جنسی تعلیم پر بات کی جائے


جامعہ میں تدریس کے شعبے سے وابستگی ایک استاد کے طور پر ہمیشہ سے میرے لئے نوجوان طالب علموں سے تعامل کے دوران ان سے سیکھنے، ان کو سکھانے، ان کے کچھ کر دکھانے کے عزم اور ان کے مسائل جاننے میں گزری ہے۔ ایک دن روز مرہ تدریسی معاملات سرانجام دینے کے بعد اپنے دفتر میں آکر بیٹھی ہی تھی کہ ایک جھجکتی ہوئی آواز نے دفتر میں آنے کی اجازت طلب کی۔ سر اٹھا کر دیکھا تو ایک نوجوان بچی عمر تقریباً 24 سال کے لگ بھگ عبایا میں سمٹی سمٹائی مگر حد درجہ گھبرائی اندر آنے کی اجازت طلب کر رہی تھی۔ بچی کو بیٹھ جانے کے بعد میں نے آمد کا مقصد دریافت کیا تو جواب ندرد۔ پھر پوچھا تو بولی ہمت نہیں ہورہی کہ آپ سے کیسے بات کروں۔

میں نے کہا میری بچی سب سے اچھا ہوتا ہے ماں باپ سے بات کرنا اور اس کے بعد اچھا ہے استاد سے پوچھ لینا۔ میں نے سوچا ہم تربیت کے ادارے ہیں اور کتنی ایمانداری سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ تو بہتر یہی ہوگا کہ نوجوانوں کے لیے اعتماد کی فضا کو بحال کیا جائے۔ سوچ کر پھر پوچھا بچی سب خیریت تو ہے۔ معلوم پڑا ایک موبائل نمبر بہت پریشان کر رہا ہے اور ملنے پر اصرار کر رہا ہے۔ اب بظاہر یہ بہت بڑی وجہ نہ لگی کہ جس پہ بچی اتنی گھبرا جاتی مگر تفصیل سننے کے بعد رونگھٹے کھڑے ہوگئے۔

معلوم پڑا کہ بچی کو  FACEBOOKپہ ایک اشتہار دیکھنے کو ملا تھا جس پر درج تھا۔’’ ایک پُڑیا بنائے گڑیا‘‘ قیمت صرف 4500 اپنی دوشیزگی واپس لائیں اور اپنا کھویا ہوا اعتماد بحال کریں۔

اب ہوا یہ کہ کہیں اس بچی نے  Facebookپر اشتہار میں دئیے ہوئے نمبر پہ رابطہ کر کے پُڑیا آرڈر کرلی۔ پُڑیا تو کیا ملنی تھی ذاتی پیغامات میں پُڑیا بنانے والوں کے پیغامات آنے شروع ہوگئے کہ :۔

یہ بتاؤ تم نے دوشیزگی کھوئی کیسے ہے؟ کس کس سے ملاقاتیں کرچکی ہو اور پھر یہاں تک کہ ’’ہم پہ بھی مہربانی کر دو‘‘ جیسے پیغامات جو اس گھبرائی ہوئی بچی کو اس نہج پہ لے آئے اب کوئی اس معاملے میں اس کی مدد کرتا۔

میرا پہلا سوال بچی سے یہ تھا کہ آپ کو کیوں لگا آپ کو اس پُڑیا کی ضرورت ہے؟جواب ملا ہمارا تعلق فرسودہ گھرانوں سے ہے جہاں اپنی دوشیزگی ثابت نہ کرنے پر آج بھی یا تو ہمیں مار دیا جائے گا یا گھروں کو واپس بھیج دیا جائے گا۔

اور میں قسم کھاتی ہوں کبھی غلط کام نہیں کیا مگر ڈرتی ہوں اگر اپنی دوشیزگی ثابت نہ کر پائی تو کیا ہوگا۔ مگر اب اس دوشیزگی کو پانے کے چکر میں اشتہار بنانے والوں کے ہاتھوں بلیک میل ہو رہی ہوں۔

سب سے پہلی بات جو اس بچی کو سمجھائی کہ دوشیزگی کو جس ’’پردے‘‘ سے ہم منسلک کرتے ہیں میڈیکل سائنس اب یہ ثابت کرچکی ہے کہ ایسے کیس بھی سامنے آئے ہیں کہ پیدائشی طور پر وہ پردہ بچیوں میں تھا ہی نہیں یا تھا تو اتنا باریک کہ وقت گزرنے یا جسمانی ورزشوں یا کاموں کہ نوعیت کے وجہ سے تحلیل ہوگیا یا ایسی خوراکیں بھی خصوصاً (جو برائلر اور سیرائیڈز گلے ٹیکوں والی مرغیاں) کھا کھا کر ہم اپنی طبعی نوعیت کو بدل چکے ہیں۔

