مولانا محمد احمد لدھیانوی کا انٹرویو: چند خیالات


میری رائے میں ہم سب کے رفقا خاص طور پر عدنان خان کاکڑ اور وسی بابا نے مدبرانہ فیصلہ کیا ہے کہ بڑھتی ہوئی انتہاپسندی اور رواداری میں کمی کے بارے میں مختلف سیاسی و مذہبی راہنماؤں سے ان کے خیالات معلوم کئے جائیں۔ اس ضمن میں سیاسی رجحان، مذہبی شناخت اور مسلک کی تفریق کو خاطر میں نہ لایا جائے۔ تفرقے کی فضا میں مختلف گروہ اپنے گروہی مفاد میں حریف گروہوں اور شخصیات کے بارے میں افراط و تفریط پر مبنی رائے تشکیل دیتے ہیں۔ براہ راست معلومات کے ذرائع کم ہوتے ہیں اور منقسم سوچ میں سہولت بھی یہی ہوتی ہے کہ وسیع البنیاد مکالمے کی بجائے اپنے ہی حلقے سے مخاطب ہوا جاتا ہے۔ پڑھنے، سننے اور دیکھنے والوں کی وسیع تر اور متنوع تصویر میں اعتدال سے بات کی جاتی ہے اور بذات خود بہت سی انتہائی آرا  کو مسترد کر دیا جاتا ہے۔ کسی نقطہ نظر سے اتفاق یا اختلاف کرنے سے پہلے اسے جاننا ضروری ہوتا ہے۔ ہمیں یہ معلوم تو ہونا چاہیے کہ ہم کس رائے کے مخالف ہیں اور کیوں؟ ہم کس نقطہ نظر کے حامی ہیں اور کیوں؟

میں نے مولانا محمد احمد لدھیانوی سے ملاقات کی روداد پڑھی۔ تاریخی حقائق سے بحث اور واقعات کی جانچ پڑتال کا یہ محل نہیں۔ مجھے اس تحریر میں سامنے آنے والے کچھ خیالات سے اتفاق ہے اور کچھ سے اختلاف۔ میں عرض کرتا ہوں۔

مولانا محمد احمد لدھیانوی کی یہ رائے نہایت مناسب اور جمہوری ہے کہ انسانوں کی بنیادی ضروریات و سہولیات فراہم کرنے میں نہ تو فرقہ واریت ہو سکتی ہے نہ اس پر کوئی اختلاف ہے۔ کسی کو فرقے کی وجہ سے ان سہولیات سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔ منتخب ارکان پارلیمنٹ کو سب شہریوں کی فلاح کے لئے کام کرنا چاہیے۔

اس میں نقطہ اختلاف یہ ہے کہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے ارکان کا حقیقی منصب قانون سازی اور پالیسی سازی ہے۔ ترقیاتی کام حکومت یعنی انتظامیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ جس طرح مولانا نے ترقیاتی کاموں پر سب شہریوں کے بلا تفریق مسلک حق کو تسلیم کیا ہے، اسی طرح یہ بھی ماننا چاہیے کہ قانون سازی اور پالیسی سازی میں کسی شہری کے ساتھ عقیدے کی بنیاد پر تفریق نہیں ہونی چاہیے۔ یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ مسلک کی بنیاد پر بننے والے سیاسی جماعتیں معاشرے مین عقائد کی تفریق کو کم کرنے کی بجائے مزید بڑھاوا دیتی ہیں۔ جمہوری  اخلاقیات میں معاشی پروگرام، معاشرتی پالیسیوں اور خارجہ امور میں ترجیحات وغیرہ کی بنیاد پر ووٹ مانگا جاتا ہے۔ اگر مسلکی شناخت کی بنیاد پر ووٹ مانگا جائے تو دیگر مذاہب اور عقائد سے تعلق رکھنے والوں کے لئے جمہوری انتخاب کا دائرہ محدود ہو جاتا ہے۔

مولانا نے امن و امان کے قیام میں اپنی ذاتی مساعی اور اہلیت پر زور دیا ہے۔ اس میں کارفرما کسی اصول کا ذکر نہیں کیا۔ انسان تو فانی ہوتے ہیں۔ مولانا کی عمر دراز ہو لیکن ہم سب کی طرح مولانا کو بھی ایک دن دنیا سے رخصت ہونا ہے۔ تب کسی کشیدگی اور امن و امان کی خراب صورت حال میں راولپنڈی کی ضلعی انتطامیہ اور سندھ کا گورنر کس سے مدد مانگیں گے۔ رواداری، امن اور ہم آہنگی کے لئے کسی کے شخصی اثر و نفوذ پر بھروسہ کرنے کی بجائے قابل تجزیہ اصول، طریقہ کار اور ضابطے تشکیل دینے چاہیں۔ شاید زیادہ مناسب یہ ہو گا کہ عقیدے کی بنیاد پر معاشرتی رسوخ اور سیاسی منفعت کا راستہ روکا جائے۔ سب انسان اپنے عقائد کو درست سمجھتے ہیں اور انہیں ایسا سمجھنے کا حق ہے۔ تاہم اگر عقائد کی بنیاد پر سیاسی اثر و رسوخ اور معاشی فوائد حاصل کرنے کا راستہ نکل آئے تو مذہب کا استحصال کرنے کا رجحان بڑھ جاتا ہے۔

مولانا فرماتے ہیں کہ ” صحابہ کرام کے احترام کے سلسلے میں قانون بن جائے تو ہمارا ہدف حاصل ہو جاتا ہے۔” عرض ہے کہ مذہبی بنیاد پر قانون بنانے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ بڑھ جاتے ہیں۔ 1974 میں دوسری آئینی ترمیم کے وقت یہی کہا گیا تھا کہ ہدف حاصل کر لیا گیا اور مسئلہ حل ہو گیا۔ تاہم 1984 میں آرڈیننس 20 نافذ کیا گیا تو دس برس قبل مسئلہ حل ہونے کی نوید سنانے والوں نے اسے ہدف سے تجاوز قرار نہیں دیا بلکہ اس کا خیر مقدم کیا اور اب شاید اسے منسوخ کرنا ممکن بھی نہ ہو۔ یہی معاملہ توہین مذہب کے قانون کے ساتھ ہوا۔ 1986 سے 1990 تک ہونے والے مباحث سب کے سامنے ہیں۔ 1990 کے بعد سامنے والے حالات سے بھی سب واقف ہیں۔ مقصود یہ بتانا ہے کہ مذہبی قانون سازی سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ رواداری قانون کے ذریعے نہیں پھیلائی جاتی۔ بلکہ مذہبی عناد میں قانون کے غلط استعمال کی ترغیب پیدا ہوتی ہے۔ مذہبی اختلافات کو عدالتوں میں حل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لئے سنجیدہ اور پرامن علمی اور معاشرتی مکالمہ کرنا چاہیے۔ کوئی گروہ اچھے اور برے لوگوں سے خالی نہیں ہوتا۔ اچھائی کے علمبرداروں کو ایک دوسرے کی بھلائی سامنے رکھ کر تنگ نظری اور فساد کا راستہ مسدود کرنا چاہیے۔ نبی کریمؐ کے صحابہ کرام کا مقام بہت بلند ہے۔ ان مقدس ہستیوں کا احترام کسی بھی ارضی قانون سے ماورا اور بے نیاز ہے. ہمیں ایسا معاشرتی اور تمدنی ماحول پیدا کرنا چاہیے جس میں کسی کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرنے والے کے لئے عزت و احترام اور اثر و رسوخ کا حصول مشکل ہو جائے۔ ایسے لوگ اپنے مفاد میں فتنہ پردازی کرتے ہیں۔ مفاد کا امکان ختم ہو جائے گا تو انہیں دوسروں کے بارے میں زبان درازی کی بجائے اپنے اعمال پر توجہ دینا ہو گی۔

مولانا محمد احمد لدھیانوی کی یہ رائے بہت منسب ہے کہ “توہین رسالت کے قانون کو غلط استعمال کرنے والوں کے لیے بھی سخت قانون ہونا چاہیے۔ غلط الزام لگانے والوں کو سخت ترین سزا دے کر عبرت کا نشان بنا دیا جانا چاہیے تاکہ آیندہ کوئی ایسی حرکت کرنے کا سوچے بھی نہ”۔

مولانا محمد احمد لدھیانوی کے مخالفین کے لئے بھی ان کے اس بیان میں اطمینان کے بہت سے پہلو موجود ہیں کہ “ہم لوگ پاکستان کے آئین کو مانتے ہیں جمہوری نظام کی حمایت کرتے ہیں اور جمہوری اقدار کا فروغ چاہتے ہیں۔ہم انتہا پسند نہیں ہیں۔ ہم انتہا پسندی کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔۔۔۔ ہم ملک میں امن چاہتے ہیں، فرقہ واریت اور فرقہ وارانہ فسادات سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم تمام ریاستی اقدامات کی تائید کرتے ہیں۔”

میں ادارہ “ہم سب” کی ٹیم کو اس کوشش پر مبارک باد دیتا ہوں۔ اور درخواست کرتا ہوں کہ اس سلسلے کو جاری رکھا جائے۔ نیز یہ کہ سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں کوئی تفریق کئے بغیر زیادہ سے زیادہ رہنماؤں کے خیالات کو دیانت داری سے پڑھنے والوں کے سامنے لایا جائے۔


میں آ گیا ہوں اب فکر کی کوئی بات نہیں: مولانا محمد احمد لدھیانوی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).