کیا دور غلامی ختم ہو چکا؟


ملک عزیز میں طبقاتی فرق بھیانک تیزی سے بڑھ رہا ہے، خوف آتا ہے کہ نہ جانے کب غربت کے بوجھ تلے سسکتے، بلکتے عوام کا پیمانہ صبر چھلک جائے۔ شہروں میں تمام جملہ حقوق سیٹھ و صنعتکار اور دیہات میں جاگیردار و مخدومین کے نام محفوظ ہیں۔ دیہات میں محنت کو عبادت اور شہروں میں نوکری کو پروفیشن جیسی اصطلاحات کے تمغے سجا کر20 کروڑ افراد کو ایک ایسی دوڑ کا حصہ بنا دیا گیا ہے جس میں سانس لینے کا کوئی وقفہ نہیں۔ پاکستانی ٹیکس نیٹ کی سب سے بڑی اکثریت یعنی ملازمت پیشہ افراد حکومتی سہولیات کے بجائے نااہلی کا بوجھ اٹھانے پر مجبور ہے۔ ستر سال بعد بھی ریاست بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے قابل نہیں تو حقوق کا سوال تو دور کی بات ہے۔ جمہوری دور میں ملک کی سب سے بڑی اکثریت یعنی ملازمت پیشہ افراد کیلئے آواز اٹھانے والا کوئی ادارہ موجود نہیں ہے۔ سرکاری ملازمین کی تو خیر ہے مگر نجی اداروں میں کام کرنیوالے اور کھیتوں کے مزارعین میں کوئی فرق نہیں رہا۔ روزگار کی غلامی کا طوق گردن میں، پیروں میں خوشحال خوابوں کی بیڑیوں نے زندگی کو زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔

انسان غاروں، قبائلی، سرداری، بادشاہی نظاموں سے گزرتا ہوا جب جدید دنیا تک پہنچا تو ڈھیر سارا بوجھ بھی ساتھ لایا، معاشی حوالوں سے ان ادوار کو غلام داری، جاگیرداری اور سرمایہ داری خانوں میں بانٹا جا سکتا ہے۔ انسانی تاریخ کے اس سفر میں ذاتی ملکیت، ذخیرہ اندوزی اور طبقاتی تفریق جیسی بیماریاں ہمسفر بنتی گئیں۔ زرعی سے صنعتی معاشرے کی تبدیلی نے دولت اور وسائل پر محدود اور بااثر طبقہ قابض بنا دیا۔ آج بھی سماج میں مادی ذرائع پیداوار پر قابض اقلیت، اکثریت کی محنت کا پھل کھا رہی ہے۔ آسان زبان میں اسے حکمراں طبقہ کہا جاتا ہے۔ کارل مارکس کا کہنا ہے کہ حکمراں طبقے کے افکار ہی ہر دور میں حاکم کی سوچ ہوتی ہے، گویا حکمراں طبقے کے فکر کو قانون کہا جاتا ہے۔ تو یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت قابض اقلیت قانون سازی کے ذریعے عوام کے استحصال کو مضبوط بنا رہا ہے۔ غلامی کا سلسلہ ختم نہیں ہوا بلکہ قواعد ضوابط کی تبدیلی کیساتھ یہ سفر بھی جاری ہے بس اسے پروفیشن اور عبادت جیسی مہذب اصطلاحات سے نواز دیا گیا ہے۔ سرمایہ داری نظام میں عام انسان چکی کے دو پاٹوں میں پس رہا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ قناعت کے خاتمے کیساتھ ہم خواہشات کی غلامی میں بھی مبتلا ہیں۔ خدائے بزرگ و برتر نے زندگی کیساتھ بنیادی سہولیات تو سب کو عطا کی ہیں مگر ہم اپنی ضروریات سے کہیں زیادہ پر قابض اور متصرف ہیں، گویا فساد کی بڑی جڑ وسائل کی قلت کا ایک باعث ہم خود بھی ہیں۔

یونان کا ایک فلسفی گزرا ہے دیو جانس کلبی، 232 قبل مسیح، فلسفیوں کا باوا آدم، سماجی اونچ نیچ اور بے راہ روی کے خلاف سراپا احتجاج، دن میں چراغ لیکر گھومتا تھا کوئی پوچھے تو جواب دیتا تھا کہ کھرے اور دیانتدار شخص کی تلاش میں ہوں۔ کل اثاثہ ایک چادر اور مٹی کا برتن، پھر ہاتھ کی اوک سے پانی پیا تو برتن بھی چھوڑ دیا۔ ایک بار کسی دکان پر کھڑا تھا لوگوں نے پوچھا دیوجانس ضرورت تمہیں دکان پر لے آئی، تو عظیم فلسفی نے جواب دیا نہیں میں دیکھنا چاہتا تھا کہ میں کس کس چیز کا غلام نہیں ہوں۔ ایک بار دھوپ میں بیٹھا چھڑی کی مدد سے زمین پر حساب کا کوئی مسئلہ حل کر رہا تھا، سکندر اعظم پیچھے آ کھڑا ہوا، سایہ دیکھا مگر کام میں لگا رہا، سکندر اعظم نے اپنا تعارف کروایا تب بھی نہ مڑا نہ کچھ بولا، سکندر نے کہا میں اس سلطنت کا اور تو علم کا بادشاہ، جو مانگے تجھے ملے گا، جانتے ہیں دیو جانس کلبی نے کیا فرمائش کی، سکندر سے کہا دھوپ چھوڑ دے، بادشاہ نے لاجواب ہو کر کہا اگر میں سکندر نہ ہوتا تو دیو جانس ہونے کی خواہش کرتا، دیو جانس کلبی نے جواب دیا اگر میں دیو جانس نہ ہوتا تو دیو جانس ہونے کی خواہش کرتا۔
سرمایہ داری اور اشتراکیت کی فلسفیانہ نظریاتی مباحث کو ایک طرف رکھ بھی دیں، ذرا اپنے اندر جھانکیں، ہر شخص خواہشات کی دلدل میں گلے تک دھنسا نظر آئیگا۔ پریشان، فکروں میں الجھا، نہ ختم ہونے والی خواہشات کے حصول کیلئے نہ جانے کتنوں کو کچلتا آگے بڑھ رہا ہے۔ دنیا کا ہر مذہب سادگی اور دوسروں کی امداد پر زور دیتا ہے، اسلام میں تو سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے سادہ زندگی اور خیرات پر، پھر بھی یہ سب کیوں ہے؟ ہمارے پیارے پیغمبر رسول اکرم ﷺ کی زندگی اسکا بہترین نمونہ، مگر پھر بھی سب اس عذاب میں کیوں مبتلا ہیں۔ بہت پرانی بات نہیں تیس، چالیس سے پہلے ہمارے معاشرے میں یہ بھاگ دوڑ اتنی تیز نہ تھی کہ انسان کی جان پر گزر جائے۔ 80ء کی دہائی میں خلیج ممالک جانیوالوں کی بدولت معاشرے میں مقابلے کا آغاز ہوا۔ جدید ملبوسات، الیکٹرانک سامان، بہترین رہائش اور پیٹرو ڈالر کی ریل پیل نے معاشرے کو چکا چوند کر دیا، اس کے بعد تو اسٹیٹس کی ایسی بھاگ دوڑ شروع ہوئی کہ حلال، حرام، صحیح، غلط کی تفریق ہی ختم ہو گئی۔ موقعہ مناسب جان کر حکمران یا استحصالی طبقے نے سارے اصول و ضوابط کو پامال کر ڈالا، کرپشن کے حمام میں سب بے ستر ایک دوسرے کی پیٹھ کھجانے بیٹھ گئے۔ ملکی قانون جو کبھی بھی مضبوط نہ تھا حکمراں طبقے کے گھر کی لونڈی بن گیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ دولت طبقہ اشرافیہ اور غربت عوام کی پہچان بن چکی ہے۔ حکمرانوں کو بہتی گنگا میں غوطے لگاتے دیکھ کر عوام بھی پیچھے نہ رہے، کسی نے ہاتھ دھوئے تو کسی نے منہ، سب نے حسب استطاعت گنگا جل کا فائدہ اٹھایا۔

اگرچہ سرمایہ داری نظام کے علمبردار امریکہ اور یورپ ہیں مگر عوام دوست قوانین کے باعث ملازمت پیشہ افرد کے حقوق کسی حد تک محفوظ ہیں۔ بعض ممالک میں تو پارلیمنٹرینز کو مراعات کیلئے عوام کی اجازت مطلوب ہوتی ہے۔ پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک میں صورتحال نہایت ابتر ہے، یہاں عوام روزگار کی چکی کے دو پاٹوں میں پس رہے ہیں۔ تنخواہ کم، نوکری غیر محفوظ، حقوق ناپید، اس پر ضروریات اور معیار زندگی کو برقرار رکھنا، صرف ایک بار ملنے والی زندگی کب ختم ہو جاتی ہے کچھ پتہ ہی نہیں چلتا۔ پہلے ملازمین کے حقوق کیلئے ٹریڈ یونینز کا مضبوط ادارہ موجود تھا مگر یہ بھی کچھ تو سازش اور کچھ اپنی بدعنوانیوں کے باعث نابود ہو گیا۔ اب شہر میں رہنے والا ملازم ہو یا کھیتوں میں کام کرنیوالا کسان، آجر کے رحم و کرم کا محتاج ہے۔ طبقاتی تفریق میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک طرف جائیداد کے پہاڑ، دولت کا سمندر ہے تو دوسری جانب غربت کی اندھی کھائی، جہالت کا بھیانک اندھیرا، دہشت گردی کے دیو نے اسی کھائی کے اندھیرے کی پیداوار ہیں جو آج ملک اور ہماری نسل کو فنا کرنے کے درپے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو عالمی گداگر بنانے میں سیاسی چغہ پوش جاگیرداروں، سرمایہ داروں۔ صنعتکاروں، پیر و مخدومین، جرنیل، نوکر شاہی کا کردار تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائیگا۔ لیکن پھر بھی یہ ضرور سوچیں کہ پاکستان اور نظام کی تباہی کا ذمہ دار کون ہے، استحصالی اقلیتی طبقہ یا وہ اکثریت جو ظلم کے خلاف کبھی آواز نہیں اٹھاتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).