ایک صحافی اور صحافی نما باورچی کا قصہ


اک زمانہ گزر گیا کہ پرائیویٹ نیوز چینل میں کام کرنے والے ایک صحافی کو، ملک کے سب سے قدیم ٹی وی چینل کے نیوز ڈیپارٹمنٹ میں اہم ذمہ داریاں سونپ دی گئیں۔ قدیم چینل سے تعلق رکھنے والا ایک سینیئر اور نامی گرامی شخص، صحافی کی تعیناتی پر احتجاجاً، طویل چھٹی پر چلا گیا اور اپنے چند قدیم ساتھیوں کے ساتھ مل کر صحافی کی تعیناتی کے خلاف قانونی چارہ جوئی میں بھی مصروف ہو گیا۔

چند ہی دنوں میں صحافی کی تعیناتی کے خلاف دارالحکومت کی ایک عدالت میں درخواست گزاروں کی تعداد تقریباً دو درجن ہو چکی تھی۔ یہ تمام درخواست گزار اس قدیم چینل کے پرانے ملازمین تھے جن کے خیال میں پرائیویٹ چینل سے آئے اس صحافی کی تعیناتی سے، ان کی غیر معمولی اہلیت، طویل تجربے اور پیشہ ورانہ ذہانت کو تیزی سے زنگ لگنا شروع ہو گیا تھا۔

صحافی، اپنے عہدے کا چارج لینے کے بعد ، ایک دن نیوز ڈیپارٹمنٹ کے اسٹاف سے متعلق تفصیلات کا جائزہ لے رہا تھا۔ قدیم اسٹاف کے چند افراد بادل نخواستہ اس عمل میں اس کی معاونت کر رہے تھے۔ ان معاونین میں قدیم چینل کا وہ بدزبان اسٹافر بھی شامل تھا، جس نے چند روز قبل اسی صحافی کے ایک سوال پر کہا تھا، ”مجھے ہر سوال کا جواب نہیں آتا جناب، مجھے معاف کریں۔“ اب یہی اسٹافر تھوڑی دیر پہلے صحافی کے کمرے میں انتہائی غیر متوقع انکساری کے ساتھ داخل ہوا تھا، اور اس نے صحافی پر انکشاف کیا کہ وہ آج سے صحافی کے پی اے کے طور پر کام کرے گا۔ صحافی کو یہ سن کر یقیناً مزا تو بہت آیا ہو گا، لیکن بہرحال، اس میں تھوڑی بہت پیشہ ورانہ خوبیاں تو ہوں گی ہی، اور شاید نئی ذمہ داریوں کے بوجھ تلے بھی، اس نے ”پی اے“ کو کوئی طعنہ دیے بغیر یا اس پر کوئی جملہ کسے بغیر، کھڑے کھڑے تین بار قبول کر لیا۔

اسٹاف کی تفصیلات کا جائزہ لینے کے دوران، صحافی نے محسوس کیا کہ ایک اسٹافر کا نام اور عہدہ کاغذات میں تو موجود ہے، لیکن نہ صرف وہ مستقل غیر حاضر ہے، بلکہ کسی کو اس کے ٹھکانے اور ذمہ داریوں کا بھی صحیح علم نہیں ہے۔ یہ اندازہ بھی بخوبی لگایا جا سکتا تھا کہ نیوز روم میں موجود کوئی بھی شخص، اس خاص اسٹافر کے بارے میں بات کرنے سے کچھ گریزاں سا ہے۔ لہٰذا صحافی کا تجسس یہ سوچ کر اور بڑھتا جا رہا تھا کہ آخر معاملہ کیا ہے، کاغذات میں حاضر لیکن نیوز روم سے مکمل طور پر گمشدہ یہ آدمی کون ہے، اور اس وقت کہاں ہے؟ وہ سوچ رہا تھا کہ یہ سب کچھ جاننا اور اس پر ضروری اقدامات کرنا اس کا پیشہ ورانہ فرض بھی ہے۔ اور گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے پی اے کے لئے یہ بہترین موقع تھا کہ وہ اپنی وفاداری کے اس نئے دور میں جلد ہی سرخرو ہو جائے۔

