’’گمنام لوگوں‘‘ کی طرف سے رضا ربانی کے نام خط


قابل صداحترام، عزت مآب حضور والا جناب، ریاست کے آہن ترین ستون کے صدر نشین، پارلیمان کے ایوان بالا کے بالا نشین، کہیں عزم کہیں یقین، گوشئہ وزراء کے مکین، محافظ آئین اور انسانی حقوق کے امین، جمہور کا جھومر اور جمہوریت کی جبیں، امرا کی محفل میں غرباء کا نگیں

اسلام علیکم!

ہم درماندگان خاک کی طرف سے چند القابات اس مراسلے کی ذریعے آپ کی نظر کیونکہ سینٹ کے اگلے انتخابات یعنی مارچ 2018 تک ہم آپ کی نظر میں گم گشتہ اور آپ ہماری آنکھوں سے اوجھل اس لئے کاغذی پیرہن میں اپنا مدعا آپ کی بصارتوں کی نظر۔

چونکہ آپ ‘ريڈ زون’ ميں واقع گوشہِ وزراء کے مکین ہیں تو اس لئے کہیں میل ملاقات تو دور کی بات آمنا سامنا بھی ممکن نہیں کیونکہ ریاست نے افتادگان خاک کا داخلہ “ریڈ زون ” جس کی سرخی ہمارے خون سے عبارت ہے ’’شجر ممنوعہ‘‘ قرار ديا ہے۔ اور ٹھیک ہی قرار ديا ہے کہ جہاں شاہراہ دستور کے ایک طرف وزیراعظم کا ایوان، عدل کی دکان، جمہور کے خوابوں کا قبرستان پارلیمان واقع ہو وہاں آپ کی کتاب کے مصداق ہم گمنام اور بے نام اور بقول فیض ’’گلیوں کے آوارہ بے کار کتوں‘‘ کا کیا کام؟

جمہور، جمہوریت، بنیادی انسانی حقوق، مزدور، تانگہ بان، کوچوان، سیاسی کارکنان، تاجران اور کاشت کار وکسان کے حقیقی نمائندہ رضا ربانی جنہوں نے اپنا پہلا تعارف پارلیمان کے سامنے اپنی جبیں سے پھوٹتی ہوئی خون کی دھار سے کروایا تھا۔ اور پارلیمان کے اندر خاک افتادگان وطن کی لڑائی یوں بے تیغ لڑی کہ وقت کے طالع آزما جابر اور اشرافیہ انگشت بدنداں رہ گئے۔ ہم گلیوں کے آوارہ بے کار کتے بھی تسکین قلب سے معمور کہ ہماری لڑائی کوئی جالب، ساغر، منٹو یا بابائے سوشلزم شیخ رشید جیسا ’’بے کار اور آوارہ مڈل کلاسیا‘‘ نہیں بلکہ ساحل سمندر کے پوش علاقہ کلفٹن کا رہائشی رضا ربانی لڑ رہا ہے۔

ضیاء کی آمریت میں پابند سلاسل ہو کر جیل کے مکینوں کے روز و شب سے بطریق احسن واقف ہوا۔ پی پی پی کے پہلے دور میں صوبائی مشیر بن کر بیورو کریسی اور اشرافیہ کی عوام دشمنی سے شناسائی حاصل کی۔ پیپلز پارٹی کے دوسرے دور حکمرانی میں بطور وزیر قانون، قانون کی بے بسی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور پھر کمر بستہ ہو کر دارالامرا میں فروکش ہو کر عوام پاکستان کے حقوق کی لڑائی کی ٹھانی۔

مشرف دور حکومت ميں ایوان بالا ميں بطورِ قائد حزب اختلاف دستور کے خلاف ہونے والی سازشوں کو آشکار کیا۔

بی بی کی شہادت کے بعد جب آپ کی جماعت اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوئی تو اپنی اصول پرستی اور آئین پسندی کی بناء پر آمر سے حلف لینے سے انکار کیا۔ اور پارليمنٹ ہاؤس کے دوسرے فلور پر واقع قومی اسمبلی کی لائبریری میں سگار کے کش اور قلم کے رش سے اساطيری اٹھارہويں ترمیم کے خالق ٹھہرے اور بھٹو صاحب کے ديے ہوئے جمہوری آئین سے آمروں کی تمام باقیات کو نکال باہر کیا لیکن چند ناگزیر سیاسی وجوہ کی بنا پر عوامی نمائندگان اپنے کو اپنے اپنے پارٹی لیڈر کے رہين کر ديا کہ اب مارشل لاء دور میں جبر کہلانے والی زباں بندی اور ابن الوقتی اٹھارہويں ترمیم کے بعد عین آئین کی پابندی ٹھہری۔