اب دوشیزگی کا تعلق صرف کسی فعل کو سرانجام دینے سے منسلک نہیں ہے ۔میڈیکل سائنس میں اس کے حوالے سے بہت سی تحقیقات موجود ہیں جس سے ثابت ہوچکا کہ نوجوانوں میں طبعی تبدیلیاں بہت سے عوامل سے جڑی ہوئی ہیں اور کسی ’’ ایک وجہ ‘‘ کو مد نظر رکھ کر کسی کی کردار سازی یا کردار کشی نہیں کی جاسکتی۔

اب وہ وجہ جس نے اس تحریر کو لکھنے پر مجبور کیا اس کی طرف آتے ہیں اور وہ ہے ’’ جنسیت کی تعلیم ‘‘۔

جنسیت کی تعلیم مہذب معاشروں کا حصہ ہے اور اس تعلیم کے لئے عموماً سکول کالجوں کا انتخاب کیا جاتا ہے ۔

اساتذہ کے ساتھ ساتھ طبعی ماہرین کی ٹیمیں سکول اور کالج کے طالب علموں کو جنسیت کے پہلووں سے روشناس کراتی ہیں۔

پاکستانی معاشرے میں جنسیت کو تعلیم کے طور پر بہت کم یا نہ ہونے کے برابر حیثیت حاصل ہے مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ یہاں جنسیت کے مسائل نہیں ہیں۔

سب سے پہلی چیز جو ہمیں جنسیت پر بات کرنے سے روکتی ہے وہ ہمارا یہ خیال ہے کہ یہ کوئی غیر مہذب اور غیر شائستہ یا غیر اخلاقی موضوع ہے یا پھر یہ کہ Sex education کا مطلب صرف ہم بستری کے طریقے سکھانا ہے۔

معذرت کے ساتھ Sex education کا شعبہ بہت وسیع ہے جس میں سب سے پہلے اس بات کا یقین کیا جاتا ہے کہ کس عمر کے بچے کو کس حد تک کی معلومات فراہم کی جائیں۔ مثلاً یہ پروگرام جسمانی طور پر جوانی کی طرف بڑھنے ہوئے بچوں کو یہ سکھاتا ہے کہ جسمانی تغیرات کو کس طرح سمجھا جائے، مخصوص طبعی عوامل سے گزرتے ہوئے اپنی جسمانی صفائی کو کس طرح یقینی بنایا جائے۔ انفیکشن سے کیسے بچا جاسکے، جسمانی طور پر ایک سے دوسرے کو لگنے والی بیماریوں سے کیسے بچا جائے، نوجوانی سے لیکر شادی اور شادی کے بعد ازدواجی تعلقات اور فیملی پلاننگ جیسے نکات اس کا حصہ ہیں۔

اب اس وسیع تر تعمیل کو عمر کی مناسبت سے اگر نوجوانوں تک پہنچایا جائے تو یقیناً وہ خود کو بہت سی طبعی اور معاشرتی مسائل سے محفوظ بنا سکتے ہیں۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں اپنے نوجوان کو صرف یہ بتا دینا کے کسی بھی مخصوص طبعی تبدیلی کو تم اس لئے تجربہ کر رہے ہو کہ یہ سب کے ساتھ ہوتا ہے ہمارے ساتھ بھی یہ طبعی تغیرات ہوئے یا یہ کہ ہم سب کے ساتھ ہوتے ہیں تو تمہارے ساتھ بھی ہورہے ہیں ایک ناکام اور غیر تشفی بخش جواب ہوگا۔ وہ سولات جو نوجوان ایک ذہنوں میں اٹھتے ہیں ان کی تشفی کے لئے پھر اگر ماں باپ اور پھر اگر استاد نے بات نہ کی تو ہمارے بچے ’’پُڑیا ‘‘ بنانے والوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے رہیں گے۔ اس لئے خدارا اپنے بچوں کو، اپنے نوجوانوں کو اپنے قریب کیجئے۔ ان کے مسائل کو پوری ذمہ داری کے ساتھ حل کرنے میں ان کی مدد کیجئے ،خود نہیں جانتے تو طبعی ماہرین کی مدد لیجئے۔ عمر کی مناسبت اور طبعی تغیرات کی نوعیت کے حساب سے اپنی نسل کی بہترین پرورش کیجئے ورنہ یا تو آپ کے بچے کسی ویڈیو سے، اپنے جیسے کم علم رکھنے والے ساتھی سے یا کسی پُڑیا بنانے والے کے ہاتھوں دھوکہ کھا بیٹھیں گے۔

جنسیت پہ بات کیجئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).