صحافی کمرے سے باہر سموکنگ کے لئے گیا تو تھوڑی دیر پہلے، زرد رنگ کا چہرہ لئے صحافی کے کمرے میں داخل ہونے والا وہ ”پی اے“ اب کچھ گلابی گلابی سا ہو رہا تھا۔ صحافی خاموش کھڑا سگریٹ کے کش لیتا ہوا، کچھ لمحے سپاٹ چہرے کے ساتھ اپنے اس پی اے کو گھورتا رہا۔ لیکن پی اے بھی تجربہ کار تھا، اور شاید اعصابی جنگ کا ماہر بھی، لہٰذا پہلے وہ ہلکا سا مسکرایا اور پھر اس نے انتہائی رازداری کی درخواست پر صحافی کے تجسس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ وہ اس گمشدہ شخص کو ڈھونڈ سکتا ہے۔ لیکن دو سے تین دنوں کے بعد ، کیوں کہ صحافی کو نیوز ڈیپارٹمنٹ سے متعلق چند اہم معاملات بھی نمٹانا تھے، اس لئے اسے کوئی اعتراض نہ تھا۔

اس دوران چند پرانے لوگوں نے کسی حد تک زبان کھولی اور صحافی کو ڈھکے چھپے لفظوں میں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ فی الحال اس معاملے میں نہ پڑے، بڑے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ لیکن صحافی کا فیصلہ اٹل تھا اور آخر کار، ٹھیک تین دنوں کے بعد گمشدہ اسٹافر نیوز روم میں جلوہ افروز ہوتا ہے۔

اسٹافر طے شدہ وقت پر نیوز روم میں داخل ہوا تو وہاں ایک لمحے کے اندر اندر مکمل خاموشی سی چھا آ گئی۔ کمزور جسم کا مالک، یہ اسٹافر بظاہر کوئی ساٹھ باسٹھ برس کی عمر کا ایک باریش آدمی تھا، وہ چہرے پر پریشانی اور خوف کے تاثرات لئے بوجھل قدموں کے ساتھ صحافی کے کیوبیکل کی جانب بڑھ رہا تھا۔ اس کی آمد سے قبل صحافی کو پیغام ملا تھا کہ یہ گمشدہ شخص صحافی کے روم میں ملاقات کرنا چاہتا ہے۔ لیکن صحافی کا خیال تھا کہ اس نیک کام کے لئے اس قدیم چینل کے بارونق نیوز روم سے بہتر اور کوئی مقام ہو ہی نہیں سکتا۔

گمشدہ اسٹافر کی آمد پر نیوز روم میں موجود لوگ بظاہر مصروف نظر آرہے تھے، لیکن چند کے چہروں پر تجسس واضح تھا، گویا وہ سوچ رہے ہوں کہ اب کیا ہونے والا ہے۔ بالآخر گمشدہ اسٹافر صحافی کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔ صحافی نے پہلے اس کے نام کی تصدیق چاہی، اسٹافر نے اپنا درست نام سن کر، سر ہلا کر ’ہاں‘ کا اشارہ کیا۔ اس کی عمر اور حالت دیکھ کر صحافی نے اسے بیٹھنے کو کہا، لیکن وہ پست حوصلہ شخص مستقل ویسے ہی کھڑا رہا۔ اس کی نظریں مستقل فرش پر تھیں، صحافی کا سوال سن کر وہ صرف ایک لمحے کے لئے نظر اٹھائے بغیر اپنا سر اٹھاتا، اور اسی حالت میں کچھ کہنے کی کوشش کرتا۔ اگرچہ وہ گونگا نہیں تھا، لیکن بظاہر ”پیشگی ہدایات“ کی بھرمار نے اس کی قوت گویائی کو بری طرح متاثر کر رکھا تھا۔

