عشق کی عدالت میں کچھ لاجواب سوال گر پڑے ہیں


ہم ایسے خوش فہم تھے کہ مشال کے قتل ناحق سے خیر برآمد ہونے کے متمنی تھے۔ سوچا کہ مشال تو جان سے گیا پر شاید اس کے خون سے اندھیرے رستے پر اک دیا روشن ہوا ہے۔ ظلمت شب میں کبھی ایک چراغ بھی نوید بن جاتا ہے۔ جو تاریکی میں پیدا ہوئے ہوں انہیں پہلی دفعہ گرد و پیش نظر آتا ہے۔ صبح ایک نہ سمجھ میں آنے والی تمثیل نہیں رہتی، ایک آرزو بنتی ہے۔ جنون، وحشت اور بربریت کے ننگے ناچ پر کچھ وقت لگا پر اقتدار کے ایوان سے لے کر زیدہ کی دھول اڑاتی گلیوں میں وہ آوازیں غلبہ پاتی دکھائی دیں جو انسانی جان کی حرمت کو مقدم مانتی ہیں۔ پر یہ شاید ہماری نظر اور فہم کا قصور تھا۔ اندھیرے میں پیدا ہونے والوں کو روشنی اب بھی چبھتی ہے۔ قفس میں آنکھ کھولنے والوں کو پرواز اب بھی ایک بیماری لگتی ہے۔ قیدی اپنی بیڑیوں سے عشق کرنے لگ جائے تو کون اسے آزاد کرا سکتا ہے۔ جب صیاد محترم ٹہریں اور حریت جرم بن جائے تو زنداں کی چھت ہی آسمان بن جاتی ہے۔ بس وہیں تک کی اڑان ہے، بس پتھر دیواروں تک کی دوڑ ہے۔ یقین نہ آئے تو قاتلوں کی سر عام حمایت میں نکلے جلوس دیکھ لیجیے۔ مقرر کی زبان سن لیجیے۔ امت کے ترجمان اخباروں کی سرخیاں پرکھ لیجیے اور دلیل کے نام پر عشق کی عدالت کا جواز سن لیجیے۔ امید ہے تسلی ہو جائے گی۔

ابھی مشال کی قبر پر ڈالے ہوئے پھول سوکھے نہ تھے کہ پسرور میں تین بہنوں نے بندوق کی نال پر اپنے فہم عشق کا فیصلہ سنا دیا۔ شاید لاش کے جسم سے ابھی خون رستا تھا کہ پورا چترال قاضی بن بیٹھا۔ وہ تو خطیب مولانا خلیق الزمان کی خیر ہو ورنہ مقتل بھی تیار تھا اور جلاد بھی۔ ان کی اس جرات کو سلام۔ پر اہل چترال کی برداشت کا پرچم بلند رہے کہ سوختہ کرنے کو انسان نہیں ملا تو مولانا خلیق الزمان کی گاڑی جلا ڈالی۔ یہ تماشہ نہ سہی تو اور سہی۔ مانگے ہے “کسی کو تو” لب بام پر ہوس۔

کوئی دن گزرتا ہے کہ پھر ایک اور مشال کی لاش اٹھائیں گے۔ احباب عشق اور جہالت میں ابھی بھی فرق نہیں کرتے۔ تاویل اور دلیل کا بازار گرم ہے۔ جو خون ناحق کے بہنے پر فسردہ ہیں، ان کی بات بھی اگر، مگر اور لیکن سے سجی ہے۔ جنہیں اپنی صف میں جانتے تھے ان میں سے کچھ کو جان جانے کا گلہ کم ہے، ملزم کی طہارت سے شکایت زیادہ ہے۔ یعنی اگر دل پاک ہے تو پھر حق ہے، بے شک سڑک پر کسی کے سینے میں چھرا گھونپ دیں۔ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا۔ کھلی، کھری اور سچی بات کی یا تو سمجھ نہیں ہے یا سمجھ ہے تو عزیزوں نے منہ پر تالے لگا ڈالے ہیں کہ اس معاشرے میں حق بات سے بڑا کوئی فساد نہیں اور فساد کا سر کچل ڈالنا ایک معاشرتی فریضہ ہے جسے ادا کرنے کو ہر کوئی بیتاب ہے۔

یہ بات بارہا عرض کی جا چکی ہے کہ کالم کے ہزار بارہ سو الفاظ تحقیق کا نعم البدل نہیں ہیں۔ ہم انگلی تھام کر سفر نہیں کرا سکتے ہاں مقدمہ رکھ سکتے ہیں، راستے کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں، سوچنے کی دعوت دے سکتے ہیں، کچھ حوالے نذر کر سکتے ہیں باقی گھوڑا بھی آپ کا ہے، میدان بھی آپ کا۔ منزل دور ہو سکتی ہے پر طے کرنا ممکن ہے۔ اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور اپنے ذہن سے سوچنے کی عادت ڈالنے کی دیر ہے، سچ خود ہی ہزار پردوں میں عیاں ہو جاتا ہے۔

بات شروع ہوتی ہے قانون کی دہائی سے۔ صالحین کہتے ہیں کہ عدالت چونکہ موت کی سزا دینے سے معذور نظر آتی ہے اس لیے ہجوم کو جواز ملتا ہے۔ حضرت، عدالت تو پکڑے گئے ہزار مبینہ دہشت گردوں میں سے بھی دو تین کو سزا سنا پاتی ہے۔ ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ ہجوم جتھا بنا کر وزیرستان یا افغانستان روانہ ہوا ہو کہ اسلام کا نام بدنام کرنے والوں کو سزا خود دیں گے۔ یہ اچھا عشق ہے جو زور آور کے آگے دھواں ہو جاتا ہے اور کمزور کو جلا کر راکھ کر دیتا ہے۔ پھر یہ تو کوئی بتائے کہ فیصلے سے پہلے گواہی ہوتی ہے۔ گواہی کی جانچ ہوتی ہے۔ ہر دو طرف کا نقطہ نظر سنا جاتا ہے۔ فیصلہ سنانے والا ایک خاص اہلیت کا متقاضی ہوتا ہے۔ ان سب پر خاک ڈال کر ایک سڑک پر شور مچاتے ہجوم کو لمحوں میں فیصلے کا اختیار دینے کا جواز تراشنے والے کاسہ سر تو رکھتے ہوں گے پر اس میں دماغ کی موجودگی پر ہمیں یقین نہیں ہے۔ مجرم کون ہے؟ وہی جس پر آپ انگلی رکھ دیں گے۔ بس یا اس سے آگے بھی کچھ ہے۔ آسیہ یا جنید حفیظ کا فیصلہ قانون کے مطابق کریں کہ عدالت کے احاطے میں موجود عشاق کے نعروں اور راشد رحمان کے سینے میں اتری گولیوں سے ڈر کر کریں۔ آج بھی ہزاروں صرف الزام لگائے جانے کی وجہ سے سلاخوں کے پیچھے پڑے ہیں۔ الزام لگانے والے کا کیا۔ رمشا مسیح کے سر کی مانگ کرنے والوں نے مولوی خالد جدون کے سر سے بال بھی توڑا کیا؟ اچھی عشق کی عدالت ہے بھائی۔

جن قوانین کی حرمت کا سوال ہے ان پر بھی ذرا سوچ تو لیں۔ بات ترمیم یا تنسیخ کی ہے ہی نہیں۔ ذرا اپنے خطاب پر نثار ہونے والوں کو یہ بھی تو بتائیے کہ جس شکل میں آج بلاسفیمی کے قوانین ہمارے یہاں مروج ہیں اس کی مثال دنیا کے 208 ممالک میں صرف 6 ممالک میں ملتی ہے۔ ان میں ستاون آزاد مسلم ممالک بھی شامل ہیں۔ کیا ہمارا فہم دین اور فہم قانون ان سب سے بالاتر ہے؟ دوسرا یہ آپ سے بہتر کون جانتا ہو گا کہ اپنی موجودہ شکل میں اور موت کی سزا کے ساتھ بلاسفیمی یا توہین کے قوانین کی تاریخ مرد مومن کے اقتدار کے نصف النہار سے شروع ہوتی ہے۔ نہ قرارداد مقاصد لکھنے والے دینی ترجمانوں کو یہ قانون سوجھا تھا اور نہ نظام مصطفی کی تحریک چلانے والے نو ستاروں نے ان ترامیم کا مطالبہ کیا تھا۔ نبیؐ کے نام پر تحریک کا ڈول ڈالنے والے کیا اتنے ہی بے خبر تھے کہ انہوں نے پارلیمان کو ایمان کی کسوٹی تو بنا ڈالا پر توہین کو سزائے موت یا عمر قید کا سزاوار ٹھہرانا بھول گئے۔ یہ سعادت انہی حضرت کے حصے میں آنی تھی جو خلاف قانون اقتدار پر قابض ہوئے۔ جو نوے دن کے جھوٹ کے سہارے ایک عشرہ گزار گئے۔ وہ جن کے نزدیک آئین ایک کاغذ کا ٹکڑا تھا اور پارلیمان جن کے پیر کی جوتی تھی۔ یہ کہنا یا سمجھنا کہ آئین کے یہ آرٹیکل جن پر بلاسفیمی کا سارا قانون ٹکا ہے کسی جمہوری سوچ یا منتخب نمائندگان کی آرزو کا ثمر ہیں، انتہا درجے کی خود فریبی ہے۔ یہ جناب ضیاالحق کی فہم دین پر پارلیمان کی ایک اور ربر اسٹیمپ تھی۔ تاہم ایک دفعہ جب قوانین بن گئے تو دینی جماعتوں کے لیے یہ ایک اور نعمت ثابت ہوئے۔ ہر سال دینی اکابر کے بیانات اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ اس کو کیونکر اپنی سیاسی بقا کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ تین عشروں سے زائد میں کسی مخالف کوشش کے نہ ہونے کے باوجود ہر جلسے میں یہ نعرے لگانا کہ ہم ان قوانین میں ترمیم نہیں ہونے دیں گے۔ ہم ان کے خلاف ہونے والی سازشیں ناکام بنا دیں گے۔ ہم اپنی جانیں قربان کر دیں گے، یہ سمجھنے کے لیے کافی ہیں کہ دینی جماعتوں کا موقف مبنی بر اصول نہیں بلکہ مبنی بر سیاست ہے۔

رہی بات اصول کی تو قرآن شروع سے لے کر آخر تک پڑھ جائیے تو توہین کے جرم کا نہ کوئی تذکرہ ملے گا نہ کوئی سزا۔ قرآن کے اسلوب میں یہ کیونکر ممکن ہے کہ قمار بازی جیسی شے کو ناپسندیدہ قرار دینے کا ذکر تو ہو جس کی انتہائی سزا بھی کوئی خاص نہیں پر ایسے جرم کے بارے ایک لفظ نہ ہو جس پر آج یہ دعوی ہے کہ اجماع امت کے مطابق اس کی سزا موت سے کم نہیں۔ سنی فقہ کے نزدیک محترم چھ کتب اور شیعہ فقہ کے نزدیک محترم چار کتب میں بھی کوئی ایسی صحیح اور قوی حدیث نہ ملے جس سے یہ نتیجہ نکالنا ممکن ہو۔ سنن ابو داود کی جس مشہور روایت کا سب ذکر کرتے ہیں اس کو کتنے محقق درست مانتے ہیں، یہ بھی بتانا چاہیے۔ یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ تورات اور انجیل میں ہمیں توہین مذہب جرم کے طور پر مذکور ملتی ہے اور اس کی سزا بھی موت مقرر ہے۔ تاہم قرآن اس ذکر سے خالی ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ ہمارے نزدیک انجیل اور توریت دونوں تحریف سے پاک نہیں ہیں۔ اگر بنیاد قرآن کی آیات محاربہ کو بھی بنائیے جو کہ اصولی طور پر مناسب نہیں پر بر بنائے بحث مان بھی لیا جائے تو بھی وہاں توبہ پر معافی ہے جس کی ہمارے قوانین میں کوئی گنجائش ہے ہی نہیں۔

