیں ۔ جب بھی کوئی اچھی ڈش بناتیں سب کوبلا بلا کر کھلاتیں۔ پڑوس میں ضرور بھیجتیں۔ خود کبھی کھاتی اورکبھی نہیں کھا پاتی تھیں لیکن سب کوکھلا کر خوش ہوتیں۔

بچپن میں بیمار ہونے کا بھی مزا تھا۔ ہم میں سے کوئی بیمار ہوجاتا تو اس کی خوب خاطر مدارت کی جاتی۔ کھلونے دلوائے جاتے، پرہیز کے کھانوں کی وجہ سے بسکٹ کا پورا ڈبہ بیمار کے سرہانے موجود ہوتا، عام طورپر میری یا سالٹش بسکٹ کھلائے جاتے۔ مرغی کی یخنی پینے کو ملتی جوعام حالات میں صرف مہمانوں کے لیے ہی بنائی جاتی تھی۔ دوسرے بچے بیمار بچے کو حسرت سے دیکھتے کہ کمبخت مزے کر رہا ہے۔۔۔ بسکٹ کا پورا ڈبہ سرہانے رکھے۔ ڈاکٹر کے پاس لے جانے کے لئے گھوڑا گاڑی منگوائی جاتی۔ سب سے بڑی خوشی یہ کہ اسکول سے چھٹی ہو جاتی تھی۔ یہ تمام عیاشی دیکھ کر دل چاہتا تھا تمام عمر بندہ بیمار ہی پڑا رہے!

رمضان میں سحری جگانے والوں کی ٹولیاں آتی تھیں، کوئی اکیلے ڈھول بجا کر آواز لگاتا ”سائیں کالو کی آواز، رکھو روزہ پڑھو نماز“ ۔ اس خدا کے بندے کی آواز اتنی زوردار ہوتی تھی کہ سب سوتوں کو جگا دیتی تھی۔ ایک ٹولی گلی کے درمیان میں بیٹھ کر فلمی گانوں کی طرز پر رمضان کے خود ساختہ گیت گاتی تھی اس ٹولی کے گیت بہت پسند تھے۔ میں ان کی آواز پر آنکھیں ملتا اُٹھتا اور آدھی رات کو ان کے پاس جا کھڑا ہوتا، وہ آٹھ دس افراد پر مشتمل ٹولہ تھا، کوئی ڈھول بجا رہا ہوتا، کوئی ہارمونیم، کوئی دف اور کوئی بانسری۔ ایک شخص ہاتھ میں ٹارچ ہوتی جس کی روشنی میں وہ کاپی میں لکھے ہوئے گیت نہایت خوبصورت آواز میں ان سازوں کے ہمراہ گاتا۔ ان گیتوں کی آواز اتنی بلند ہوتی کہ سارا محلہ جاگ جاتا۔ پانچ دس منٹ گانے کے بعد یہ لوگ دوسری گلی میں جاتے اور اس طرح سب گلیوں میں یہ عمل دوہرایا جاتا۔ اس ٹولی کے گانے رمضان کی آمد اور رخصت کے اعتبار سے بھی بنائے جاتے تھے۔ یہ ٹولیاں ان گانوں کی سال بھر تیاری کرتی تھیں۔عید کے دن یہ ٹولیاں ہر گھر کے دروازے پر دستک دیتیں اور عیدی وصول کرتیں۔ رمضان میں سحری جگانے والوں کا یہ سلسلہ تقریباً ناپید ہوگیا ہے، کسی کے پاس گانے کا وقت ہے اور نہ سننے کا۔ ہم ترقی یافتہ ہوگئے ہیں، ترقی کرتے کرتے انسان سے روبوٹ بن گئے ہیں۔ اب روبوٹ میں احساس کہاں سے لائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).