ابنِ صفی آج بھی اسی شان سے زندہ ہیں


شکیل عادل زادہ مدیر ”سب رنگ“ ڈائجسٹ سے جب پہلی ملاقات کرنے پہنچا تو میرے ہاتھ میں جو تھیلیاں تھیں اُن میں ابنِ صفی کی عمران سیریز کے ناول تھے۔ من میں کہیں چور تھا کہ میرا ہیرو کیا سوچے گا، میں ابنِ صفی کو پڑھتا ہوں؟ شکیل عادل زادہ نے ابنِ صفی کی شان میں قصیدہ پڑھا تو مجھے خوش گوار حیرت ہوئی۔ اُن کا کہا یہ جملہ مجھے ہو بہو یاد ہے، ”ابنِ صفی نے اردو زبان کی بہت خدمت کی۔ “ انھی کے بقول ابنِ صفی کو اردو ادب میں وہ مقام حاصل نہ ہوا جس کے وہ حق دار ہیں۔ ”سب رنگ“ بھی ویسا ہی جریدہ تھا جسے ”ادبی“ نہ تسلیم کیا گیا۔ ہمارے یہاں ”ادب“ وہی مانا جاتا ہے، جو اُن جریدوں میں چھپے جن کے سرورق پر ”ادبی جریدہ“ لکھا ہو؛ اسی طرح وہ فلم جو بوریت کا خزانہ ہو، اُسے آرٹ مووی کا نام دیا جاتا ہے۔ گویا جو فن مالی آسودگی عطا کرے وہ ادب نہیں، آرٹ نہیں۔ خیر یہ الگ بحث ہے۔

زیادہ پرانی بات نہیں ہے، کل ہی کی بات ہے؛ میں آٹھویں جماعت میں‌ تھا، تو امرتا پریتم کا ”رسیدی ٹکٹ“ پڑھ لیا۔ پھر چل سو چل! منٹو سے کرشن چندر، بیدی سے پریم چند تک کئی مصنفین کی کتابیں چاٹ ڈالیں۔ نصابی تعلیم کا حرج ہونا ہی تھا سو ہوا۔ خاندان کے کچھ بڑوں نے اعتراض کیا کہ میں فحش ادب پڑھ رہا ہوں؛ اِن بڑوں نے کبھی ڈائجسٹ بھی نہ پڑھا تھا، بس اتنا ہی جانتے تھے کہ منٹو، کرشن، عصمت، بیدی وغیرہ وغیرہ فحش لکھتے ہیں۔ خدا جانتا ہے یہ نام اور اسی طرح کے دوسرے لکھنے والوں کی کسی تحریر سے کبھی بھی جنسی تلذذ کا ذرا بھر احساس نہ ہوا۔ روز روز کتاب خریدنے کی استطاعت تو نہ تھی؛ اس لیے گرمیوں کی چھٹیاں راول پنڈی کنٹونمنٹ پبلک لائبریری میں بسر ہونے لگیں؛ وہاں بزرگ عزیز ملک ہوا کرتے تھے؛ اُن سے جا پوچھا کہ بتائیے جو ادب میں پڑھ رہا ہوں وہ فحش ادب ہے؟ اُنھوں نے کہا، لوگوں کی باتوں کی پروا نہ کروں۔ گزارش کی کہ اردو ادب کی حمایت میں کچھ تحریر کر دیجیے، جسے دکھا کر معترضین کا منہ بند کیا جا سکے۔ اُنھوں نے کمال مہربانی کا مظاہرہ کیا، کسی روز وہ تحریر یہاں پیش کروں گا۔

اس ”فحش ادب“ کو پڑھنے کے بعد یا اس کے آس پاس ہی ”عمران سیریز“ سے متعارف ہوا۔ اس وقت یہ معلوم نہیں تھا کہ ابنِ صفی نے اردو کی کیا خدمت کی۔ مجھے عمران سیریز کا احمق عمران بھایا تھا؛ روشی بھی اور جولیا بھی۔ ناولوں کہانیوں کے کرداروں میں تھریسیا وہ پہلی حسینہ تھی، جس کی صحبت میں جینا، جس کی قربت میں مرنے کی تمنا جاگی۔ بہت بعد میں شکیل عادل زادہ کی ”بازی گر“ کی ”زریں“ سے محبت ہو گئی، لیکن میرے لیے اپنی پہلی محبت تھریسیا کو بھلانا مشکل تھا۔ آپ کہیں گے سبھی صنفی کردار ہیں جو مجھے اچھے لگے تو ”سنگ ہی عرف جونک“ میرا وہ پسندیدہ کردار ہے، جو ابنِ صفی کے تخلیق کردہ نہ بھولنے والے کرداروں میں سے ایک ہے۔ میں نے عمران سیریز کے تقریبا سبھی ناول پڑھے ہیں۔ آٹھ دس چھوڑ کر سبھی میرے پاس محفوظ ہیں۔