اب ایوان کے اندر منتخب نمائندوں کا ووٹ خلق خدا کی امنگوں کا ترجمان نہیں بلکہ بذبان آپ کے اشک ہائے رواں ’’پارٹی کی امانت ہے‘‘۔ ضياء دور کے آرٹيکل 62 اور 63 جو کہ جنرل ايوب کے PODA کا چربہ تھا وہ بھی نہ جانے کيوں آپ کی نظروں سے اوجھل رہا۔

اصول پسندی کی روایت کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے جب زرداری صاحب نے ق لیگ کو شریک اقتدار کیا تو آپ ایک دفعہ پھر کابینہ سے مستعفی ہوئے۔ اب جب کہ آئین تمام آمرانہ آلائشوں سے پاک ہو چکا تھا تو اسٹیبلیشمنٹ کو پارلیمان کو آگے جوابدہ کرنے کے لیے قومی سلامتی کی کميٹی کے چیرمین بنے اور ڈیڑھ سال تک پالیمان کے دوسرے فلور پر واقع کمرہِ دستور میں لمبے لمبے اجلاس کیے اور آپ کے بقول رياست کے گمنام شہریوں کو رياست کے گمنام ہاتھوں سے حفاظت کے لیے سفارشات مرتب کیں لیکن بوجوہ ایوان میں پیش کرنے سے نہ جانے کیوں قاصر رہے۔ خیر پارلیمان کے یخ بستہ ایوانوں میں جمہور کے حقوق کی لڑائی سے تو ساری دنیا آپ کی واقف ہے لیکن آپ کے اندر چھپے مصنف سے شناسائی آپ کی تصنیف شدہ کتاب Invisible People يعنی کہ 

’’گلیوں کے آوارہ بے کار کتے‘‘ کی ميريٹ ہوٹل کے یخ بستہ مارکی میں ہونے والی تقریب رونمائی سے ہوئی۔ جہاں پاکستان کی اشرافیہ نے گلوگیر لہجوں اور بناوٹی افسردہ چہروں کے ساتھ افتادگانِ خاک کی گم گشتگی اور لاچارگی پہ افسوس اور تاسف کا سماں باندھا۔ ہم گمنام لوگ جو کہیں آپ کی سیاست کا مرکز و محور ٹھہرے اور کہیں آپ کی کتاب کا موضوع وہاں مدعو نہیں تھے لیکن آنے والے معزز مہمان گرامی کے لیے سٹیج سجانے، قالین بچھانے اور سامان خوردونوش بہم پہنچانے میں مصروف تھے اور چونکہ گمنام تھے اس لیے مصنف اور مقررین دونوں کی نگاہوں سے اوجھل رہے۔ زیادہ تر مقالے آپ کی کتاب کی طرح زبان فرنگ میں تھے اس لیے سمجھ سے بالا رہے۔ آپ نے اپنا مافی الضمیر گوشتہ وزراء (منسٹر انکليو) کے کسی وسیع و عريض بنگلے کے لان میں بیٹھ کر زبان غير میں بیان کیا اور کتاب کی قیمت کچھ زیادہ تھی اس لیے پتہ نہیں آپ نے اس میں کیا لکھا۔

آپ کی زبانی معلوم ہوا کہ آپ کی یہ کتاب ہم افتادگان خاک کی قریہ قریہ گلی گلی بکھری لاکھوں داستانوں میں سے چند انسانوں پر مشتمل ہے جن میں ریاست کے ہاتھوں ہم یہ ہونے والے جبر کی روداد بزبان غیر بیان کی گئی ہے۔ یہ کوئی نئی بات تو نہیں کیونکہ جس پارلیمان کا آپ حصہ ہیں اس کا وجود بھی ہم غرباء وطن کی مجبوریوں محکومیوں اور لاچارگیوں کے ذکر اور ان کے خاتمے کے لیے کی جانے والے وعدوں سے عبارت ہے۔ ہمارا وجود صرف الیکشن کے دن قطار میں کھڑے ہوکر ووٹ دینے اور سیاسی جلسوں میں سارا دن بھوکے پیٹ نعرہ لگانے اور پھر قیمہ بھرے نانوں پر جنگلیوں کی طرح ٹوٹ پڑنے اور ٹی وی پر مناظر پیدا کرنے، دیار غیر میں کفیلوں کی غلامی کرنے اپنے ہی وطن میں کہیں تھانوں میں مار کھانے ہسپتالوں میں ایڑیاں رگڑ نے اور عدالتوں میں عدل و انصاف کے حصول کے لیے چکر لگانے ہی کے لیے تو ہے۔

رضا ربانی صاحب، ہم غریب نہ ہوں تو کار ریاست کیسے چلے؟ بساط سیاست کیسے بچھے؟ کاروان معیشت کیسے آگے بڑھے؟ فائيو سٹار ہوٹلوں میں ورکشاپس، سیمینارز اور کتب کی تقریب رونمائی کیسے وقوع پذیر ہوں؟ معیشت کا پہیہ کیسے گھومے؟ اینٹوں کے بھٹے، چنگچی رکشے کون چلائے؟ گٹروں کا تعفن کون دور کرے، کچروں کے ڈھیر کون اٹھائے، شہروں کے مضافات میں اشرافیہ کے لیے سوہانِ روح کچی بستياں کون بسائے؟ بازاروں، خانقاہوں، مساجد اور دانش گاہوں میں کون دہشت گردی کا نشانہ بنے؟ اور اس کے بعد اشرافیہ کی روح میں حلول شدہ دکھ کے اظہار کے لیے کسی کتاب کی نظم کسی غزل، کسی آرٹیکل کا عنوان ٹھہرے۔ وطنِ عزیز کے سیاسی ایوانوں سے لے کر فائيو سٹار ہوٹلوں اور پوش علاقوں کی رونق ہم ہی تو ہیں اور اس کے باوجود ہم ہی گمنام، گم گشتہ غیرمرعی اور زبان فرنگ میں ’انوزبل‘ ٹھہرے۔

جناب چیرمینِ ایوان بالا ہم ‘انوزبل’ نہیں۔ گو آپ کی بصارت اور ہمارے درمیان کہيں دبيز پردے تو کہیں موٹر کاروں کے اترتے چڑھتے کالے شیشے حائل ہیں۔ کہیں ریاست کا پرٹوکول تو کہیں دستور کی پابندی حائل ہیں۔ آپ ‘ہٹو بچو’ کی صدا ميں کبھی اپنی کار کے سیاہ شیشے نیچے کرکے تو دیکھتے یا فائيو سٹار ہوٹل کے ٹیریس سے طاہرانہ نگاہ ڈالتے یا پھر گوشہِ وزراء کے مضافات میں واقع فرانس کالونی کا چکر ہی لگا ليتے تو شايد ہم ہی “وزبل” ہوتے۔

“اِن وزبل” تو وہ کلاس اور چہرے ہيں جن کی محافلِ شبينہ کا آپ حصہ ہيں۔ ہم تو چہار سو پھيلی چاندنی کی مانند عياں ہيں

کہيں فاقہ مست تو کہيں عرياں ہيں

کہيں گل فروش تو کہيں پابجولاں ہيں

کہيں زندگی کے بھکاری تو کہيں موت کے رقيباں ہيں

کہيں مضمحل و زرد چہرہ تو کہيں سينہِ خونچکاں ہيں

کہيں گولی کی زد ميں تو کہيں برسرِ سناں ہيں

کہيں بستے شہروں ميں لاوارث اور کہيں سعودی شہزادوں کيلئے رونقِ بياباں ہيں

کہيں نانِ جويں کے لئے بلکتے ہيں تو کہيں پر تعيش خواب گاہوں کا ساماں ہيں

جابجا کچہريوں ميں دھکے کھاتے ہيں حالانکہ دستور کی اساس اور آئين کا عنواں ہيں

کو بہ کو ہماری ہی چيخ و پکار ہے ليکن اس کے باوجود آپ کی نظر ميں گم گستہ اور بے زباں ہيں۔

رضا ربانی صاحب، ہمارے دکھوں پہ آپ کے آنسو جو آپ کی کتاب کی وساطت سے ہم تک پہنچے، ہماری حيات کا کل ساماں ہيں۔

آپ نے اپنی کتاب ميں ہم نظروں سے اوجھل مخلوق کے مسائل کے حل کی ناکامی ببانگِ دہل اعتراف کيا ہے۔ آپ کا يہ اعتراف رياست کا اعترافِ ناکامی ہے کيونکہ آپ اس وقت رياست کے اہم ترين ادارے کے چئيرمين ہيں۔ ايوان ميں وزرا۶ کی عدم آمد پہ آپ کے استعفیٰ کا اعلان دو دن تک ٹی وے اسکرينوں کی رونق رہا۔

کاش Invisible People کے epilogue ميں رياست کے اہم ترين ادارے کے ساتھ چئيرمين کے اعترفِ ناکامی کے ساتھ اگر اپنا استعفٰی منسلک کر ديتے تو Invisible People کے دلوں ميں اور پوش علاقوں کے عقب ميں واقع کچی آباديوں اور بچوں کو سنائی جانے والے لوريوں ميں ہميشہ زندہ رہتے۔

 والسلام

 گليوں کے آوارہ بے کار کتے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).