اسٹافر نے صحافی کے کسی سوال کا مکمل جواب نہیں دیا۔ کہیں کہیں اس کی نحیف سی آواز نکلتی ضرور تھی لیکن وہ کیا کہہ رہا تھا، یہ سمجھ سے بالاتر تھا۔ البتہ ذرا سی سختی پر، اس کی آواز تھوڑی سی بلند ہوئی؛ اب وہ بتا رہا تھا کہ وہ صحافی کی تعیناتی پر احتجاجاً چھٹی پر چلے جانے والی معروف شخصیت کے گھر پر، گزشتہ تیس سال سے باورچی کے طور پر کام کر رہا ہے۔ اس کی اس بات پر نیوز روم میں چند چہرے تشویش اور پریشانی سے سرخ ہوئے جا رہے تھے۔ گفتگو کے دوران یہ اندازہ بھی بخوبی ہو گیا کہ اسٹافر کو نیوز روم آپریشنز اور قدیم چینل کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا۔ اس نے انکشاف کیا کہ وہ سال میں بہ مشکل ایک یا دو بار دفتر آتا ہے، اور وہ بھی اس معروف شخصیت کے کسی ذاتی کام سے، جس کے گھر وہ گزشتہ تیس برسوں سے باورچی کے طور پر کام کرتا آ رہا ہے۔

صحافی نے اسٹافر کے روانہ ہوتے ہی اس کا پورا ریکارڈ منگوا لیا۔ ریکارڈ حاصل کرنے کے لئے اسے چینل کے ہیڈ کوارٹرز میں بیٹھے چند افسران سے باری باری بات کرنا پڑی۔ آخر کار دوسرے دن صبح پی اے نے آتے ہی صحافی کے سامنے خاموشی سے متعلقہ ریکارڈ پیش کر دیا۔

ریکارڈ دیکھ کر معلوم ہوا کہ ہمیشہ سے گمشدہ وہ اسٹافر گزشتہ بیس سال سے زائد عرصے سے بطور نیوز اسٹافر، چینل سے مستقل تنخواہ لے رہا تھا۔ یہ سب کچھ صحافی کے لئے ناقابل یقین تھا۔ اگلے چند دنوں میں اور بھی کہانیاں کھلنا شروع ہو گئیں۔

ایک بار رات گئے اسی قدیم چینل سے وابستہ ایک انتہائی سینیئر اور پرانے دور کی خوبرو اور معروف نیوز اینکر نے صحافی کو فون کر کے، اس گمشدہ اسٹافر سے متعلق چند انکشافات کیے۔ معلوم ہوا کہ وہ اسٹافر دراصل ایک انتہائی اعلیٰ درجے کا مانا ہوا باورچی ہے۔ اس نے کوئی تیس سال قبل، صحافی کی تعیناتی کے خلاف احتجاجاً چھٹی پر چلے جانے والی مشہور و معروف شخصیت کے گھر ملازمت اختیار کی تھی، ابتدائی دس برسوں تک اس کی تنخواہ کم تھی، کیوں کہ یہ تنخواہ اس مشہور و معروف شخصیت کو اپنی جیب سے دینا پڑتی تھی۔

لیکن پھر اس کمال شخصیت نے اپنے باورچی کو اپنے قدیم چینل سے ایک خوبصورت سا اپوائنٹ منٹ لیٹر دلوا دیا جس کے تحت اس کی تنخواہ اچانک تین گنا بڑھ گئی، اور یوں اس مشہور و معروف شخصیت کی جیب پر اپنے ہی خانساماں کو تنخواہ ادا کرنے کا یہ مستقل اور انتہائی ’غیر ضروری‘ بوجھ مکمل طور پر ختم ہو گیا۔ اینکر خاتون نے مزید بتایا کہ باورچی مستقل اس ممتاز شخصیت کے اہل خانہ اور دوستوں کے پسندیدہ پکوان تیار کرتا رہتا ہے اور ان تمام برسوں میں اس کی تنخواہ مستقل بڑھتی رہی ہے۔ کئی بڑے سرکاری افسر، سیاست دان اور بیورو کریٹس بھی فرمائشیں کر کر کے اس سے کھانے بنواتے رہے ہیں۔ خاتون اینکر نے فون رکھتے ہوئے کہا، ”ویسے یہ ظالم خانساماں حیدر آبادی بگھارے بیگن بہت اچھے بناتا ہے۔ یمی۔“

مزید چند روز گزرے ہوں گے کہ یہ صحافی بڑے افسران اور ’منتخب‘ نمائندوں کی ہدایات پر بہت زیادہ دھیان نہ دینے کے ’جھوٹے‘ الزام میں تیزی سے بدنام ہونا شروع ہو گیا۔ ایک دن قدیم چینل نے خلاف معمول و توقع کوئٹہ میں ہونے والے دھماکے کی خبر بریک کی، تو اس پر الزام لگا کہ اگر یہ خبر بریک نہ کرتا تو کسی پرائیویٹ چینل میں یہ خبر چلانے کی ہمت نہ ہوتی۔ گویا خبر دینا جرم قرار پایا۔ صحافی حیران تھا کہ آخر یہ افسران کس دنیا میں رہ رہے ہیں؟ حد یہ ہوئی کہ ایک دن وزیر اطلاعات نے صحافی کو فون کر کے ایک خبر نہ چلانے کا حکم دیا۔ صحافی نے کچھ کہنے کی کوشش کی تو وزیر نے یہ کہہ کر فون رکھ دیا کہ، ”اپنے پرانے چینل میں واپس جا کر ایسی خبریں چلا دیا کرنا“

وزیروں کی صحبت میں رہ کر بگڑ جانے والا ایک اور اہم شخص کبھی کبھی فون کر کے صحافی سے ”خیریت“ پوچھ لیا کرتا تھا۔ گمشدہ اسٹافر کی حاضری کے ناقابل یقین واقعے کے چند روز بعد ہی، اس اہم شخص نے ایک دن صحافی کو رات کے کھانے پر بلایا۔ وہاں چند اور لوگ بھی موجود تھے۔ کھانے سے قبل ہی وہ اہم شخص اپنا پسندیدہ مشروب پی کر کافی خوش دکھائی دے رہا تھا، اتنا خوش کہ گفتگو کرتے کرتے اہم شخص نے کچھ سوچ کر خود بہ خود ہی ہنسنا شروع کر دیا۔

ابھی تمام مہمان اس کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھ ہی رہے تھے کہ وہ صحافی کی جانب اشارہ کر کے بول پڑا، ”اس آدمی کی تعیناتی کے خلاف مقدمے میں چینل کے بیسیوں افسران، عدالت میں حاضر ہوتے رہے، لیکن یہ [صحافی] خود ایک بار بھی پیش نہیں ہوا، لیکن پھر بھی دیکھو، یہ آج مقدمہ جیت گیا۔“ یہ کہہ کر اس نے اور زور سے ہنسنا شروع کر دیا اور پھر صحافی سے بولا، ”اور ہاں یار، وہ باورچی کا کیا قصہ تھا؟ اس کو تم نے نوکری سے تو نہیں نکال دیا؟“ صحافی نے کہا کہ وہ باورچی کے معاملے میں مزید کوئی کارروائی نہیں کرنا چاہتا۔ اس پر میزبان نے انتہائی مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ”آپ تو کراچی کے ہو، کبھی اس باورچی سے نہاری ضرور بنوانا۔ کوئی وزیر بتا رہا تھا کہ زبردست نہاری اور پائے بناتا ہے۔“

صحافی کی تعیناتی کے خلاف احتجاجاً چھٹی پر چلے جانے والا وہ مشہور و معروف شخص، آج کل اصلاح معاشرہ، انسانی ہمدردی اور اسلام کی اصل روح سے متعلق باقاعدہ اور مستقل کالم لکھ رہا ہے۔ خاص بات یہ کہ وہ اپنے ہر کالم کا لنک باقاعدگی سے اس صحافی کو بھی بھیجتا ہے جو سابقہ وزیر اطلاعات کی دیرینہ آرزو کے تحت اب ”شاید“ اپنے سابقہ چینل سے وابستہ ہے۔

اہم نوٹ: بھلا پڑھنے والوں کو کیا غرض کہ اس افسانے نما مضمون میں کس ملک، کس دارالحکومت، کس صحافی، کس چینل، کس وزیر اور کس دور کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ افسانے نما یہ مضمون در اصل قارئین کی تفریح طبع کے لئے تحریر کیا گیا ہے۔ اس سے آگہی اور سبق حاصل کرنے والوں کو خبردار کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے کیے کے خود ذمہ دار ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments