جس کی ’بھینس ‘ اس کی لاٹھی


 کسی جگہ ایک غریب آدمی ایک ٹوٹے پھوٹے پرانے مکان میں رہتا تھا۔ وہ مکان اتنا بوسیدہ ہو چکا تھا کہ ایک دن اچانک زمین پر آ رہا ۔ اس غریب آدمی کو ایک نیا مکان بنوانے کی فکر لاحق ہوئی۔ بال بچوں کا پیٹ کاٹ کر اور لوگوں سے قرض لے کر اس نے ایک نیا مکان بنوانا شروع کیا دیواریں کھڑی ہو گئیں، دروازہ بن گیا، لیکن چھت بھرنے کے لیے غریب کے پاس کچھ نہ بچا چنانچہ اس نے چھت کی جگہ ٹاٹ بچھا کر اس کے اوپر مٹی ڈال دی اور اپنے بیوی بچوں سمیت نئے مکان میں جا کر رہنے لگا۔ اس نے سوچا کہ برسات شروع ہونے تک چھت ٹھیک کروا لوں گا۔ اس محلے میں ایک چوربھی رہتا تھا غریب آدمی کا نیا مکان دیکھ کر اس نے سوچا کہ یہ شاید دولت مند ہو گیا ہے اس کے ہاں سے شاید اچھا خاصا مال ہاتھ لگ جائے گا چنانچہ ایک روز رات کے وقت جب سب سو رہے تھے وہ چور اس غریب آدمی کے مکان کی چھت پر چڑھ گیا لیکن چھت پر ابھی ایک دو قدم ہی چلا تھا کہ ٹاٹ پھٹ گیا اور وہ نیچے کمرے میں سوئے ہوئے مالک مکان کے اوپر گر پڑا۔ مالک مکان ہڑبڑا کر اٹھ  بیٹھا اور چور کو پکڑنے کی کوشش کرنے لگا لیکن کمرے میں بہت گہرا اندھیرا چھایا ہوا تھا جس سے فائدہ اٹھا کر چور بھاگ نکلا۔ چور بھاگ تو گیا لیکن پھر اس کو مالک مکان پر بڑا غصہ آیا کہ اس نے ایسی نقلی چھت کیوں بنائی، چنانچہ اگلے ہی دن وہ فریاد لے کر بادشاہ کے پاس پہنچ گیا اور کہا ’اے دانش مند بادشاہ میں نے ایک گھر میں چوری کرنا چاہی اور مکان کی چھت پر چڑھ گیالیکن چھت کی جگہ ٹاٹ بچھا ہوا تھا۔ میں نیچے گر گیا اور میری ٹانگیں ٹوٹتے ٹوٹتے بچیں ۔از راہِ کرم آپ اس مالک مکان کو سزا دیں‘۔ ’بادشاہ نے کہا تم فکر نہ کرو میں ایسا انصاف کروں گا کہ لوگ برسوں یاد رکھیں گے‘۔ ‘بادشاہ نے مالک مکان کو بلوایا اور اس سے پوچھا۔کیا یہ سچ ہے کہ یہ آدمی کل رات تمہاری چھت ٹوٹ جانے سے نیچے گر پڑا تھا؟’جی ہاں حضوربالکل سچ ہے۔ مالک مکان نے جواب دیا۔وہ تو خیر ہوئی کہ یہ آدمی میرے اوپر گرا نہیں تو اس کی ٹانگیں ضرور ٹوٹ جاتیں۔ اگر یہ سچ ہے تو ہم تم کو موت کی سزا سناتے ہیں۔ بادشاہ نے کہا اور جلادوں کو بلا کر حکم دیا کہ اس کو پھانسی پر چڑھا دو۔غریب مالک مکان بادشاہ کے قدموں پر گر پڑا اور کہا۔ بادشاہ سلامت مجھے کیوں پھانسی دی جائے۔ سزا تو چور کو دی جانی چاہیے جو میرے گھر میں چوری کے لیے آیا تھا۔ بادشاہ گرجا’چپ ہو جا‘ تمہیں مجھے جواب دینے کی جرات کیسے ہوئی؟ میں جو انصاف کروں وہ درست ہے۔ غریب مالک مکان نے دیکھا کہ اس طرح بادشاہ سے انصاف کی کوئی امید نہیں کی جا سکتی۔ اس نے بادشاہ سے کہا۔ بادشاہِ سلامت میرا تو اس میں کوئی قصور ہی نہیں ہے۔ ٹاٹ تو راج مزدور نے بچھایا ہے قصور تواسی کا ہے کہ اس نے خراب ٹاٹ بچھا ئے، وہ ایسا نہ کرتا تو چور نہ گرتا۔ تب بادشاہ نے حکم دیا کہ اس کو رِہا کر دیا جائے اور راج مزدور کو پھانسی پر چڑھا دیا جائے۔ بادشاہ کے سپاہی فوراً جا کر راج مزدور کو پکڑ لائے۔ جب اس کو پھانسی کے پھندے کے نیچے کھڑا کر دیا گیا تو اس نے بڑا واویلا مچایا لیکن اس کی ایک نہ سنی گئی۔ بالآخر اس نے کہا کہ ’بادشاہ سلامت میرا تو اس میں کوئی قصور ہی نہیں ہے سارا قصور اس آدمی کا ہے جس نے وہ ٹاٹ بنائے ہیں ۔ اگر اس نے ٹاٹ پکے اور مضبوط بنائے ہوتے تو ان پر کوئی بھی چلتا وہ نہ پھٹتے۔بادشاہ کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی اور ان کے حکم پر راج مزدور کو بھی چھوڑ دیا گیا اور ٹاٹ بنانے والے کو پکڑ کر لایا گیا۔ اسے بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا تو بادشاہ نے اس سے پوچھا۔ کیا ٹاٹ تم نے بنائے تھے؟ جی ہاں، حضور، میں نے ہی بنائے تھے۔ اس آدمی نے جواب دیا۔تب تو سارا قصور تمہارا ہے۔ بادشاہ نے گرج کر کہا اور اس نے ٹاٹ بنانے والے کو پھانسی پر چڑھانے کا حکم دیدیا۔ ٹاٹ بنانے والے کا واویلا بھی کسی کام نہ آیا۔ اس نے سن رکھا تھا کہ بادشاہ بڑا ’عقل مند‘ ہے اس نے بھی ذہن میں ایک کہانی گڑھ لی اور بادشاہ سے عرض کیا۔ بادشاہ سلامت بات یہ ہے کہ میرے بنائے ہوئے ٹاٹ ہمیشہ بڑے پکے ہوتے تھے لیکن جس وقت میں یہ ٹاٹ بنا رہا تھا اسی وقت میرے ایک پڑوسی نے جس کو کبوتر اڑانے کا شوق ہے اپنے کبوتر اڑا دئیے۔ وہ آسمان میں اڑتے پھر رہے تھے، قلابازیاں کھا رہے تھے، میں ان کا تماشا دیکھنے لگا ۔اس کا اثر میرے کام پر پڑا اورمیرے ٹاٹ چھدرے اور کمزور بن گئے۔ قصور میرا نہیں بلکہ اس کبوتر باز کا ہے۔ اب بادشاہ کے حکم پر ٹاٹ بنانے والے کو بھی چھوڑ کر کبوتر باز کو پکڑ کر لایا گیا۔ پھانسی کی سزا سن کر کبوتر باز کے اوسان خطا ہو گئے لیکن بادشاہ کا حکم تھا اس لیے اس کے واویلا پر اسے پھانسی کی بجائے عمر قید کی سزا دے دی گئی۔

بادشاہ اپنی جگہ بر حق تھا لیکن رعایا اس کے انصاف سے مایوس تھی۔ بادشاہ خوش تھا رعایا فکر مند تھی۔ بادشاہ نے جو کہا تھا کہ اس کا انصاف برسوں یاد رکھا جائے اس کا فیصلہ واقعی برسوں یاد رکھنے کے قابل ہے۔ بادشاہ کے انصاف کا جو معیار تھا اس نے اسی کے مطابق فیصلہ دے دیا۔ ہمارا معاشرہ اسی بادشاہ کا پر تو ہے اسی لیے ہمارا انصاف بھی بادشاہ کے فیصلوں سے متاثر ہے۔ یہاں غریب کے لیے قانون ہے اور امیر کے لیے ’انصاف‘۔ محاورہ ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہم اس محاورے کو الٹا کر لیتے ہیں جس کی بھینس اس کی لاٹھی کیونکہ جس کے پاس بھینس ہوگی تو لاٹھی بھی اسی کے پاس ہونی چاہیے ۔جس نے بھی محاورہ بنایا ہے غلط بنایا ہے۔ عوام کی خیر خواہی کا دم بھرنے والے ہمارے حکمران اپنے کئے کی سزا عوام کو دے رہے ہیں۔ ان سے ٹیکسوں کی شکل میں وصول کی گئی دولت پر وہ عیاشیاں کر رہے ہیں۔ قوم مہنگائی اور بیروزگاری کے ہاتھوں پس رہی ہے۔ حکمران کرپشن اور اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے کے محلاتی ’منصوبوں‘ سے فارغ نہیں ہو رہے ہیں۔ حکمران اور سیاستدان آپس میں الجھے ہوئے ہیں۔ ملک میں دہشت گرددندناتے پھر رہے ہیں اور حکمران صرف مذمتی بیانات جاری کر رہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔ جو پوچھنے والے ہیں وہ خود قابل رحم ہیں۔ انصاف کا جو حال ہے وہ عام آدمی اچھی طرح جانتا ہے۔ قانون موم کی ناک ہے جسے طاقتور اپنے طاقت کے زعم میں اپنے مفاد کے مطابق موڑ لیتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ ہمارے حکمران اور سیاستدانوں کے علاوہ انصاف کرنے والے بھی ’بادشاہ سلامت‘ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).