اسلام اور جدیدیت (1)


فرانس میں عورتوں کے حجاب پہننے پر پابندی، ڈنمارک میں شائع ہونے والے توہین آمیز خاکے، ہالینڈ میں بننے والی فلم فتنہ۔ ان اور ان جیسے دیگر واقعات کو مغرب اور اسلام کے مابین کشیدہ تعلقات کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ تاہم اسلام ایک نظریہ ہوسکتا ہے اور اسے، دیگر مذاہب کی طرح، سیاسی نظریے کے طور پر استعمال بھی کیا جاسکتا ہے لیکن مغرب فی ذاتہ کسی نظریے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک جغرافیائی تصور ہے۔ لہٰذا منطقی آنکھ سے دیکھا جائے تو ایک جغرافیائی خطہ یا پھر اس میں بسنے والے تمام لوگ کسی مذہب یا نظریے سے برسرِ پیکار نہیں ہوسکتے۔

اگر ایسا ہے تو ہم اوپر بیان کردہ واقعات کو کس زمرے میں ڈال سکتے ہیں؟

ظاہری طور پر اسلام اور مغرب کے مابین دکھائی دینے والی کشیدگی کے معاملے پر اگر، مثال کے طور پر، معروف مستقبل شناس ایلون ٹافلر سے رائے لی جائے تو وہ اسے تاریخ کی پہلی لہر کا دوسری اور تیسری لہر سے ٹکراؤ کا نام دیں گے۔ ٹافلر کے نزدیک پہلی لہر سے زرعی اور قبائلی دوسری سے صنعتی اور تیسری لہر سے صنعتی دور کے بعد کا (post-industrial) دور ہے۔ ابھی عالمِ اسلام وقت کی دوسری لہر سے ہم قدم نہیں ہو پایا تھا کہ وقت تیسری بڑی دھارنا میں داخل ہوگیا ہے اور اس وقت اسلامی دنیا کو دو ادوار  سے کشمکش کا سامنا ہے۔ وقت کی طرح دوسری اور تیسری لہر کی واپسی ممکن نہیں۔ لہر آگے بڑھ رہی ہے اور احباب اس کا رُخ پیچھے کی طرف موڑنے کی ضد میں مبتلا ہیں۔

 ٹافلر کے بعد اگر یہی سوال رٹگرز یونیورسٹی کے شعبہ ٔ ثقافت اور سیاسی علوم کے ڈائریکٹر اور معروف سکالر بینجمن باربر سے کیا جائے تو وہ بھی اس نام نہاد ٹکراؤ کو ’’ گلوبل ازم اور قبائلی اقدار کا تصادم ‘‘قرار دیں گے۔

ان دو قدر آور شخصیات کی آرا کی روشنی میں بھی ہم متذکرہ واقعات کو اسلام اور مغرب کے مابین کشیدگی کا نام نہیں دے سکتے کیونکہ مغرب میں بھی قبائلی اقدار کے پاسدار موجود ہیں، جو سکولوں کے نصاب سے ڈارون کے نظریہ ارتقأ کو خارج کرکے تخلیقِ کائنات کے سامی تخلیقی نظریات کے فروغ کے لئے سرگرمِ عمل ہیں تو دوسری طرف مسلم دنیا میں ایسے لوگوں کی  تعداد بڑھ رہی ہے جو سیکولر اقدار کو قبول کر چکی ہے۔

قاہرہ، عمان، تہران اور حتی ٰ کہ پاکستان کے بازاروں کا مشاہدہ کریں تو آپ کو مغربی مصنوعات، موسیقی، فلمیں روایتی طرزِ زندگی سے ہم آہنگ ہوتی دکھائی دیں گی۔ مسلم ممالک میں مغربی ممالک کے سفارت خانوں کا رخ کریں تو آپ کو قطار اندر قطار ویزوں کے خواہش مند خواتین اور حضرات دکھائی دیں گے۔ مغرب کش تصورات اور نعروں کا پرچار کرنے والے مقامی مذہبی سیاسی حضرات کے بچوں کے بارے میں پوچھیں تو آپ کو نہایت فخریہ انداز میں بتایا جائے گا کہ وہ کسی اہم مغربی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

درج بالا شواہد کو سامنے رکھتے ہوئے ظاہری طور پر مغرب اور اسلام کے مابین دکھائی دینے والی کشیدگی کو سکالرز اور دانشور بجا طور پر ’’اسلام اور جدیدیت ‘‘ کے مابین ہم آہنگی کا فقدان یا تنازعہ قرار دیتے ہیں۔ مغرب نے، گذشتہ کئی صدیوں کے دوران، جدیدیت(modernity) کی روش اختیار کی ہے لیکن مسلم دنیا، کئی داخلی اور خارجی وجوہات کی بنا پر، زرعی اور قبائلی نظریہ حیات سے باہر نہیں نکل سکی۔ بظاہر اسلام اور مغرب کے مابین دکھائی دینے والا تنازعہ دراصل قبائلی اور جدید اقدار کے مابین کشمکش ہے۔اس تنازعے کو اسلام اور مغرب کے مابین تنازعے کا نام دینے والے دراصل ایسے سیاسی علمأ اور ادارے ہیں جن کا مفاد جدیدیت کی مخالفت اور کھوکھلی نعرہ بازی سے وابستہ ہے۔اس لئے ابتدأ میں بیان کئے گئے واقعات کو، جنہیں اسلام اور مغرب کے مابین دکھائی تنازعے سے تعبیر کیا جارہا ہے، سمجھنے کے لئے جدیدیت کے تصور کو درست انداز میں سمجھنا ضروری ہے۔

جدیدیت کیا ہے ؟

ہمارے ہاں، عام طورپر، جدیدیت کے ماڈرن لباس سے لے کر سائنس، فلک بوس عمارتوں، سیکولرازم، مذہب بیزار خیالات اور ’بے حیائی‘ تک تمام معنی لئے جاتے ہیں۔ جدت کا تصور ذہن میں آتے ہی جدید لباس، سائنسی آلات اوربڑی بڑی عمارتیں ہمارے تصور میں سر اٹھالیتی ہیں اور ہم گھبرا کر فوری طور پر  کہنہ تصورات کی گود میں پناہ لیتے ہیں۔ اس مضمون کا مقصد جدیدیت کے تصور سے تاریکی کی وہ چادر اتارنا ہے جس کی وجہ سے ہم نے اس تاریخی مظہر کو ہمدردی سے سمجھنے کی کوشش نہیں کی اور جس کے نتیجے میں ہماری دانش مندانہ فیصلے کرنے کی قوت سلب ہوکر رہ گئی ہے۔

سولہویں صدی کے اوائل میں یورپ کے لوگوں اور بعد ازاں امریکیوں نے ایک مختلف تہذیب کی داغ بیل ڈالی۔ یہ تہذیب اپنے تصورات اور سائنسی علوم کی وجہ سے نہیں بلکہ معاشی اساس (economic base) کی وجہ سے دیگر تہذیب سے مختلف تھی۔ ظاہری طور پر ’’معاشی اساس‘‘ کا مختلف ہونا بالکل خشک اور غیر دلچسپ فرق دکھائی دیتا ہے تاہم معاشی بنیادوں میں آنے والے اس انقلاب نے گہرے نظری، معاشرتی اور سیاسی اثرات مرتب کئے۔

دورِ جدید سے قبل تمام تہاذیب کا معاشی انحصار زرعی پیداوار پر تھا۔ ایک تہذیب اپنی ضرورت سے زیادہ غلہ اگاتی، اس کی تجارت کی مدد سے زرِ مبادلہ کماتی اور اپنی ثقافتی سرگرمیوں کو جلا بخشتی۔ تاہم زراعت پر منحصر تہذیبوں اور معاشروں کے سر پر خطرے کی گھنٹی ہر وقت بجتی رہتی۔ مثال کے طور پر کسی بھی وقت سیلاب، طوفان اور دیگر قدرتی آفات ان کی فصلوں کو تباہ کرکے موجودہ جاہ و حشمت کو عظمتِ رفتہ میں بدل دیتے اور اس طرح توسیع پسندانہ عزائم بھی مفلوج ہو کر رہ جاتے۔ جدید دور سے قبل تہذیب کی بنیادیں ریت پر کھڑی تھیں۔

جدید دور سے قبل تہذیبوں کے عروج و زوال کی بنیادی وجہ پیدوار کا ضرورت اور کھپت کے خط سے بلند ہونا یا پھر نیچے گر جانا تھا۔ رومۃ الکبریٰ کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ سلطنتِ رومہ ایک طویل مدت تک ناقابلِ تسخیر سلطنت سمجھی گئی اور اس کے بعد لڑکھڑا کر زمین بوس ہوئی۔ رومۃ الکبریٰ کی طرح تمام زرعی تہذیبیں ایک خاص حد تک نقطۂ عروج پر پہنچ کر اپنے تمام منصوبہ جات کے لئے وسائل فراہم نہ کرسکنے اور زرعی پیداوار کو ایک خاص مقام سے آگے لے جانے کی سکت نہ رکھنے کی بنا پرایسے گریں کہ پھر کبھی سر نہ اٹھا سکیں۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).