کیا مولانا پھر آ رہے ہیں


مولانا فضل الرحمن نے پھر ایک بڑا کھڑاک کیا ہے۔ پچھلے کھڑاک کی دھمک سے مولانا سیاسی میلہ لوٹنے میں کامیاب رہے تھے۔ تب بھی ان کی ٹائمنگ ایسی ہی مثالی تھی۔ تب بھی الیکشن میں سال کے لگ بھگ وقت رہتا تھا۔ دو ہزار ایک میں مولانا نے دیوبند عالمی کانفرنس کا کامیاب انعقاد کیا تھا۔ دو ہزار دو الیکشن میں مولانا وزیر اعظم بنتے بنتے رہ گئے تھے۔ جس کا دل کرتا وہ شوق سے ایم ایم اے کو ملا ملٹری الائنس سمجھتا رہے۔ مولانا نے وہ سب کیا تھا جو ان کی سیاست کو سوٹ کرتا تھا۔

دو ہزار ایک میں بھی اپریل کے مہینے میں ہی دیوبند کانفرنس کرائی گئی تھی۔ اس کانفرنس میں افغان طالبان کے ایک وفد نے شرکت کی تھی۔ ملا عمر کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا تھا۔ اسامہ بن لادن کا خیر مقدمی پیغام بھی تقریب میں تقسیم ہوتا رہا تھا۔ منگ دا اسامہ بچی والی یعنی ہم اسامہ کے بیٹے والی نظم بھی دل گرمانے کو پڑھی جاتی رہی تھی۔ یہ سب حالات دیکھ کر دیوبند سے آئے ہوئے مولانا اسد مدنی نے اجتماع میں خود کو دعا کرانے تک ہی محدود رکھا تھا۔

مولانا نے خود اقوام متحدہ کو امریکہ کو بڑے دل بڑے جذبے سے افغانستان کی صورتحال پر کھری کھری سنائی تھیں۔ تب اس دیوبند کانفرنس کے بعد پاکستان میں موجود ہر قسم کا مولوی اور ہر قسم کی مذہبی جماعت مولانا نے اپنے پیچھے لگا لی تھی۔ ایم ایم اے بنا کر ایسی ایسی سیٹوں سے الیکشن جیت کر دکھایا تھا کہ جیتنے والے بھی حیران رہ گئے تھے۔ ہمارے اپنے ارباب صاحب نے کہہ کر مولانا سے اپنی مرضی کا امیدوار حاصل کیا تھا۔ اس مرضی کے امیدوار نے پھر ارباب صاحب کے وارث ارباب عالمگیر کو ہزاروں ووٹوں سے شکست دی تھی، یہ کہانی پھر کبھی۔ دیوبند عالمی کانفرنس تارو جبہ میں ہوئی تھی۔ تارو جبہ کے بارے میں ایک پشتو کہاوت بھی ہے کہ جہان کو تب پتہ لگے گا جب تاروجبہ پہنچو گے۔ مولانا نے اس کہاوت کو سچ کر دکھایا تھا۔

ازاخیل میں ہونے والا جمعیت علما کا صد سالہ یوم تاسیس ہر حوالے سے کامیاب رہا ہے۔ یہ بات نوٹ کریں کہ یوم تاسیس جمعیت علما کا منایا گیا۔ اس کو جمعیت علما ہند یا جمعیت علما اسلام پاکستان کا نام نہیں دیا گیا۔ اس نام سے اجتماع کرنے کی وجہ یہ بتانا تھا کہ ہم ایک وسیع البنیاد وسیع الاثر ریجنل جماعت ہیں۔ یوم تاسیس کے شرکا کی تعداد دیوبند عالمی کانفرنس کے شرکا سے کم از کم تین گنا زیادہ رہی ہے۔ اس اجتماع میں امام کعبہ کے آنے کو بھی بڑی کامیابی سے مارکیٹ کیا گیا تھا۔ دیوبند بھارت سے مولانا محمود مدنی سیکرٹری جنرل جمعیت علما ہند اور ابو القاسم نعمانی مہتمم دیوبند کی قیادت میں ایک وفد نے شرکت کی۔ مولانا ارشد مدنی صدر جمعیت علما ہند نے ٹیلی فونک خطاب بھی کیا۔

