مسلم تاریخ میں فکری و سیاسی اختلاف کی روایت


آج جب مسلمانوں میں فکری اختلاف کو برداشت نہیں کیا جارہا تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں اپنے مسلکی، فکری یا سیاسی مخالف پر ایسا الزام لگانا ایک روایت رہی ہے۔ بنو عباس دور میں ایک فرقہ زندقہ کے نام سے حکومت نے گھڑ لیا تھا اور اپنے سیاسی مخالفین کو اس فرقے سے جوڑ دیتے تھے اس سلسلے میں کسی کا لحاظ نہیں کی جاتا تھا۔ ہر آزاد منش شخص پر زندیق کا الزام لگا دیا جاتا تھا۔ اگرچہ بنو امیہ کے زمانے میں یزید بن ولید بن عبدالمالک کے استاد عبدالصمد بن عبد العلی پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ زندیق ہے۔ عباسیوں کے دور میں اس کا استعمال بڑھ گیا۔ خلافت بنو عباس میں اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے اور مارنے کے لئے، اس طریقے کو استمال کیا۔ ایسے مخالفین جو وسیع المشرب اور آزاد فکری کا درس دیتے ہوں ان پر یہ تہمت آسانی سے لگ سکتی تھی۔ یہ سلسلہ جو بنو عباس نے اپنے سیاسی مخالفین کے لئے شروع کیا تھا عربوں نے ایرانی النسل اشرافیہ کا زور توڑنے اور اسے دبانے کے لئے استعمال کیا، اس سے عامتہ الناس تک یہ رواج پھیل گیا کہ کسی بھی مخالف پر زندقہ کا الزام عائد کر کے اسے سزا دلائی جائے۔

ضحی الاسلام میں مصر کے استاذ احمد امین مصری نے لکھا ہے، منصور کے دور میں اپنے جانشین محمد بن ابو العباس اور اس کے دوستوں کے بارے زندیق کا لفظ استعمال کیا گیا۔ اس کا مقصد ابو العباس کے بیٹے اور اس کے ساتھیوں کے خلاف نفرت پھیلانا تھا اور اپنے بیٹے مہدی کو ولی عہد کے طور پر تیار کرنا تھا۔ محمد بن ابو العباس اور اس کے ساتھی عیاش طبع لوگ تھے ان کی عیاشیوں کی وجہ سے ان کو زندیق کہا گیا۔ مگر منصور کے بعد سیاسی اور فکری مخالفین کے لئے زنادقہ کا لفظ استعمال ہونے لگ گیا۔ اس سلسلے کی ابتدا مہدی کے دور میں ہوئی۔ اس کے دور میں ایک نیا منصب تشکیل دیا گیا جس کا نام ہی صاحب زنادقہ رکھا گیا۔ اس کا کام ہی یہ تھا کہ وہ عباسی سلطنت کے مختلف علاقوں سے ان کے سیاسی اور فکری مخالفین کو ڈھونڈے اور ان کو سخت سے سخت سزا دے۔ یہ زنادقہ کی بیخ کنی کے نام پر کارروائیاں ہوتیں تھیں۔ جن اولین افراد کو زندقہ کے گروہ میں شامل ہونے کی بناء پر سزا دی گئی ان میں عمر بن عبدلاالعزیز کے پوتے آدم بھی تھے وہ ایک مقبول شاعر تھے جن کی شاعری عوام میں بہت مقبول تھی کسی اموی کی مقبولیت عباسیوں کو گوارا نہ تھی چنانچہ ان پر دو الزام میں مقدمہ چلا کہ وہ شراب پیتے ہیں اور دوسرا یہ کہ وہ ایسی شاعری کرتے ہیں جس سے دین سے انحراف کا شبہ ہوتا ہے۔ ان کی شاعری میں شراب کی تعریف اور بے راہ وری کی تعلیم ملتی ہے۔ آدم نے جواب دیا کہ وہ نبیذ پیتا ہے جو عباسی حکومت کے اکثر عمائدین پیتے ہیں اور جسے اس دور میں حرام نہیں سمجھا جاتا۔ دوسرے الزام کا یہ جواب دیا کہ وہ شاعر ہے اور شاعرانہ بات پر کسی کا محاسبہ نہیں ہوتا بلکہ اسے شاعرانہ کیفیت سمجھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ انھوں نے اس سے سختی سے انکار کیا کہ ان کا تعلق زندقہ نام کے کسی فرقے یا گروہ سے ہے۔ مگر ان کے جواب کو تسلی بخش نہیں تسلیم کیا گیا بلکہ ان کو تین سو کوڑوں کی سزا دی گئی اور ان کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے عقائد سے توبہ کرے اور شاعری سے باز آئیں۔

