زیدہ کا مشال، وینس کا سوداگر اور نیو یارک کا گاڈ فادر


عدالت عظمی نے پانامہ کے حوالے سے فیصلہ دے دیا ہے۔ کعبے اور کلیسا کے بالکل بیچوں بیچ لے جاکر قلم توڑدیا گیا ہے۔ اس فیصلے سے صید اور صیاد دونوں مطمئن ہیں۔ جان چلی گئی ہے مگر لواحقین سجدہ شکر بجا لارہے ہیں کہ آنکھ بچ گئی ہے۔ حلوائی سے لڈو لینے والوں کی قطار میں محمود وایاز دونوں ہی کھڑے تھے۔ اصغر گونڈوی کا شعر یاد آتا ہے

اللہ رے چشمِ یار کی معجز بیانیاں
ہر اک کو ہے گماں کہ مخاطب ہمیں رہے

فرانسیسی ناول نگار بالزاک نے کہا تھا، دولت کے ہر ذخیرے کے پیچھے جرم کی ایک داستان ہوتی ہے۔ اس جملے کو لے کر اطالوی ناول نگار ماریو پیوزو نے پورا ناول لکھ دیا تھا، جوایک مافیا ڈان کی کہانی ہے۔ اپنے شہرہ آفاق ناول گاڈ فادرکا آغاز وہ اسی جملے سے کرتا ہے۔ پانامہ کیس میں عدالت عالیہ کے فیصلے کا آغازبھی اسی جملے سے ہوتا ہے۔ گاڈ فادر کے خالق ماریو پیوزو نے کہا تھا، دستیوفسکی کا ناول “برادرزکارمازوف” میں نے نہ پڑھا ہوتا تو شاید ہی ادیب بن پاتا۔ کرائم اینڈ پنشمنٹ جیسا شہکار بھی دستیو فسکی نے ہی تخلیق کیا تھا۔ جس کا مقام ومرتبہ گاڈ فادر سے کم نہیں ہے۔ عبقریوں میں کسی کی تُلنا کسی سے بنتی تو نہیں مگر سگمنڈ فرائڈ نے کہا تھا کہ مقام ومرتبے میں دستیوفسکی شیکسپئیر سے کوئی دو قدم پر ہی ہے۔

ادب محروم معاشرے کی الجھنوں کا عکس ہوتا ہے اور قانون اس معاشرے کی بے بسی کا روزنامچہ۔ آئین و قانون الفاظ کا مجسمہ ہوتا ہے، ادب اس مجسمے کی روح سے کلام کرتا ہے۔ قانون اور ادب کا رشتہ پھول اور خوشبو کا رشتہ ہے۔ اسی لیے ادب سے بے بہرہ قانون دان خشک علمی کا بے کیف نمونہ ہوتا ہے۔ ادب سے شناسا قانون دان خوش علمی کا خوبصورت آرٹ ہوتا ہے۔ تبھی تو جسٹس لرنڈ ہینڈ نے کہا تھا، آئینی معاملات پر رائے دینے والے جج کے لیے ضروری ہے کہ وہ کارلائل، دانتے، شیکسپئیر اور ہومر کی تخلیقات سے واقف ہو۔ اور لارڈ ڈیننگ نے قانون کے طالب علموں سے کہا تھا، اگرقانون کو ذریعہ معاش بنانا ہی ہے تو کم از کم شیکسپئیر کا تعارف تو ہونا ہی چاہیئے۔ اہل قانون کو ادیبوں کا تعارف رہتا ہی ہے۔ کتاب کے بغیر کسی قانون دان کا تصور کرنا کتنا عحیب ہے۔ گاڈ فادر پڑھنے والے قانون کے طالب علموں نے دستیوفسکی کے ناول “کارمازوف برداران” اور “جرم وسزا” نہ پڑھے ہوں تو یہ حیرانی کی بات ہوگی۔ ضرور پڑھے ہوں گے اور گاہے گاہے اس کے فقرے یاد بھی آتے ہوں گے۔ کبھی چیمبر میں معاملہ کرتے ہوئے کبھی بنچ میں فیصلہ لکھتے ہوئے۔ جب ننکانہ کی ایک جیل میں قید کسی غریب شہری کو عدالت میں پیشی کی تاریخ دی جاتی ہے، اوراس تاریخ پرعین سماعت کے دوران رجسٹرار بتاتا ہے کہ ملزم دوبرس قبل جیل میں جان لیوا بیماری کے سبب گزرگیا ہے، تو دستیوفسکی کا وہ فقرہ تو ضرور یاد آتا ہوگا جس میں کہا تھا، فیصلوں میں تاخیر لوگوں کی امیدوں کو راکھ کا ڈھیر بنا دیتی ہے۔

 لارڈ ڈیننگ اور جسٹس لرنڈ، دونوں کا شیکسپئِر پہ زور دینا بے جا نہیں ہے۔ شیکسپئیر کا ہیملٹ تو نگاہ زد عام ہے، مگر گاڈ فادرمیں دلچسپی رکھنے والے قارئین کی نگاہِ ذوق کا شیکسپئیر کے ڈرامے میژر فار میژر اورمرچنٹ آف وینس سے ضرور سامنا رہا ہوگا۔ خاص طور سے وینس کا سوداگر۔ وینس کے سوداگر کی تنگدستی بڑھی تو یہودی ساہوکار سے قرضہ لے لیا۔ ساہوکار نے قرضہ دے دیا، مگر پرانی ایک رنجش کا حساب برابر کرنے کے لیے شرط یہ عائد کردی کہ بروقت ادائی نہ ہونے پر تمہارے جسم سے ایک پاونڈ گوشت کاٹ لیا جائے گا۔ مرتا کیا نہ کرتا، رضامند ہوگیا۔ بروقت ادائی نہ ہوسکی۔ مقروض سودا گر نے خود کو پیش کردیا۔ بدنیت ساہو کارنے سودا گر کے دل پہ نظریں جما لیں۔ سودا گر نے مزاحمت کی۔ نہیں، دل نہیں کاٹا جائے گا، باقی جسم حاضر ہے۔ توتکار میں کیس عدالت پہنچ گیا۔ ساہوکار نے کہا، گوشت کاٹنے کی بات ہوئی تھی، جہاں سے چاہوں میں کاٹنے کا حق رکھتا ہوں۔ ڈرامے کی ہیروئین پورشیا نے سوداگر کا مقدمہ لڑا۔ ساہوکار سے کہا، تمہیں گوشت سے مطلب ہونا چاہیئے وہ تمہیں مل رہا ہے۔ دل کاٹنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، جان چلی جائے گی۔ دل کے علاوہ جہاں سے چاہو گوشت کاٹ لو، کس نے روکا ہے۔ ساہوکار اپنی پہ اڑا ہوا تھا۔ اسے گوشت سے کہاں مطلب تھا۔ مطلب تو اسے خون پینے سے تھا۔ پورشیا نے ساہو کار کو اڑنگے پہ لے کر فیصلہ کن داو مارا۔ پورشیا نے کہا، چلو ٹھیک ہے دل کاٹنا ہے تو پھر دل ہی سہی، مگر یہ دیکھ لینا کہ تم نے گوشت کی شرط عائد کی تھی خون اس میں شامل نہیں تھا۔ کاٹ لو دل، مگر یاد رکھنا خون کا ایک قطرہ زمین پر نہ گرنے پائے۔ جتنے قطرے بہیں گے اس کا حساب ابھی کے ابھی دینا پڑے گا۔ ساہوکار کی منطق تیل ہوگئی۔

شیکسپئیرنے اس ڈرامے میں لفظیات کا گورکھ دھندہ دکھایا ہے۔ یعنی قانون کی ایسی لفظیات جو اس کی روح کے بغیر بھنی جا رہی ہیں۔ دکھایا گیا ہے کہ بدنیت طاقتور اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے منطقی قضیوں کا کیسا جال بچھاتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں احتساب کا نعرہ دراصل ساہوکار کا دیا ہوا نعرہ ہے۔ ساہوکار کو سوداگر سے کچھ پرانی رنجشیں ہیں۔ اس وقت کی رنجشیں کہ جب مل بانٹ کے کھایا کرتے تھے۔ جان جاتی ہے چلی جائے، ساہوکار کو “ادھار” کی مد میں دل ہی جلانا ہے۔ ادھار وصول کرنے سے اسے مطلب نہیں ہے۔ مطلب تو بس خون پینے سے ہے جو دل فرائی کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ساہوکار واجب الادا پیسوں کا نہیں پوچھ رہا۔ وہ پوچھ رہا ہے کہ جو دائرہ میں نے کھینچا تھا اس سے باہر کیسے نکلے؟ اب نکلے ہو تو اگلا پچھلا حساب تو دینا پڑے گا۔ پلٹ آو ورنہ پورشیا نے اگر دل کاٹنے نہ بھی دیا تو گوشت تو ادھیڑ ہی سکتے ہیں۔ شہرکے نیک نام بزرگوں کو تو پیچھے لگا ہی سکتے ہیں۔ تمہارے رفقا کو بھی بھٹکا سکتے ہیں۔ بالکل بھٹکا سکتے ہیں یہ سب ہمارے مقروض ہیں۔

ایک فیصلہ وہ ہے جو دھول بیٹھنے کے بعد تاریخ کی عدالت میں ہوگا۔ وقت کا جج اس فیصلے میں ناول گاڈ فادر کے اس حصے کا حوالہ ضرور دے گا جس میں گاڈ فادر مافیا کو چھوڑ کر ایک نئی زندگی کی شروعات کرتا ہے۔ وہ ماضی بھلا کر اپنی زندگی کی نئی تشکیل میں مگن ہوتا ہے کہ مافیا ایک دن اس پر حملہ کردیتا ہے۔ گاڈ فادر پلٹ کر کہتا ہے

“مجھے ابھی لگا ہی تھا کہ میں اب اس مافیا سے باہر آ چکا ہوں، انہوں نے مجھے واپس کھینچ لیا”

پانامہ میں کچھ نہیں رکھا۔ سیاسی جماعتوں کی نہیں، یہ اداروں کی جنگ ہے۔ یہ ادھار کے لین دین کا جھگڑا ہے جو قسطوں میں ادا ہونا ممکن ہے. مکمل ادائی مسلسل انتخابات کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ غیر مستحکم سماج میں سیاسی فیصلے عدالتوں میں نہیں ہوتے۔ یہ فیصلے انتخابات کے میدانوں میں ہوتے ہیں۔ عدالتوں میں ہو تو جائیں، مگر مشکل یہ ہے کہ جب عملی طور پر اداروں کی بالادستی کی ترتیب ہی الٹ ہو توسیاسی فیصلے ثبوت و شواہد کی بجائے صورت حال کو دیکھ کر کیے جاتے ہیں۔ ہمیں ان  سیاسی کارکنوں سے ہمدردی ہے جو سمجھتے ہیں کہ مرچنٹ آف وینس کا دل کاٹ لینے سے کرپشن کا خاتمہ ہوجائے گا۔ کرپشن کا نہیں، اس سیاسی و جمہوری سفر کا خاتمہ ہوگا جو چودہ برس میں طے ہوا ہے۔ کبھی دھیان دینے کی ضرورت ہے کہ گزشتہ دس برسوں کے تسلسل نے ہماری کتنی سیاسی تربیت کی ہے۔ انتہائی قدم سے پہلے متبادل پر ضرور بحث کرنی چاہیئے۔

پلٹ آئیں، یہاں جان پہ بنی ہے اس کی فکر کیجیے۔ جس ساہوکار نے “احتساب” جیسے نعروں کا جال بنا تھا اسی نے ہی مخالف نقطہ نظر رکھنے والے سیاسی کارکنوں پر لاگو کرنے کے لیے توہینِ مذہب کی ہنگامی دفعہ متعارف کروائی ہے۔ احتساب کے نعرے میں خیر کی بات یہ ہے کہ صالحانہ برتری کا زعم رکھنے والا گروہ عدالتوں میں تعاقب کرتا ہے۔ توہینِ مذہب والے نعرے میں مشکل یہ ہے کہ جان سولی پہ لٹک جاتی ہے۔ ایسے میں ماریو پیوزو کے ناول گاڈ فادر سے زیادہ کافکا کے ناول “دی ٹرائل” پڑھنے کی ضرورت ہے۔ دی ٹرائل میں کافکا نے قانون اور انصاف کے بیچ کا فاصلہ ماپا ہے۔ اس فاصلے کی پیمائش کو سادے لفظوں میں سمجھنا ہو تومشال خان کے والد اقبال شاعر کا وہ بیان بار بار سنیے جو انہوں نے انصاف سے متعلق کیے گئے اخبار نویس کے سوال کے جواب میں دیا۔ لحد میں اپنا خون خون جگر دفنانے والے مشر اقبال نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہا

“انصاف مل جائے تو اچھی بات ہے”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).