انھی دنوں ”آداب عرض“ میرے ہتھے چڑھا۔ ماہ نامہ ”آداب عرض“ میں رومانی کہانیوں کا انتخاب کیا جاتا تھا۔ نوجوانی میں ایسی کہانیاں نہایت دل چسپ لگتی ہیں خواہ کتنی غیر معیاری ہوں؛ جوانی میں اور بھی دل چسپ لیکن اب معیار کا تقاضا ہوتا ہے نیز معیار مطالعے ہی سے بڑھتا ہے؛ بڑھاپے میں کیا پڑھا جاتا ہے اس کا معلوم نہیں؛ قیاس کر سکتا ہوں کہ بڑھاپے میں کہانیاں ہی رہ جاتی ہیں۔

یہ سب احوال یوں لکھا، کہ آج اپنے بچوں کو دیکھتا ہوں تو اپنا سفر یاد آتا ہے۔ آپ مجھے کوس سکتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ اپنے بچوں کو انگلش میڈیم اسکول میں داخل کروایا ہے، کیوں کہ آج کا چلن یہی ہے۔ مطالعے کے ”جینز“ میری ماں سے مجھ میں منتقل ہوئے، اور مجھ سے ہوتے ہوئے میرے دو بڑے بچوں میں۔ وہ دونوں انگریزی ادب پڑھتے ہیں۔ میری نظر میں انگریزی ادب جس معراج پر ہے اردو ادب کبھی اس بلندی کو نہیں چھو سکا؛ پھر بھی یہ خواہش سر اُٹھاتی رہتی ہے، کہ میرے بچے اردو ادب بھی پڑھیں۔ میرا خیال ہے کہ نہال جس دھرتی پر پروان چڑھتا ہے، وہاں کے موسموں سے جڑا ہوا ہونا چاہیے، ورنہ اُس کی اُٹھان میں وہ بات نہیں پیدا ہوتی جو ہونی چاہیے۔ اردو ادب کی اساطیری کردار عرب فارس سے مستعار ہیں، لیکن پھر بھی اس میں بہت کچھ ایسا ہے کہ مقامی ہے؛ جب کہ انگریزی ادب یہاں کا مقامی ادب نہیں بن پایا۔

اردو ادب کا یہ المیہ بھی ہے کہ کم سن بچوں کے لیے پھر کچھ دست یاب ہے، لیکن بالغ بچوں کے لیے کچھ بھی نہیں لکھا جاتا۔ یہ احوال ہمارے ٹیلے ویژن پروگراموں کا ہے، ہماری فلم انڈسٹری تو ویسے ہی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے، اس کا یہاں کیا ذکر۔ گزشتہ دنوں بچوں نے اپنے آپ کو سیل فون، لیپ ٹاپ جیسی خرافات میں الجھا لیا۔ بچے ماں باپ کے قد کو پہنچ جائیں تو اُنھیں ڈانٹتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے، کہ پلٹ کر جواب نہ دے دیں؛ چناں چہ بڑی مہارت سے اُنھیں قائل کیا کہ وہ اردو میں لکھی کہانیاں پڑھیں۔ اب چناؤ کا مسئلہ تھا کہ کہاں سے آغاز کروایا جائے تو ایسے میں ابنِ صفی میری مدد کو آئے۔ بیٹے کو ”عمران سیریز“ تھما دی۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ بڑے ذوق و شوق سے پڑھ رہا ہے۔ کسی کے لیے بھی سب سے اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ وہ مطالعے کی عادت ڈالے، خواہ کسی کتاب سے شروع کرے۔ رفتہ رفتہ اُس کا ذوق ارفع ہوتا چلا جاتا ہے۔ ابنِ صفی وہ مصنف ہیں جنھیں میری والدہ اپنے اسکول دور سے پڑھتی آئیں، میں اپنی داستان سنا ہی چکا، کہ کب ابنِ صفی کو پڑھنا شروع کیا؛ وہ احباب جو اپنے بچوں میں مطالعے کا رحجان پیدا کرنا چاہتے ہیں، انھیں مشورہ دوں گا، کہ ”عمران سیریز“ کا سہارا لیں۔ آج کا بچہ اگر ابنِ صفی کو پڑھنا چاہتا ہے، تو یہ رائے بنانے میں رتی بھر جھجک نہیں ہوتی کہ ابنِ صفی ابھی زندہ ہیں۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran