ہمارے تعلیمی ادارے اور انتہا پسندی


مجھے ایک سے زیادہ مرتبہ پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات کو انسانی حقوق پر تربیت فراہم کرنے کا موقع ملا ہے ۔ عمومی طور پر اس تین روزہ ربط و کلام میں سب سے مشکل مرحلہ انسانی حقوق کو ایک غیر اسلامی، غیر مذہبی مگر بلا امتیاز انسانیت پسند نظریہ ثابت کرنا ہوتا ہے بلکہ یہ واضح کرنا اور بھی زیادہ مشکل ہو جاتا ہے کہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی بنیاد اسلام مخالف ایجنڈے پر نہیں بلکہ انسانی وقار، آزادی اور مساوات پر ہے اور آزادی فکرو اظہار پر تو طلبا بحث کا رخ ہی دوسری طرف موڑ دیتے ہیں اور پھر ان کی غلظ فہمیاں دور کرنے میں خاصا وقت لگ جاتا ہے۔

وجہ صرف یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں غا لب آئیڈیالوجی ، غالب ڈِسکورس اور غالب نصاب اسلا میات ہی ہے۔ چاہے وہ فزکس ، کیمسٹری اور ریاضی کی تعلیم ہو، یا پھر میڈیکل ، انجینئرنگ اور بزنس کی پروفیشنل ایجوکیشن ہو، اعلیٰ و ارفع نظریہ اور بیانیہ مذہبی نظریہ اور مذہبی بیانیہ ہی رہتا ہے ۔ دراصل مذہبی فریم ورک میں طبعی علوم کی تعلیم و تشریح انتہائی رجعت پسندانہ مدرسہ جاتی روایت ہے۔ بجائے اس کے کہ ہم مدرسہ کی تعلیم کو عصری علوم کی روشنی میں ریفارم کرتے ہم نے ساری تعلیم کو مدرسہ علوم کا عکس بنا ڈالا ہے ( بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ کہ قرونِ وسطیٰ کے درس نظامی میں منطق اور سائنس بھی پڑھائے جاتے تھے اور نتیجتاً مسلم دنیا میں ابن سینا ، ابن خلدون اور جابر بن حیان جیسے سائنسدان اور مفکر بھی پیدا ہوئے ہیں، مگر موجودہ مدرسہ انتظامیہ اور مدرسین نے وہ بھی خارج کر ڈالے ہیں)۔ یہ الگ بات ہے کہ اب بھی ہر مدرسے کے بورڈ پر لکھا ہوتا ہے ’دینی و عصری تعلیم کا مرکز‘۔ حالانکہ یہ تحریر آج کل پبلک یونیورسٹیوں اور کالجز کے مین گیٹ پر لکھنی چاہیے۔

دوسرا مسئلہ تعلیم کے ذریعے تنقیدی شعور اور عقلی استدلال کی بجائے منقولات کو فوقیت دینا ہے جس سے طلبا کی تخلیقی اور فکری صلاحیت جاتی رہتی ہے اور سب سے بڑھ کر لسانی ، مذہبی ، اور ثقافتی تنوع اور متفرق انسانی اقدار کی بجائے یکسانیت پر زور دینا ہے اور پھراتنے بڑے نظریاتی خلا کو صرف غیر ترقی پسندانہ مذہبی نظریات ہی پر کرتے ہوے نظر آتے ہیں اور انٹر نیٹ کے اس دورمیں انتہا پسند تھری پیس مولوی روشن خیال لوگوں سے کہیں زیادہ سوشل میڈیا پر مستعد نظر آتے ہیں ۔

تعلیمی اداروں کا ماحول بالائے نصاب بھی متفرق اسباب و ذرائع سے تشکیل پاتا ہے جس میں اساتذہ کے ذہنی رجحانات، طلبا کے والدین اور دوستوں کے نظریات اور پھر اداروں میں ہونے والی سیاست اور تقریبات سے لے کردرو دیوار پر لکھی ہوئی تحریریں سب کچھ طلبا کے ذہنوں پر اثرانداز ہوتا ہے اور اس میں ایک اہم ترین سبب ایسا خوف و ہرا س ہے جو تعداد میں نسبتاً کم لیکن کئی گنا زیادہ متشدد طلبا تنظیموں نے پھیلا رکھا ہے۔ جماعت اسلامی اور انجمن طلبااسلام اس کی بہترین مثالیں ہیں اور آج کل سیاسی اثرورسوخ کسی بھی تنظیم کا ہو مذ ہبی الزام تراشی کا خوف بڑھتا جا رہا ہے۔ معصوم مشال خان کے بے گناہ قتل نے اس میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

ایسے تعلیمی ماحول میں نورین لغاری کا داعش جوائن کرنا ، آئی بی ایم کے سعد عزیز کی دہشت گرد نیٹ ورک میں شمولیت ، پنجاب یونیورسٹی میں جماعت اسلامی کی دنگابازی اور ولی خاں یونیورسٹی کے طلبا کی دہشت گردی ( ہر چند کہ موخر الذکر اپنی سفاکی میں بے مثال ہے) کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ جاری سلسلے کا خوفناک نتیجہ ہے۔ یہ ماحول اچانک نہیں درآیا بلکہ سالہا سال سے پنپتا رہا ہے۔ جسے اعلیٰ تعلیمی اور انتظامی بیوروکریسی اور خاص طور پر پالیسی وزراء نے اپنی اپنی مصلحتوں کے تحت ہمیشہ نظر انداز کیا ہے بلکہ بعض صورتوں میں اپنے ووٹ بینک کے لیے ایسی تنظیموں کو فروغ اور تحفظ دیا ہے ۔

بات زیادہ ہٹ کر نہیں ہوگی اگر میں اپنے ساتھ پیش آنے والا ایک چھوٹا سا واقعہ درج کروں۔ آج سے کوئی سترہ اٹھارہ سال پہلے کی بات ہے کہ مجھے علامہ اقبال میڈیکل کالج میں ایک دوست کے پاس جانے کا اتفاق ہوا ۔ رات کو اس نے اپنے ایک اور دوست سے درخواست کی کہ مہربانی کر کے تم آج رات میرے دوست کو اپنے کمرے میں سونے دو اور خود کسی اور جگہ ٹھکانہ کر لو۔ رات کو جب میں سونے لگا تومیری نظر اپنے سامنے لگی ہوئی حق نواز جھنگوی کی تصویر پر پڑی ۔ میں نے وہ تصویر اتار کر ساتھ والی میز پر ادب و احترام  سے اوندھی رکھ دی۔ صبح جب ناشتے کے لیے میرا دوست اپنے اس دوست کے ساتھ کمرے میں آیا تو اس کے دوست نے موصوف کی تصویر میز پر اوندھے منہ پڑی دیکھ کر گویا ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ اس کے نزدیک یہ بھی ایک بہت بڑی گستاخی تھی ۔ بڑ ی مشکل سے اسے کاریڈور کے اور لوگوں نے سمجھا بجھا کر چپ کرایا۔

بہر حال بات کا مقصد یہ ہے کہ ہماری سوشل سائنس کا علم تو ہے ہی دینی تعلیم کا چربہ۔ نیچرل سائنسز بھی اجتماعی ماحول ، جملہ سماجی مظاہر ، عمومی بحث مباحثہ اور معاشرے میں تعریف و تحسین کی توقع ، سب کے سب مذہب اور مذہبی عقائد کے ارد گرد گھومتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ’علم‘ صرف ایک ہی علم شمار ہوتا ہے اور وہ ہے’مذہبی علم‘ – حالانکہ دنیا میں بیسیوں علوم ہیں اور درجنوں مختلف عقائد ۔ انسانی حقوق کے نقطہ نظر سے ہر انسان کو اپنے عقائد اور نظریات کے پرچار اور عبادات کا پورا پورا حق ہے لیکن اس بنیاد پر دوسروں کے حقوق اور آزادیاں غصب کرنے یا نفرت پھیلانے کا کوئی حق نہیں ہے۔

جب تک ہم اپنے طبعی علوم کی بنیاد منطق اور عقلیت پر نہیں رکھتے اور مذ ہب کو فرد کے ذاتی اور روحانی عقائد تک محدود نہیں کرتے یہ مسئلہ آسانی سے ختم ہونے والا نہیں ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).