مولانا سمیع الحق عمران خان اور ان کی سیاسی جماعتوں کو چھوڑ کر پاکستان کی تمام اہم جماعتوں کے نمائیندہ وفود نے اس اجتماع میں شرکت کی۔ سفارتی نمائیندوں کو دعوت دی گئی تھی۔ پاکستان میں موجود اقلیتوں کو وفود نے شرکت کی اور خطاب بھی کیا۔ اہم بات فقہ جعفریہ کے نمائندوں اور اہل سنت الجماعت کے وفود کی شرکت بھی تھی۔ مولانا کا کہا گیا ایک جملہ بہت کچھ واضح کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں ان کی جماعت کو کسی فرقہ کا نمائندہ نہ سمجھا جائے وہ تمام مسلماںوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ جے یو آئی میں بشپ آف پاکستان تو شامل ہو ہی چکے ہیں۔ مولانا نے عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ اہل تشیع سے بھی کسی فرد کو اپنی جماعت کے ٹکٹ پر اسمبلی پہنچا کر خوشی محسوس کریں گے۔

مولانا ایک سیاستدان ہیں حالات کو سمجھنے والے شاید پاکستان کے سب سے ہوشیار سیاستدان۔ مولانا نے جب دیوبند عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ ایک بہت بڑی سرگرمی کی تو نتیجے میں ایم ایم اے بنا لی۔ مذہبی جذبات کی لہر کو بروقت محسوس کیا اسے متحرک کیا ایک قابل ذکر کامیابی حاصل کی۔ اس کامیابی حاصل کرنے کے بعد مولانا نے دلچسپ اقدامات کیے۔ انہوں نے کسی عالم دین کی بجائے ایک خان اکرم درانی کو وزیر اعلی سرحد ( کے پی کے) بنا دیا۔ اکرم درانی کی تب داڑھی تک نہ تھی۔

مولانا نے واضح پیغام دیا کہ ہم سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہم ملا کو نہیں خان کو لائے ہیں۔ جو ہمارے نہیں تمھارے جیسا ہے۔ ایک پیغام سیاسی کارکنوں کو دیا کہ دیکھو ہم وفا کی قدر کرتے ہیں۔ اس کو وزیر اعلی بنا دیا جو ہمارا اکلوتا ممبر اسمبلی ہوا کرتا تھا۔ اکرم درانی سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے سیاستدان ہیں۔ مولانا نے انہیں عہدے سے نوازتے وقت کوئی خدشہ نہیں پالا۔ اکرم درانی نے بھی مولانا کی مرضی کے وقت پر اسمبلی توڑ کر اپنا انتخاب درست ثابت کیا۔ پاکستانی سیاست میں یہ ایک نئی بات تھی کہ جہاں لیڈر شپ اپنے ہی ساتھیوں سے خدشات کا شکار رہتی ہے کہ ان سے زیادہ مقبول نہ ہو جائیں۔

مولانا کی حکومت کا ابتدائی تاثر سفارتی حلقوں میں کافی اچھا بنتا جا رہا تھا۔ جماعت اسلامی کے ایک حلقے میں سوکن والےجذبات در آئے۔ قاضی حسین احمد کے ڈنڈے مار کی شہرت رکھنے والے صابر حسین اعوان ایم این اے کی قیادت میں کارکنوں نے پشاور میں اشتہاری سائین بورڈ توڑ دیے۔ ان سائین بورڈوں پر موجود خاتون چہروں پر کالک مل دی اور ساتھ ہی مولانا کی ابھرتی ہوئی سیاست کو بھی بریک لگا دی۔

مولانا اب پھر سرگرم ہوئے ہیں۔ بہت بروقت ہوئے ہیں تو کچھ سوچ کر ہی ہوئے ہوں گے۔ حالیہ اجتماع مولانا کے سیاسی عزائم کی خبر دیتا ہے۔ یہ تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ وہ اپنی سیاسی بیس کو وسیع کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ ٹارگٹ کیا ہے حاصل کیا کریں گے جو سوچیں گے اس میں سے کتنا کر پائیں گے۔ یہ سب جاننے کے لیے مولانا کی طاقت کو ایک نظر دیکھنا ضروری ہے۔ یہ طاقت جاننی ہے تو آپ دیوبندی مدارس کو ایک نظر دیکھ لیں کہ یہ کہاں پر ہیں۔ ساؤتھ پنجاب اندرون سندھ بلوچستان ہر اس جگہ جہاں پکی سیٹوں والے پیروں وڈیروں اور سرداروں کا زور ہے۔

مولانا عبدالغفور حیدری اس سیٹ پر سرداروں کے مدمقابل اترتے ہیں جو سرداروں کے سردار خان آف قلات کی آبائی سیٹ ہے۔ کبھی جیت جاتے ہیں اکثر ہار جاتے ہیں لیکن آسانی سے نہیں ہارتے ہیں۔ جے یو آئی دیوبند فکر کی نمائندہ سیاسی جماعت ہے۔ دیوبندی جہادیوں کو ہم جانتے ہیں دیوبندی تبلیغیوں کو ہم نظر انداز کرتے ہیں۔ جو لوگوں کے ساتھ مستقل طور پر رابطے میں رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں عام لوگوں میں چلتے پھرتے مل جاتے ہیں انہی جیسے ہیں۔

جے یو آئی کے پاس نیک نام علما کی کوئی کمی نہیں۔ ایسے علما کو جب یہ الیکشن میں اتارتے ہیں تو خان حضرات الیکشن ہار جاتے ہیں۔ مولانا اپنی طاقت جانتے ہیں یہ پکی سیٹوں والے سرداروں پیروں کو سندھ پنجاب میں چیلنج نہیں کرتے۔ شاید ابھی ہمارا سماج جس دھاگے سے جڑ کر چل رہا اسے توڑنا نہیں چاہتے۔ لیکن مولانا جیسا ہوشیار سیاستدان یوم تاسیس جیسی اتنی بڑی ایکسرسائز بے مقصد نہیں کرتا۔ نہ اس کے فوائد کو ضائع ہونے دے گا۔

اجتماع سے فارغ ہو کر جے یو آئی کے پرجوش کارکنان کی سب سے بڑی تعداد انڈس ہائی وے کی جانب سے واپس گئی ہے۔ کے پی کے جنوبی اضلاع بلوچستان جنوبی پنجاب اندرون سندھ یہ راستہ انہی اطراف کو جاتا ہے۔ چھوڑیں ساری باتیں آصف زرداری آج کل تخت لاہور فتح کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ میڈیا بھی ان کی بتائی اسی بتی کے پیچھے لگا ہوا ہے۔ اسی پر بات ہو رہی ہے کہ وہ ایسا کر سکیں گے یا بالکل نہیں کر سکیں گے۔

آصف زرداری اس وقت ایک زیادہ آسان سیاسی ہدف کے حصول میں سرگرم ہیں۔ وہ بلوچستان میں اگلی حکومت بنانا چاہ رہے ہیں۔ بلوچستان آنے والے وقت میں پاکستان کی اہم ترین صوبائی حکومت ہوا کرے گا۔ اسی بلوچستان میں مولانا بھی اہم ہیں وہاں وہ اس قابل ہیں کہ وہاں کی سیاست کو اپنے گرد گھماتے رہیں۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi