چنتا کاہے کی، بس ایک ہی مسلمان تو مرا


(شکیل اختر)۔

بھارت کی ریاست راجستھان میں مسلم ڈیری تاجروں پر ہندو گئو رکشکوں کے بہیمانہ حملے کے مناظر ابھی تک لوگوں کے ذہن میں تازہ ہیں۔

گئو رکشک ملک کی کئی ریاستوں میں شاہراہوں اور اہم راستوں پر غیر قانونی طور پر ناکہ بندی کرتے ہیں اور مویشیوں کو لانے لے جانے والوں کو اکثر مارتے پیٹتے اور ان سے جبراً پیسے وصول کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے ملک میں ایک جگہ سے دوسری جگہ گائے کی منتقلی موت سے کھیلنے کے برابر ہے۔

ابھی الور کے حملے کی تصویر ذہن سے مٹ بھی نہیں پائی تھی کہ جمعہ کو جھارکھنڈ میں ایک 20 برس کے مسلم لڑکے کو ایک ہجوم نے مار مار کر اس لیے ہلاک کر دیا کیونکہ وہ ایک ہندو لڑکی سے پیار کرتا تھا۔

اتر پردیش میں سادھو آدتیہ ناتھ یوگی کی حکومت بننے کے بعد حکومت نے غیر قانونی ذبح خانوں کے خلاف کارروائی کرنے کے نام پر بھینس، بکرے اور مرغ کے کاروبار پر تقریـباً روک لگا دی ہے۔
ریاست میں لاکھوں لوگ گوشت کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ گوشت کا ذکر اس طرح کیا جا رہا ہے جیسے اس کا کاروبار یا اسے کھانا کوئی جرم ہو۔ اس کے باوجود کہ کئی ارب ڈالر کے اس کاروبار سے لاکھوں لوگوں کی روزی روٹی جڑی ہوئی ہے حکومت نے ابھی تک کوئی متبادل قانونی راستہ نہیں نکالا کہ یہ کاروبار بحال ہو سکے۔

بی جے پی نے جو مہم چلا رکھی تھی وہ گئو کشی کے خلاف تھی۔ شمال کی سبھی ریاستوں میں گائے کے ذبیحے پر بہت پہلے سے پابندی عائد ہے لیکن یوگی نے جو اقدامات کیے ہیں اس کا نشانہ بھینس بکرے اور مرغ کا گوشت ہے۔

گوشت اور چمڑے کی صنعت سے روایتی طور پر دلت اور مسلمان منسلک رہے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ گوشت کے خلاف ایک منظم تحریک چلاکر دلتوں بالخصوص مسلمانوں کو اقتصادی طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اس وقت ہندوستان کئی خانوں میں بٹا ہوا ہے۔ ایک طرف بی جے پی اور اس کے ہندو نطریے کے حامی ہیں جنھیں لگتا ہے کہ اب تک ملک میں ہر چیز غلط تھی اور وہ اب دور قدیم کے علوم کی بنیاد پر ملک میں ایک ثقافتی، مذہبی اور اقتصادی انقلاب لانے والے ہیں۔

کسی موثر سیاسی چیلنج کے نہ ہونے کے سبب انھیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ حکومت تاحیات قائم رہے گی اور اس کے فیصلے کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔ بی جے پی کی جیت اتنی موثر ہے کہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی اب ہندو راشٹر کے قیام کی باتیں کرنے لگے ہیں۔

دوسری طرف مسلمان ہیں جو اس وقت انتہائی خوفزدہ ہیں۔ روایتی طور پر وہ ہمیشہ بی جے پی کے خلاف رہے ہیں۔ سیاسی اعتبار سے اس وقت وہ بے سہارا ہیں، اقتصادی طور پر وہ پہلے ہی سماج کے حاشیے پر تھے اب انھیں اپنی شناخت، رہن سہن اور ثقافت سبھی کے بارے میں انجانے اندیشوں نے گھیر لیا ہے۔

تیسری جانب وہ ہندوستانی ہیں جو ملک کے بدلتے ہوئے پس منظر کو کچھ تشویش اور کچھ تجسس سے دیکھ رہے ہیں۔ فضا میں کچھ گھبراہٹ اور بے چینی بھی ہے لیکن جو بات یکساں طور پر پورے ملک میں پائی جاتی ہے وہ ہے مسلمانوں سے نفرت۔ پچھلے کچھ عرصے سے ہندوؤں میں مسلمانوں کے تئیں خاصی نفرت پیدا ہوئی ہے۔

ان نفرتوں کے بہت سے اسباب ہیں۔ ان کے لیے بہت حد تک خود مسلمان بھی ذمہ دار ہیں لیکن ان سے نفرت پیدا کرنے میں سب سے اہم کرداد ملک کی غیر بی جے پی، نام نہاد سیکولر جماعتوں نے ادا کیا ہے۔ ان جماعتوں نے مسلمانوں کو نہ صرف پس ماندگی اور غربت سے نکلنے نہیں دیا بلکہ انھیں اپنی پالیسیوں سے باقی ہندوؤں کی نظر میں دشمن بنا دیا ہے۔

یہ نفرتیں اب اتنی بڑھی ہوئی ہیں کہ بہت سے لوگ جب مسلم تاجروں پر الور جیسے ہجومی حملے کو دیکھتے ہیں تو آپس میں کہتے ہیں ’ایسا کیا ہوا بس ایک ہی مسلمان تو مرا۔ انہیں صحیح کرنا ضروری ہے۔‘

ہندوستان کی سیاست بدل رہی ہے۔ اس بدلتی ہوئی سیاست میں ابھی بہت سے رنگ سامنے آئیں گے۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ سیاست میں کوئی بھی چیز مستقل نہیں ہوتی نہ تصور مستقل ہوتے ہیں اور نہ ہی حکومتیں، صرف تبدیلی ہی ایک مستقل حقیقت ہے جسے کوئی نہیں روک سکتا۔

بشکریہ بی بی سی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp