اسلام اور جدیدیت (4)


اپنی وراثت کو جدیدیت کے ہاں گروی رکھنے سے کیا مراد ہے ؟ یہ جاننے کے لئے اچھی طرح دیکھنا ہوگا کہ جدیدیت نے انسانی تاریخ کو کن کن محاذوں پر متاثر کیا ہے۔

جدیدیت نے نہ صرف پیداواری صلاحیت بڑھائی بلکہ انسان میں آزادی کے احساس کو پوری طرح جگا دیا ہے۔ اس سے قبل ایک عام انسان کئی اداروں کا غلام تھا۔ جدید افکار کا نتیجہ یہ نکلا کہ انسان نے یہ جان لیا کہ وہ اپنے فیصلے خود کرسکتا ہے۔ و ہ خود سوچ سکتا ہے۔ صنعتی انقلاب، عام تعلیم اور جدیدیت سے قبل ایسا ممکن نہیں تھا۔ صنعتی دور سے قبل کا انسان منڈیوں، قبائل، نسلوں او ر ایسے ماورائی اداروں کا غلام تھا جو تنقید سے بالا تر تھے۔ آج کے جدید انسان کو یہ احساس ہو چلا ہے کہ وہ فاعل مختار (independent agent) اور فرد (individual)ہے۔ اگر ہم مسیحی، یہودی یا اسلامی مقدس کتب کا مطالعہ کریں تو ہمیں انسانی انفرادیت کا پیغام ان میں بھی ملتا ہے۔ مذہبی کتب میں زرعی استعارے موجودہ ہائی ٹیک نسل سے اس طرح ہمکلام نہیں ہوسکتے جیسے وہ زرعی دور کے کسان سے ہوتے تھے۔

 جدیدیت نے آزادی کے تصور کو سیکولر رنگ میں پیش کیا ہے۔ بالفاظِ دیگر آج کا انسان اپنے حقوق کو خدا سے نہیں بلکہ ریاست سے مشروط کرتا ہے۔ آپ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ’’انسانی حقوق‘‘ آپ کو خُدا نے عطا کئے ہیں اور ’’شہری حقوق ‘‘ (Civil Rights) کی پاسداری ریاست کا فرض ہے۔ مندرجہ بالا انقلابات کے دوران اس بات پر گہرا غوروفکر کیا گیا کہ انسانی اور شہری حقوق میں کس کو فوقیت حاصل ہے کیونکہ ایک عام انسان یا تو ریاست کا غلام ہے یا پھر خُدا کا۔ یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سسٹم کا کنٹرول کس کے پاس ہے۔ خُدا کے پاس یا پھر ریاست کے پاس؟

جدید انقلاب سے قبل انسانی معاشروں میں انسانوں کو رسم و رواج کے ذریعے قابو میں رکھا جاتا رہا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ علم البشریات کے ماہرین (anthropologists) نے انسانی معاشروں کی دو اقسام متعارف کروائی ہیں : 1) احساسِ ندامت کا شکار معاشرے، 2) احساس گناہ کا شکار معاشرے۔ گناہ اور ندامت لوگوں کو قابو میں رکھنے کے دو طریقہ ہائے کار تھے۔ اگر مغربی معاشروں کو دیکھا جائے تو ہم انہیں (سامی مذاہب کے زیر اثر رہنے کی بنا پر ) احساسِ گناہ میں مبتلا معاشرے کہہ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں نفسیاتی معالجین کی تعداد زیادہ ہے۔

چونکہ مسلم معاشروں پر، مغربی معاشروں کی طرح، ابراہیمی مذاہب کے گہرے اثرات ہیں اور ابراہیمی مذاہب، یہودیت، مسیحیت اور اسلام، احساسِ گناہ اور احساسِ ندامت کا ملغوبہ ہیں۔ احساسِ گناہ اور ندامت کا شکار معاشرے عام طور پر دوسراہٹ زدہ (xenophobic) ہوتے ہیں اور انسانوں کو اجنبی لوگوں کے خوف میں مبتلا کرکے قابو میں رکھتے ہیں اور ان پر حکومت کرتے ہیں۔ تینوں ابراہیمی مذاہب کے مابین جدال و قتال اور جنگوں کی یاد تازہ رکھنے کے لئے تیار کردہ قبائلی طرز کے نصاب کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ تینوں مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ماضی کے خوف کا شکار ہیں اور جدیدیت، دیگر اوہام کے ساتھ، آپ کی نگاہ حال اور مستقبل پر جما کر ماضی کے اس عفریت کو فنا کرنے کی وجہ بنتی ہے جو ہمارے حال اور مستقبل پر قابوس کی طرح مسلط ہو کر باہمی خوف کو جنم دیتا ہے۔

اپنی وراثت کو جدیدیت کے ہاں گروی رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ آج مذاہب کو جدیدیت کے چیلنج کا سامنا ہے۔ یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک فرد کے لئے جدیدیت کیا نتائج پیدا کررہی ہے۔ پہلا نتیجہ یہ ہے کہ صنعتی انقلاب کے بعد مغرب کے لوگوں نے اپنے آپ کو سکڑتے ہوئے خاندانوں کا حصہ پایا۔ بڑا خاندان قبیلہ پرستی کے رجحانات جنم دیتا تھا تاہم یہ تبدیلی لوگوں کی رضا نہیں بلکہ تاریخی حالات کا تقاضا تھی۔

 مغربی معاشروں کو ان اور ان جیسے کئی چیلنجز کا سامنا رہا ہے جن کا سامنا آج مسلمانوں کو کرنا پڑ رہا ہے۔ مسلم دنیا کو اس وقت اس چیلنج کا سامنا ہے کہ وہ ذات، شناخت اور دوسرے انسانوں کے ساتھ تعلقات کے معاملات کس طرح طے کریں۔ اگر آج آپ، مثال کے طور پر سعودی عرب یا پاکستان کے قبائلی ماحول میں موجود ہیں تو آپ دیگر قبائل کے لوگوں اور ان کی اقدار سے واقف نہیں۔ جب جدیدیت آپ کو آن چھوئے گی تو آپ اچانک محسوس کریں گے اب آپ کی ذات، شناخت اور دوسرے انسانوں سے تعلقات جیسے معاملات طے کرنے کا حتمی حق آپ کے قبیلے کے پاس نہیں رہا۔ آپ اچانک جان جائیں گے کہ اب آپ کی انسانیت قبیلے کی چاردیواری سے ماورا ہوگئی ہے اور اب آپ کو دوسرے گروہوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے مساوی حقوق کو بھی تسلیم کرنا ہے۔

جدیدیت ہماری معاشرت اور سماج کے ہر مظہر کے ساتھ ساتھ زبان کو بھی متاثر کر چکی ہے۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ آج کا لکھاری، دانشور اور حتیٰ کہ تربیت کار نئے استعارے استعمال کررہا ہے۔ اس تناظر میں جب ہم مقدس کتب میں استعمال ہونے والی زبان کو دیکھتے ہیں تو وہ واضح طور پر زرعی دور کی زبان محسوس ہوتی ہے۔ بیج، پانی اور فصلوں کے استعاروں پر مبنی زبان لیکن اس وقت ٹیکنالوجی نے استعاروں اور اشاروں کو بدل کر رکھ دیا ہے۔

 سلمان ناینگ کے مطابق نوآبادیاتی نظام کا مسلمانوں پر بدترین اثرانہیں خبطِ رفتہ (has-been syndrome) کے مرض میں مبتلا کرنا ہے۔  ایک لیکچر کے دوران ممتاز سکالر کیرن آرم سٹرانگ کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سلمان ناینگ برصغیر کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں :

’’ نو آبادیاتی نظام کے بدترین اثرات پاکستان کے مسلمانوں پر اس لئے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ اس خطے کے مسلمانوں کو خود ساختہ اور مستعار شدہ ماضی کے عشق میں مبتلا کردیا گیا ہے‘‘۔

ان کی مثال ایک زبان زدعام مصرعہ’’وہ کیا گردوں تھا جس کا ہے ایک ٹوٹا ہوا تارہ‘‘ہے جو خبطِ رفتہ کے ساتھ ساتھ احساسِ گراوٹ میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ ہمارے ہاں تو یہ کچھ ہوا ہے کہ جہاں ’’عظمتِ رفتہ ‘‘دُور دُور تک سُجھائی نہیں پڑی وہاں ہم نے عظمت کے خلا کو افسانوں سے پُر کرلیا گیا ہے۔ خبطِ رفتہ کے مہلک مرض کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارا اپنا گھڑا ہوا ماضی ہمارے سامنے بچھا ہے اور ہمارے حال و مستقبل کو گھن کی طرح کھا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments