بھٹو کے خواب…. حقیقت یا سراب….؟


ذوالفقار علی بھٹو پر دو طرح کے لوگ بات کرتے ہیں ، ایک وہ جو بغض بھٹو کے آلات سے مسلح ہوتے ہیں ،دوسرے وہ جن کی بھٹو سے عقیدت سرگودھوی پیر کے مریدوں سے بھی دو چار ہاتھ آگے ہوتی ہے۔ ڈنڈے کھا کر مرجائیں گے لیکن مجال ہے پیر صاحب کے خلاف حرف شکایت زبان پر آئے۔ شاید بہت کم لوگ ہوں گے جنہوں نے بھٹو کی شخصیت، اقدامات اور سیاسی فلسفے کا حتی الامکان حد تک غیر جانبداری سے جائزہ لیا ہو مگر سچ یہ ہے کہ ایک پاکستانی کی حیثیت سے یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ۔ بلاشبہ بھٹو ذہین و فطین شخص تھے۔ صرف 34 برس کی عمر میں وزیر خارجہ کے عہدے تک پہنچنا کسی سطحی دماغ شخص کے بس کی بات نہیں۔ کہتے ہیں بھٹو میکا ولی کو سیاسی گورو مانتے تھے جس کا پورا فلسفہ یہ ہے کہ حکمرانی کے لیے جائز اور ناجائزنام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ جب اور جو ضروری سمجھو کر گزرو ۔ چوہا پکڑنا آنا چاہیے ، بلی کالی ہے یا بھوری اس سے غرض نہیں۔ سیاست اور گرگٹ میں ایک نہیں تمام چیزیں مشترک ہوتی ہیں۔ بھٹو کو جب لگا کہ ایوب خان کی مدد کے بغیر وہ سیاست کی ایک سیڑھی نہیں چڑھ سکتے تو انہیں ’ایوبی بیعت ‘میں کوئی برائی نظر نہ آئی مگر جب انہیں محسوس ہوا کہ وہ اکیلے بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں تو فوجی آمر کا بازو جھٹکنے میں ذرا دیر نہیں لگائی ۔بھٹو کی پوری زندگی تضادات کا شکار رہی ، وہ غریبوں کو معاشی برابری دینے کی بات تو کرتے تھے لیکن جاگیرداروں اور طاقتور طبقے کا ساتھ بھی چھوڑنا انہیں گوارا نہ تھا۔ان کی بچی کھچی جماعت پر آج بھی مزاریوں، زرداریوں، مگسیوں اورطاقت ور سیدوں، چوہدریوں، جاٹوں اور قبیلوں کا قبضہ ہے۔ انہوں نے مزدوروں کے استحصال پر صنعت کاروں کی گردنیں تو دبوچ لیں لیکن چوہدریوں، زمین داروں، سرداروں اور وڈیروں کو غریبوں کے استحصال کی کھلی چھوٹ دیے رکھی جو انہیں آج تک ملی ہوئی ہے ۔

بھٹو کی نیک نیتی پر شک نہ بھی کریں تو ان کے بہت سارے اقدامات پاکستان کے لیے ایسی نیکی ثابت ہوئے جو الٹا گلے پڑ جاتی ہے۔ کبھی کبھار آپ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کیا بھٹو میں واقعی دوراندیشی ، معاملہ فہمی اور تدبر کا فقدان تھا ؟ کیونکہ وہ ’معقول‘ کے بجائے ’مقبول‘ فیصلوں کو ترجیح دیتے تھے، جس کی سب سے بڑی مثال پرائیویٹ اداورں کو سرکاری تحویل میں لینا تھا حالانکہ یہ وہ دور تھا جب ترقی یافتہ دنیا نجی اور خودمختار اداروں کے قیام کی طرف بڑھ رہی تھی ۔ بھٹو کی نیشنلائزشن پالیسی معیشت پر خود کش حملہ ثابت ہوئی اور آج تک ملکی معیشت کسی غریب کی چارپائی کی طرح کراہ رہی ہے ۔ بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کا پورا الزام بھٹو کو دینا بالکل غلط ہے۔ یہ وہ لاوا تھا جو کئی دہائیوں سے پک رہا تھا ۔ ایک نہ ایک دن اسے پھٹنا ہی تھا لیکن یہ سوال تو بنتا ہے کہ بھٹو جیسے زیرک سیاست دان کی موجودگی میں سیاسی انتشار بڑھتا رہا لیکن انہوں نے اس کے آگے بند باندھنے کی سنجیدہ کوشش کیوں نہیں کی؟ جنرل یحییٰ خان کے کئی اقدامات ایسے تھے جو مشرقی پاکستان میں عوامی غیظ و غضب کا سبب بن رہے تھے ۔ بھٹو صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ یحییٰ خان کو روکتے لیکن ان کا کردار ایک تماشائی سے زیادہ دکھائی نہیں دیتا ۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے اکثریت حاصل کی تھی، اصولی طور پرحکومت بنانے کا حق بھی عوامی لیگ کا بنتا تھا لیکن بھٹو کسی صورت مجیب الرحمان کو اقتدار سونپنے کو تیار نہ ہوئے۔ ’ادھر ہم ادھر تم‘ کا نعرہ بھٹو مخالفین کی اختراع بالکل ہو سکتا ہے لیکن اس کے باوجود بھٹوکو اتمام حجت کے طور پر سہی مجیب الرحمان کو حکومت بنانے کی دعوت دینی چاہیے تھی ۔ سوا ل یہ ہے کہ تیز و طرار، بلا کے ہوشیار بھٹو حالات کی سنگینی کا اندازہ کیوں نہ لگا سکے؟ بظاہر یہی لگتا ہے کہ ملک کے بہتر مستقبل اور قومی مفاد کی بجائے بھٹو نے عارضی سیاسی فائدے اور انا کو زیادہ اہمیت دی۔ وہ یقینا لبرل قوتوں کے نمائندہ تھے مگر انہوں نے مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی قوتوں سے ایسے کئی سمجھوتے کیے جو ان کی اپنی سیاسی فکر اور فلسفے کے بالکل برعکس تھے ۔اس کے باوجود اپنی حکومت کو وہ مذہبی طاقتوں کے عتاب سے نہ بچا پائے۔ بھٹو جمہوری حقوق اور انسانی آزادیوں کا پرچار کرتے تھے لیکن مخالفین کو ڈرانے دھمکانے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے ۔ اختلاف رائے کو جمہوری حسن تو مانتے تھے لیکن اختلاف کرنے والوں کو بعض اوقات سزا بھی بھگتنا پڑتی تھی۔جے اے رحیم سمیت بھٹو نے اپنے کئی ساتھیوں کو اختلاف کرنے پر رسوا کیا ۔ حبیب جالب جیسا شاعر جو نظریاتی اعتبار سے بھٹو کا حمایتی تھا ، اسے بھی کہنا پڑا ’لاڑکانے چلو ، ورنہ تھانے چلو۔‘ بھٹو صاحب نے سیاسی مخالفین کوکچلنے کے لیے نہ صرف ریاستی طاقت استعمال کی بلکہ پہلی بار خفیہ ایجنسیوں میں سیاسی ونگ بنائے اور فوجی سلامتی کو قومی سلامتی سے تعبیر کیا، یہ عادتیں ایسی پختہ ہوئیں کہ آج تک نہیں گئیں اور قوم کو ڈکٹیٹرشپ کی صورت میں اس کی بھاری قیمت بھی چکانا پڑی ۔ بھٹو نے الیکشن میں دھاندلی کرائی ، ریاستی مشنری کا جارحانہ استعمال کیا حالانکہ اگر وہ ایسا نہ بھی کرتے تو ان کی جیت یقینی تھی لیکن زیادہ ووٹ کا اپنا رعب ہوتا ہے، بھٹو اپنے دبدبے کے لیے کچھ بھی کرگزرتے تھے ۔ جب دھاندلی کا شور مچا تو انہوں نے اپنی غلطی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اوراپنے خلاف احتجاج کو پوری ریاستی قوت سے کچلنے کی کوشش کی۔

بھٹو کے جن اقدامات کو ان کے شان دار کارناموں سے تعبیر کیا جاتا ہے ،ایماندارانہ رائے یہ ہے کہ سوائے دوچار کے ان میں سے زیادہ ترملک کے کسی کام نہیں آئے۔ بیشتر تو ایسے تھے جنہیں تاریخ میں ’کاغذی کارناموں‘ سے زیادہ کا درجہ حاصل نہیں مگر بھٹو کے چاہنے والوں نے ان معاہدوں اورسمجھوتوں کی افادیت کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا ۔سیاسی مفادات کے لیے اس میں مبالغہ آرائی کا رنگ جتنا بھرا جاسکتا تھا بھرا گیا۔ مثلاً اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد، فرانس اور کینیڈا کے ساتھ دو ایٹمی معاہدے ، وزارت مذہبی امور کا قیام ، ہاریوں میں زمین کی تقسیم، شملہ معاہدہ، کشمیر پر دو ٹوک پالیسی، نوے ہزار فوج کی بھارتی قید سے واپسی، ہیوی مکینیکل کمپلیس، پاکستان سٹیل مل ،کراچی میں ایٹمی بجلی گھرکی تعمیر وغیرہ ۔اور یقینا بھٹو کا سب سے بڑا کارنامہ متفقہ آئین ۔ ان سب میں سے کتنے آج ملک کے کام آرہے ہیں فیصلہ آپ کریں لیکن چند ’کارہائے نمایاں‘ پر بات کرلیتے ہیں۔جب سے 73 ء کا آئین بنا ہے اس کے کوئی 73 ٹکڑے کیے گئے۔ کبھی کسی ڈکٹیٹر نے اٹھا کر طاق میں رکھ دیا تو کبھی کسی جج کے ’نظریہ ضرورت‘ نے اس کی ضرورت ہی ختم کر دی ۔ سچ پوچھیں تو یہ آئین صرف ایک ترمیم 58 ٹو بی کی مار ثابت ہوا ۔اس ایک ترمیم نے پارلیمنٹ کو دوکوڑی کا کر کے رکھ دیا۔ نوے ہزار فوجیوں کی بھارت سے رہائی کی بابت بھی سن لیں۔آج کئی دہائیوں بعد بھارتی فوجی پیٹ بھر کر کھانا نہ ملنے کی دہائیاں دے رہے ہیں۔ اندازہ کریں کہ آج سے چالیس پینتالیس سال پہلے بھارت کا کیا حال ہوگا، اوپر سے دشمن کی فوج کو کھلانا اپنے سینے پر مونگ دلنے جیسا تھا۔پاک فوج کو چھوڑنے میں ہم سے بھی زیادہ بھارتیوں کو جلدی تھی۔ سوال یہ ہے کہ بھٹو میں پھر ایسا کیا تھا کہ لوگ آج بھی’زندہ ہے بھٹو‘ کے نعرے لگاتے ہیں۔بھٹو دور کی نسل اب تک ان کا کلمہ کیوں پڑھتی ہے ؟ مجھے تو اس کی صرف ایک ہی وجہ نظر آتی ہے کہ بھٹو کو مظلوم و محکوم آنکھوں میں خواب سجانے کا فن آتا تھا ۔ وہ اندھوں کی آنکھوں میں بھی سپنوں کے جھماکے کر ڈالتا تھا ۔ وہ جو کہتا تھا لوگ آنکھ بند کرکے ایمان لے آتے تھے۔ ایک عام پتھر کو بھی پارس بنا کر بیچ ڈالنا بھٹو صاحب کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ وہ ایسا سیاسی جادوگر تھا جو نظربندی نہیں ’عقل بندی‘ کے ہنر میں بھی طاق تھا۔کہتے ہیں غریب کا ایمان بھی غریب ہوتا ہے، بھٹو پر ایمان لانے والوں میں بھی پسماندہ، غریب اور قدرے ان پڑھ طبقہ سب سے آگے تھا۔ کیونکہ انہیں یقین ہو چلا تھا کہ بھٹو ایسا ’چھو منتر‘ کرے گا کہ ایک پل میں کایا پلٹ جائے گی ، آسمان سے ہن برسنے لگے گا اور بیٹھے بٹھائے غربت کے عفریت سے جان چھٹ جائے گی لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ ایسا ممکن تھا اور نہ ایسا ہوا ۔ بھٹو نے غریبوں کی آنکھوں میں ایسے خواب پروئے کہ بھٹو خود تو مر گیا لیکن غریبوں کے خواب نہ مر سکے۔ بھٹو نے ان خوابوں میں اپنے تئیں رنگ بھرنے کی کسی حد تک کوشش بھی کی لیکن یا تو انہیں وقت کم ملا یا سیاسی ہنگامہ آرائی اور دوراندیشی کے فقدان نے ان کے خواب ’سراب‘ میں بدل ڈالے۔ملک کی اکثریت وقت کے ساتھ ساتھ خواب اور سراب میں فرق کرنا سیکھ گئی لیکن جہاں پسماندگی، غربت اور جہالت کے ڈیرے ہیں وہاں آج بھی لوگ سراب کے پیچھے بھٹک رہے ہیں ۔کراچی میں لیاری، جنوبی پنجاب کا کچھ حصہ اور اندرون سندھ کی بدحالی اسی شعوری پسماندگی کا ثبوت ہے ۔کوئی مجھ سے پوچھے کہ اگر میں بھٹو دور میں ووٹ دینے کا اہل ہوتا تو میرا انتخاب کیا ہوتا ؟ تو میرا جواب یہ ہے کہ چھت کے بغیر موسموں کے عذاب سے بچا نہیں جاسکتا۔ تن ڈھانپنے کے لیے کپڑے کی ضرورت تومرنے کے بعد بھی رہتی ہے….اور روٹی…. روٹی کے بغیر کون انسان زندہ رہ سکتا ہے؟ ہاں اتنا ضرور ہے کہ ایک سوراخ سے بار بار ڈسنے کی غلطی میں کبھی نہ دہراتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).