اسلام اور جدیدیت (3)


یورپ کے برعکس مسلم دنیا میں جدیدیت اپنے ساتھ آزادی لے کر نہیں آئی۔ مسلم دنیا کی تجدید کو ہم ’’مرکوز جدیدیت ‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ کیرن آرم سٹرانگ کے بقول’’ مرکوز جدیدیت نے محروم اور پسے ہوئے طبقات کو اپنے ہی ملک میں اجنبی کردیا ہے ‘‘۔ مسلم دنیا میں جدت کے مرکوز ہونے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ یہاں جدیدیت سیاسی محکومیت اور نوآبادیاتی نظام کے ساتھ آئی۔ اس کے علاوہ مسلم دنیا نے اختراعیت اور تبدیلی (innovation) کو رد کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم دنیا اس دوران نہ کوئی حقیقی مفکر پیدا کرسکی اور نہ کوئی بہت بڑا مُوجد۔ اگر پاکستان کی مثال لیں تو ہم خود ساختہ متکلمین کو مفکر اور دانا سمجھ کر خوش ہوتے رہے۔ ہم نے اپنی ترکیب کو خاص قرار دیا لیکن اس ترکیب کو باربط اور منظم علم کی شکل نہ دے سکے۔ اس صورتِ حال میں مسلم دنیا نے جدت کا راستہ اختیار کرنا بھی چاہا تو اس وقت تک مغرب کی نقالی ناگزیر ہوچکی تھی۔ نتیجتاً مسلم دنیا میں قوتِ ایجاد کے برعکس تقلید اور نقل کا رواج پڑا جس نے یہاں جدیدیت کے امکانات کو معدوم ترکردیا۔

مسلم دنیا میں جدید رجحانات کو قبول نہ کرنے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے مغرب نے ان رجحانات کو مستعار نہیں لیا۔ بالفاظِ دیگر مغرب میں تبدیلی کا یہ عمل مغرب سے ہی شروع ہوا اور مغرب میں ہی بامِ عروج پر پہنچا۔ وہاں ان تصورات نے جان لاک سے فیکٹری کے مزدور تک کا سفر صدیوں میں طے کیا ہے۔ انسان بنیادی طور پر قدامت پسند واقع ہوا ہے۔ انسان نہ صرف تبدیلی سے خوفزدہ بلکہ الرجک ہے لیکن جب صنعتی دور نے پیداوار کی اساس کو بدل کر رکھ دیا تو اس نے انسان کی فطری قدامت پسندی کے بھی درودیوار ہلا دیے۔

ایک فرانسیسی سکالر اپنی کتاب ’’اسلام اور سرمایہ دارانہ نظام ‘‘ میں سوال پوچھتا ہے کہ جدید رجحانات نے مسلم اور چینی تہذیب کے برعکس مغرب کا رُخ ہی کیوں کیا۔ اس کی ایک وجہ وہ یہ بتاتا ہے کہ مغرب میں ریاست اور مذہب کے درمیان کشمکش صنعتی انقلاب سے کئی صدیاں قبل ہی شروع ہوچکی تھی۔ یہ سکالر صنعتی انقلاب کے علاوہ مذہب اور ریاست کے الگ ہونے کو صنعتی انقلاب اور جدیدیت کی بنیاد قرار دیتا ہے۔

مغرب کے برعکس مسلم دنیا میں مذہب اور ریاست کے مابین کشمکش کی کوئی مثال نہیں ملتی بلکہ تاریخ کے ہر دور میں فکری ٹھہراؤ، مذہبی اجاداری اور مذہب کا سیاسی استعمال دکھائی دیتا ہے۔ اس کے برعکس جسے ہم جدیدیت کہتے ہیں وہ کئی کلیدی اور متحرک انقلابات کا نتیجہ ہے۔ امریکی انقلاب، مسلم سکالر ڈاکٹر سلمان نا ینگ کے مطابق، دنیا بھر کے انسانوں کی جدوجہدِ آزادی کا ثمر ہے۔ امریکی انقلاب کو، سلمان نا ینگ کے الفاظ میں، جدیدیت کی تاریخ میں اس لئے بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے کہ جب دنیا بھر میں بادشاہوں کی حکومت تھی اس وقت امریکہ میں جمہوری نظام کی داغ بیل ڈالی گئی۔ واضح رہے کہ امریکی انقلابی مذہب سے نہیں بلکہ بادشاہت سے برسرپیکار تھے۔

امریکی انقلاب کے بعد اہم انقلاب، انقلابِ فرانس ہے جس میں بادشاہ اور چرچ دونوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی گئی۔ یہی وجہ ہے فرانس میں آج بھی ریاست کو باقی تمام اداروں سے زیادہ احترام اور فوقیت حاصل ہے۔

کلیدی نوعیت کے انقلابات کے اس سلسلے میں انقلابِ روس کو تیسرا بڑا انقلاب کہا جاسکتا ہے۔ بعض مورخین اور سکالرز اس بات پر اعتراض کرسکتے ہیں کہ انقلابِ روس کو مغربی انقلاب نہیں کہا جاسکتا لیکن اس حقیقت کا انکار ممکن نہیں کہ اس انقلاب کی جڑیں بھی مغرب میں ہی ملتی ہیں۔ اور اس بات سے انکار قطعی ممکن نہیں کہ کارل مارکس مغربی باشندہ تھا اور یہ مغربی افکار ہی ہیں جو اشتمالی نظام کو نظریاتی بنیادیں فراہم کرتے ہیں۔

مارکس کے اشتراکی نظریات کی گونج مسلم دنیا میں بھی سنائی دی۔ جیسا کہ ہم اوپر بات کر چکے ہیں کہ جدیدیت جمہوری اقدار اور روایات کو جنم دیتی ہے۔ اس بنا پر ہم اشتراکی انقلاب کو جدیدیت کی ایک شکل قرار دے سکتے ہیں کیونکہ جہاں امریکی انقلاب نے بادشاہت، انقلابِ فرانس نے بادشاہت اور مذہب دونوں کے خلاف علم ِ بغاوت بلند کیا تو انقلابِ روس نے بادشاہت اور مذہب کے علاوہ انفرادی حقِ جائیداد کو بھی چیلنج کیا۔ یہ سب وہ تصورات ہیں جنہوں نے مغرب میں جنم لیا۔ ریا ست اور مذہب کو سیاست سے الگ کرنے کی بحث نے مسلم دنیا کو متاثر کیا ہو یا نہ کیا ہو لیکن اشتراکی نظریات کی گونج مسلم دنیا میں ضرور سنائی دی ہے۔ مثال کے طور پر مصر میں جمال ناصر، لیبیا میں قذافی اور عراق میں صدام حسین نے اپنے آپ کو سوشلسٹ کہا۔

مندرجہ بالا تین انقلابات (امریکن انقلاب، انقلابِ فرانس اور انقلابِ روس ) نے طاقت اور اختیارات کی بحث اور نوعیت کا رُخ بدل کر رکھ دیا۔ بالفاظِ دیگر ان انقلابات نے وہ طریقہ کار بدل کر رکھ دیا جس کی مدد سے انسان تاریخ کے نئے تقاضوں سے ہم کلام ہورہے تھے۔ یہ سب دیکھتے ہوئے سلمان نا ینگ کہتے ہیں :

’’خواہ آپ مسیحی ہوں، یہودی یا پھر مسلمان۔ آپ نے اپنی وراثت جدیدیت کے ہاں گروی رکھ دی ہے‘‘۔(جاری ہے)

(جاری ہے)

 http://www.humsub.com.pk/60371/jamshed-iqbal-35/


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).