اسلام اور جدیدیت (2)


سولہویں صدی کے اوائل تک یورپ نئے طریقے اپنا کر اور انسانی اجتماعی غلطیوں سے سبق سیکھ کر جدید تہذیب کے لئے ایک بے نظیر معاشی بنیاد قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اب یورپ کا انحصار زراعت پر نہیں ٹیکنالوجی اور سرمایے کے نہ ختم ہونے والے چکر پر تھا۔اب اسے طوفانوں اور سیلابوں کا کوئی ڈر نہیں تھا۔ فصل سال میں ایک مرتبہ پکتی تھی تو کارخانہ چوبیس گھنٹے چلتا تھا۔ اس طرح یہ نئی معاشی بنیاد نہ صرف یورپ میں خوشحالی کا باعث بنی بلکہ اس سے یورپی معاشرو ں کو آزادی حاصل ہوئی کیونکہ اب لوگ زیادہ سے زیادہ چیزیں لوگوں کے دائرہِ اصراف میں تھیں۔

جدید معیشت کی داغ بیل پڑنے سے قبل معاشی اصول یہ تھا ’’وہ بچا کر رکھو جو آپ کے پاس موجود ہے‘‘۔ یا پھر ’’ جو کچھ آپ سیکھ چکے ہیں یا جانتے ہیں اسے بار بار دھراتے چلے جائیں ‘‘۔ اس دوران اگر کوئی منصوبہ نہایت مہنگا دکھائی دیتا تو اسے رد کردیا جاتا تھا۔ لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ اگر ایک نیا کمپیوٹر یا نیا سافٹ ویئر دفتر میں آجائے تو پورا کا پورا نظام ایک رات میں بدل سکتا ہے۔ جدید معاشروں سے قبل کوئی معاشرہ انفراسٹرکچر کو اتنی تیزی سے بدلنے کے تصور کا بھی متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ لیکن اب بنیادی تبدیلی کے اس تصور کا حقیقت میں بدلنا ہم سب کئی بار دیکھ چکے ہیں۔

سولہویں صدی میں متعارف ہونی والی جدیدیت اہم سیاسی، معاشی، معاشرتی اور نظری نتائج کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ پیداواری عمل میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی شرکت ضروری سمجھی جانے لگی تاکہ معیشت کا مسلسل پھیلاؤ اور فروغ یقینی بنایا جا سکے۔ معیشت کے فروغ کے لئے لوگوں کو گھڑیالوں یا چھاپے خانے کے معاونین یا مزدوروں کی بنیادی سطح پر شامل کیا گیا۔ تاہم یہ سب کام کرنے کے لئے، کھیتی باڑی کے برعکس، بنیادی تعلیم اور بنیادی نوعیت کا ہی سہی سائنسی اندازِ فکر ضروری تھا کیونکہ کھیتی باڑی کے برعکس مشین تعلیم اور منطقی سوچ کا تقاضا کرتی ہے۔

تعلیم جس قدر بنیادی کیوں نہ ہو۔ یہ انسانی شعور کی توسیع کا باعث بنتی ہے۔ وہ لوگ جنہیں معمولی مزدوروں کے طور پر مشین چلانے کے لئے تعلیم دی گئی تھی کچھ عرصہ بعد اپنے حقوق اور سیاسی عمل میں برابر شرکت کا مطالبہ کرنے لگے۔ جسے آج جدید جمہوریت کا نام دیا گیا ہے یہ عوامی مطالبات اور عوام مرکزی تحریکوں سے جنم لینے والا سیاسی نظام ہے۔ اس نظام کی بنیاد وہ تعلیم ہے جو بنیادی طور پر مشین چلانے اور فرمانبردار مزدور پیدا کرنے کے لئے دی گئی تھی۔ تاہم عام تعلیم سے جمہوریت کا سفرانتہائی سست رو اور تکلیف دہ رہا۔ یورپ اور امریکہ کے عوام نے موجودہ جمہوری نظام کے خواب کو حقیقت میں بدلنے میں تین صدیاں لیں۔

اس دوران یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ لوگ مذہبی کنٹرول سے بھی آزادی کے خواہش مند ہیں۔ سائنس دان، دانشوراور موجد حاصل کردہ آزادیوں کے تناسب سے زیادہ سے زیادہ زود فکر اورزرخیز ہوتے چلے گئے۔ جب کفر اور الحاد کے مہلک فتوؤں کا خوف نہ رہا تو فکر اور قوتِ ایجاد کو جلا ملی۔ اس کے علاوہ کاروباری دنیا میں مقابلہ اس قدر بڑھ گیا تھا کہ کوئی بھی اپنے سروں پر مذہب کی لٹکتی ہوئی تلوار کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ اس لئے یہ ضروری ہوگیا کہ ریاستی امور میں مذہب کی مداخلت ختم کردی جائے۔ ریاست اور مذہب کو ایک دوسرے کے کنٹرول سے آزاد کرنے کے ہمہ جہت عمل کو سیکولرازم کا نام دیا گیا۔

سولہویں صدی سے نکھر کر سامنے آنے والی جدید تہذیب دو اہم اصولوں پر کھڑی ہے۔ پہلا ستون آزادی ہے۔ آزادی سے مراد مغربی معاشروں میں حاصل سیاسی، نظریاتی، مذہبی اور معاشی خودارادیت ہے۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب میں موجودہ جدید نظام کی بنیاد آزادی اور کئی محاذوں کئے گئے اعلانات پرقائم ہے۔

یہاں پر ایک حقیقت نہایت دلچسپ معلوم ہوگی کہ مذہبی کنٹرول سے آزادی کا مطالبہ محض ریاست، دانشور، محقق، سائنس دان اور موجد نہیں کررہے تھے بلکہ مذہب بھی مرکزی کنٹرول سے آزادی چاہتا تھا۔ اس سلسلے میں مارٹن لوتھر اور کائلون کو اہم ترین مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے جنہوں نےرومن کیتھولک چرچ سے آزادی کا اعلان کیا۔ اسے ہم مذہبی نجکاری کا عمل بھی کہہ سکتے ہیں۔ مسلم دنیا میں نجکاری کے اس عمل کو صوفیانہ تحریکوں میں دیکھا جاسکتا ہے اور ان تحریکوں کے مخالف ہمیشہ مقدس مراکز رہے ہیں۔

 مغرب میں جب لوگ آزادی فکر اور معاشی آزادی کا تقاضا کررہے تھے تو اسی دوران مفکرین یہ ثابت کررہے تھے کہ آزادی کے بغیر جدید، فعال اور ترقی یافتہ معاشرے کا تصور ناممکن ہے۔ جدیدیت کا دوسرا ستون اختراع، تبدیلی اور طرزِ نو (innovation)  ہے۔ یہ وہی اختراع اور جدت پسندی ہے جسے مسلم دنیا میں قدامت پسند مذہبی عناصر ’بدعت‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔

 اختراعیت پسندی اس عہد کا نام ہے کہ ہم ہر وقت نت نئے تصورات سامنے لائیں گے جن کے بطن سے نئی ایجادات جنم لیں گی۔ جدید دنیا کے برعکس مسلم دنیا میں اختراعیت پسندی کو ’بدعت‘ اور گمراہی قرار دیا گیا جو جہنم تک لے جاتی ہے اگرچہ اسلامی فکر میں ’بدعتِ حسنہ ‘ کا تصور بھی رہا ہے۔

المختصر مسلم دنیا کے برعکس اختراع پسند جدید دنیا نے سوچا کہ وہ کہنہ مسائل کے نئے اور تازہ حل تلاش کریں گے ۔ تازہ فکر سے نئی راہیں دریافت ہونگی۔ اختراعیت پسندی اس حقیقت کا بھی اعتراف تھا کہ ’’ہر پرانا حل آج کا مسئلہ ہے ‘‘۔ تاہم جہانِ تازہ کی تلاش کا یہ عمل انتہائی کٹھن واقع ہوا۔ اختراعیت کی ڈگر اختیار کرنے اورحوصلہ افزأ نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھنے کے اس عمل کی راہ میں کئی رکاوٹیں آئیں : خوف و ہراس، فیکٹریوں اور کارخانوں میں عورتوں اور بچوں کا استحصال اور ماحولیاتی توازن کا بگاڑ۔ اس کے باوجود تجدید کاری (modernization) کا یہ عمل انتہائی حوصلہ افزأ تھا۔ اس کے ثمرات انسانی رہن سہن کو سہولیات اور آسانیوں سے روشناس کرا رہے تھے۔

(جاری ہے)

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).