ایسے لوگوں کو بھی زنادقہ میں شمار کیا جاتا تھا جو اسلام کی رائج تعبیر سے اختلاف کرتے تھے۔ عباسیوں کو اپنے شیعہ مخالفین کی مخالفت کا سخت سامنا تھا۔ امام موسی کاظم کو قید میں ڈالنے کے باوجود اور اسماعیلی امام کے روپوش ہونے کی وجہ سے عباسی سخت پریشان رہتے تھے اور اپنے مخالفین کے لئے زندیق کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ ان پر زرتشتی، مانوی اور مرذک کے اثرات تلاش کرتے تھے۔ اسمعیلی اپنے آپ کو روپوشی میں رکھتے تھے اور اپنے عقائد کا اقرار نہیں کرتے تھے۔ عباسیوں اور ان کے علما کے لئے مشکل تھا کہ کسی کو اسماعیلی قرار دے کر سزا دیں کیونکہ وہ اقرار نہیں کرتے تھے اس لئے وہ اپنے کسی بھی مخالف یا ناپسندیدہ شخص کو زندیق کہہ کر سزا دیتے تھے۔

مہدی نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی تھی کہ وہ زنادقہ سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کو معاف نہ کرے۔ کبھی کبھی زنادقہ کے نام پر غیر عربی لوگوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا۔ اور ایرانی النسل لوگوں کی خاص شامت آتی۔ ان کے ایسے اکابرین کو نشانہ بنایا جاتا جو عباسیوں کو اپنے موافق معلوم نہ ہوتے تھے۔ علی بن یقطین کو اس کے ایک شعر کی وجہ سے قتل کیا گیا جو اس نے حج کے موقع پر پڑھا تھا۔

عباسی خلفا کو مانی سے عقیدت گوارا نہیں تھی۔ مامون الرشید اور بعض دوسرے خلفا تو مانی کا پتلا بنا کر رکھتے تھے اور جس ایرانی النسل شخص کے بارے انھیں گمان ہوتا کہ وہ زندیق ہے اسے یہ کہتے تھے کہ تم مسلمان ہو۔ وہ اقرار کرتا تو اسے کہتے کہ مانی کے پتلے پت تھوکو، اگر وہ ایسا کرنے سے انکار کرتا تو اسے زندیق قرار دے کو سخت سزا دیتے۔ مانی کے اقوال کا حوالہ بھی ایک اسلام دشمن فعل سمجھا جاتا تھا۔

 اس سلسلے میں خلیفہ المعتصم کے دور میں ایک مشہور مقدمے کے بارے ضحی الاسلام میں مصر کے استاذ احمد امین مصری نے لکھا ہے۔ یہ المعتصم کے چیف آف سٹاف افشین کا مقدمہ ہے۔ افشین کے بارے اصل بات یہ تھی کہ خلیفہ اس کی بڑھتی ہوئی طاقت اور اثر و رسوخ سے خوف زدہ تھا۔ اور اسے شک تھا کہ افشین بغاوت کی تیاری کر رہا ہے۔ اس کے خلاف مقدمے کے لئے ایک کمیشن بنایا گیا جس میں محمد بن عبدالمالک، ذیات اور احمد بن ابی داؤد شامل تھے، افشین کے خلاف مندرجہ ذیل الزام عائد کئے گئے

1۔ اشروسنہ میں ایک بت خانہ تھا جس پر دو افراد نے قبضہ کیا اور اس کو مسجد میں بدل دیا۔ ایک شخص اس مسجد کا امام بن گیا اور دوسرا اس مسجد کا موذن بن گیا اور وہاں نماز شروع ہوگئی، افشیں نے اس مسجد کو بند کرا دیا اور اس کو دوبارہ بت خانہ بنا دیا، امام اور موذن کو کوڑوں کی سزا دی۔

افشین کا جواب:

افشین نے کہا کہ اس علاقے کی فتح سے پہلے وہاں کے لوگوں کو مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی تھی اور یہ کہا گیا تھا کہ ان لوگوں کے عبادت خانوں کی حفاظت کی جائے گی، ان دونوں نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی اس لئے ان کو سزا دی گئی۔

2۔ دوسرا الزام یہ تھا کہ افشین کی لائبریری سے ایک کتاب ملی ہے۔ اس کتاب پر سونے چاندی کی تاروں کا بنا ہوا غلاف ہے اور اس کتاب میں کفریہ باتیں درج ہیں

افشیں کا جواب

افشیں نے کہا کہ یہ کتاب مجھے ورثے میں ملی ہے یہ کتاب ایران کے رسوم اور رواج پر مشتمل ہے یہ کتاب ایران کے بہت سے لوگوں کے پاس موجود ہے اس پر سونے چاندی کی تاروں کا غلاف پہلے سے موجود تھا اور اس کو اتارنے کی کوئی وجہ نہیں سمجھی گئی اسے صرف ایک تاریخی دستاویز کے طور پر لائبریری میں رہنے دیا گیا تھا

3۔ تیسرا الزام یہ تھا کہ افشین جانور کو ذبح کرنے کی بجائے جھٹکے سے ہلاک کرتا ہے اور اس کو کھاتا ہے

افشیں کا جواب،

افشیں نے کہا کہ الزام لگانے والا اور اس کا گواہ دونوں افراد قابل اعتماد نہیں ہیں ان کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی انھوں نے مجھے ایسا کرتے کبھی دیکھا ہے انھوں نے ایک سنی سنائی بات پیش کی ہے جس کا کوئی چشم دید گواہ نہیں،

4۔ چوتھا الزام یہ تھا کہ افشیں کو جو خطوط ایرانی عوام کی طرف سے آتے ہیں اس میں درج ہوتا ہے کہ خداوند فارس کے نام اس کے بندگان میں اسے ایک بندے کی طرف سے طرف سے، یہ ایک کسری کو لکھنے کا انداز ہے جو کہ شرک ہے۔

افشیں کا جواب،

افشین نے کہا کہ یہ لوگ اس کے کہنے پر ایسا نہیں لکھتے بلکہ وہ قدیم رواج کی وجہ سے ایسا لکھتے ہیں اور اس کے لئے ممکن نہیں کہ عوام کو ایسا کرنے سے منع کر سکوں، وہ ایسی طرز تحریر کے عادی ہیں اور ان کا خیال ہے سربر آور افراد کو ایسے ہی مخاطب کرنا چاہئے۔

5۔ پانچواں الزام یہ تھا کہ تویہار خلیفہ کا ایک بڑا دشمن ہے اس کے بھائی کا اس دشمن سے رابطہ ہے۔ اس نے اس خط بھی لکھے ہیں جن میں اس نے مجوسیت کو ایک روشن دین لکھا ہے اور اس میں لکھا ہے کہ وہ مل کر اس دین کو اور ایرانی حکومت کو بحال کر سکتے ہیں۔ خلیفہ کی فوج عرب، مغربی اور ترک لوگوں پر مشتمل ہے مگر مل کر ان تمام لوگوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور ان میں موجود تضادات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

افشیں کا جواب،

افشین نے کہا کہ یہ درست ہے کہ ان کے اور تویہار کے درمیاں ایک خاندانی تعلق موجود ہے جس کی وجہ سے اس کے خاندان کے لوگ تویہار سے رابطہ رکھتے ہیں تاہم افشیں ان خطوط سے آگاہ نہیں اور وہ تو اس بات کا خواہش مند ہے کہ جہاں اس نے خلیفہ کی اتنی خدمات انجام دی ہیں تویہار کے علاقے کو بھی فتح کروں اور اسے گرفتار کے کے خلیفہ کے سامنے پیش کروں۔

6۔ چھٹا الزام یہ ہے کہ افشیں نے مسلمان ہونے کے باوجود ختنہ نہیں کروایا تھا اور وہ صرف ظاہری طور پر مسلمان ہوا تھا

افشین کا جواب

افشین نے کہا کہ اسے اس عمر میں ختنہ کروانے سے ڈر آتا تھا کہ اس سے اس کی جنسی قوت یا جان کو نقصان نہ پہنچ جائے اس کے علاوہ کسی عالم دین نے اس کی یہ رہنمائی نہیں کی تھی کہ ختنہ نہ کراونے والا دین اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔

عدالت نے افشین کے جوابات کو تسلیم نہیں کیا اور اسے زندقہ سے تعلق رکھنے کے الزام میں تا مرگ بھوکے پیاسے رہنے کی سزا دی، وہ قید میں بھوکا پیاسا مرگیا تو اس کی لاش کو سولی پر لٹکا دیا گیا اور اس کے بعد اس کے جسم کو جلا دیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).