 پچھلے دنوں ایک شعلہ بیان خطیب جو خادم رسول کہلوانے پر فخر کرتے ہیں۔ کا بیان نظر سے گزرا۔ انہوں نے عبداللہ ابن خطل کا ذکر مثال کے طور پر کیا کہ توہین کے جرم میں اسے اس حال میں قتل کر دیا گیا کہ وہ محفوظ رہنے کی خاطر کعبہ کے پردوں میں لپٹا ہوا تھا اور اس دن جب مکہ میں فتح کے بعد ہر ایک کے لیے عام معافی کا اعلان تھا۔ اس سے نتیجہ یہ نکالا گیا کہ توہین کا مرتکب ہر حال میں موت کا سزاوار ہے۔ مجھے یقین ہے کہ خطیب محترم نے تاریخ اور روایت کا مطالعہ مجھ سے زیادہ کیا ہوگا اس لیے شاید مجھے اچنبھا ہوا کہ وہ کچھ باتیں بھول گئے۔ عبداللہ ابن خطل کی کہانی کچھ یوں ہے کہ انہیں ٹیکس وصولی مہم پر ایک غلام کے ہمراہ مدینہ سے روانہ کیا گیا۔ راستے میں انہوں نے غلام کو قتل کر دیا اور رقم کے ساتھ فرار ہوکر مکہ پہنچ گئے۔ چونکہ یہ معلوم تھا کہ ان کے خلاف غبن اور قتل کا مقدمہ اسلامی اصول کے مطابق تو صرف موت تھا جس کا اعلان مدنی ریاست میں کر دیا گیا تھا تو ابن خطل مرتد ہو کر مکہ میں پناہ گزین ہو گئے۔ فتح مکہ کے وقت وہ مکہ میں موجود واحد شخص تھے جو باقاعدہ ایک اسلامی عدالت سے سزا یافتہ تھے اور اس سزا کا اطلاق کر دیا گیا جیسے ہی وہ گرفت میں آئے۔ باقی اہل مکہ جنگی حریف تھے اور جنگ میں کیے گئے قتل خواہ وہ ہندہ اور وحشی کے ہاتھوں حضرت حمزہ کی شہادت ہی کیوں نہ ہو، جنگ کا ناگزیر لازمہ سمجھے گئے اور اس پر کسی سے تعرض نہیں کیا گیا۔ باقی روایات کا مطالعہ بھی کر لیجیے۔ محققین کی تنقید پر نظر کر لیجیے۔ پھر حقیقت اور فسانے کے بیچ فیصلہ خود کر لیجیے گا۔

سوال یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں جو سخت وقت کاٹا یا طائف میں جو پتھر کھائے یا شعب ابی طالب میں جو بھوک دیکھی، اس دوران کیا ان سے مخالفین نے ان کی توہین کرنے میں کوئی کسر چھوڑی ہو گی۔ اس طرح تو آدھے سے زیادہ قبیلہ قریش تہہ تیغ کر دیا جانا چاہیئے تھا۔ کیا کوئی عبداللہ بن ابی سے بھی زیادہ نبی اکرم کو تکلیف پہنچانے کا موجب تھا جس کا جنازہ خود آپ نے پڑھایا اور اپنی چادر میں دفن کیا۔ یہ سب ہم نے پڑھا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ آپ نے اپنے بدترین دشمنوں کو بھی معاف کیا۔ جو جان لینے والوں کو معاف کر دیتا ہو وہ مغلظات بکنے والے کو قتل کرنے کا کیونکر کہہ سکتا ہے۔ کیا عقل اس بات کو تسلیم کرتی ہے؟ کیا تاریخ اس کی ناقابل تردید گواہی دیتی ہے؟ کوئی یہ سوال بھی عشق کی عدالت کے آگے رکھ دے۔

ملک میں فقہہ حنفیہ کے ماننے والوں کی اکثریت ہے۔ اس لیے اس حوالے سے بھی بات کر لیتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ بھی توہین کو الگ جرم نہیں کہتے تاہم ان کی رائے میں (جو بہرحال نہ قرآن ہے نہ حدیث) توہین کرنے والا ارتداد کے درجے کو پہنچ سکتا ہے۔ اب جیسے ہی لفظ ارتداد ادا ہوتا ہے تو ہر غیر مسلم اس تعریف سے الگ ہو جاتا ہے یعنی غیر مسلموں پر تو یہ جرم کسی درجے میں بھی لاگو نہیں ہوتا۔ رہ گیا سوال ایسے شخص کو جو مرتد سمجھا جائے اس کے لیے بھی عام معافی ہے اگر وہ محض توبہ کر لے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ قرآن کا فلسفہ ارتداد کہیں مرتد کے لیے موت کی سزا تجویز نہیں کرتا لیکن یہ ایک اور بحث ہے۔ تو کیا فقہہ حنفی کے پیروکار آسیہ مسیح پر مقدمہ موقوف کریں گے کہ امام اعظم تو یہی کہتے ہیں؟

آپ کسی عام شخص سے بات کریں تو نہ وہ قرآن کا حوالہ دے گا نہ حدیث کی بات کرے گا نہ فقہی اصولوں سے جواز نکالے گا بلکہ اس کا پورا بیانیہ جذبات کے سہارے کھڑا ہو گا۔ جو دلیل آپ کو سب سے زیادہ سننے کو ملے گی وہ یہ ہو گی کہ اگر کوئی آپ کی ماں یا آپ کے باپ کو گالی دے تو کیا آپ برداشت کر لو گے۔ تو ہم یہ کیسے برداشت کر لیں کہ کوئی اس ہستی کو گالی دے جسے ہم اپنے ماں اور باپ سے بڑھ کر چاہتے ہیں۔

بظاہر اس بیانیے میں کوئی بات غلط نہیں ہے اگرچہ ماں باپ کے حوالے سے آغاز ہونے والی بات میں یہ تعجب ضرور ہے کہ یہ اس قوم کا ذکر ہے جو ماں اور بہن کی گالی کے بغیر اپنے روزمرہ میں ایک جملہ بھی ڈھنگ سے بول نہیں پاتی۔ پر چلیے اس سے قطع نظر یہ بات انسانی نفسیات کے عین مطابق ہے کہ کوئی بھی شخص بیہودہ گوئی پر ردعمل ظاہر کرے گا۔ سوال یہ ہے کہ یہ ردعمل کیا ہوگا۔ کیا ہم گالی کے جواب میں قتل کرنے کا جواز دے سکتے ہیں یا اس کا اختیار رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ سوال بہت اہم ہے کہ ایسی یاوہ گوئی کا نشانہ کون ہے اور اس سے ہماری عقیدت کا نوعیت کیسی ہے۔ یہ تو طے ہے کہ ہماری محبت اور عقیدت کسی بھی درجے میں وہاں نہیں پہنچ سکتی جہاں اسے اس محبت یا عقیدت کے برابر رکھا جا سکے جو صحابہ کرام کو رسول اللہ کی ذات سے تھی تو پہلے تو یہ دیکھ لیں کہ ایسی کسی صورت میں قرآن صحابہ کو کیا ہدایت دیتا ہے۔ کیا ہدایت یہ ہے کہ وہ ایسی محفل سے اٹھ آئیں جہاں ایسا ذکر ہو یا یہ کہ وہ تلوار کا استعمال کریں؟ خود پڑھیے اور فیصلہ کر لیجیے۔ رہی بات کہ کیا رویہ آپ کو یا مجھے اختیار کرنا چاہیے تو وہ بہت سادہ ہے۔ ہر جرم جو ہمارے اردگرد ہو وہ ہمیں ایذا دیتا ہے پر اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہم خود بھی قانون توڑنے کے مرتکب ہو جائیں۔ معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ اور خود بھی اسی صف میں کھڑے ہو جائیں جہاں مجرم کھڑا ہے۔ اس میں کوئی دو آراء کیسے ہو سکتی ہیں۔ جرم کی سزا کا ریاست نے جو بھی تعین کیا ہو اسے ادنی ترین درجے میں دینے کا حق ہمارے پاس نہیں۔ آج یہ ثابت ہونے سے کہ مشال نے کوئی غلط بات کی تھی یا نہیں۔ اس کے قاتلوں کے جرم کی شدت میں کسی پیمانے پر بھی رتی برابر کمی ممکن نہیں تو اب بھی یہ صفائی اور دہائی کیوں دی جا رہی ہے کہ مشال نے کوئی توہین نہیں کی تھی۔ یہ جواب دینے کی ضرورت ہی کیوں ہے۔ یہ بحث کا موضوع ہی کیوں ہے؟

پر سچ جانیے تو یہ سارا مضمون ہی بے معنی ہے۔ یہ سوال صرف اس وقت ممکن ہیں اگر ہم یہ سمجھنے کو تیار ہوں کہ قانون انسان بناتے ہیں۔ وہ درست بھی ہو سکتے ہیں اور اس میں غلطی کا احتمال بھی ہوتا ہے۔ اور اگر ایک قانون کا احترام ضروری ہے تو ہر قانون کا احترام ضروری ہے۔ پر کسی بھی قانون کو عدالت سے باہر عشق کے احاطے میں برتا نہیں جا سکتا۔ قانون ہو یا فتوی۔ اس پر بات کرنا اور مکالمہ کرنا اور رائے دینا سب کا حق ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ضیاالحق کا اور میرا فہم دین ایک ہی ہو۔ لیکن جب ایک بیانیے کو مقدس بنا دیا جائے۔ زبان بندی کے فرامین جاری کر دیے جائیں اور سوچنے والے ذہنوں میں گولیاں اتار دی جائیں تو کوئی کیا بات کرے اور کس سے کرے۔ عشق کی عدالت لگی ہے۔ باقی کام موقوف ہے۔ کان لپیٹیے اور سر جھکائے اپنا رستہ لیں۔ سوچنے والے سر آج کے منصفین کو صرف اس وقت اچھے لگتے ہیں جب شانوں پر نہ دھرے ہوں۔ سر پیروں میں لڑھکتے پھرتے ہیں۔ وہیں کہیں یہ سوال بھی گرے ہیں اور گر کے کھو گئے ہیں۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad