احسان اللہ احسان کی باتیں


سترہ اپریل کو خبر ملی کہ احسان اللہ احسان نے خود کو سیکیورٹی فورسز کے حوالے کر دیا ہے۔ یہ بہت بڑی اور اہم خبر آپریشن ردالفساد کی ایک نمایاں پیشرفت سمجھی گئی۔ پھر اقبالی بیان سامنے آ گیا۔ اس میں ایک فریش چہرے کے ساتھ کیمرے کے روبرو گفتگو ہوئی۔ ٹیکنیکلی وہ بیان اپنی اہمیت سے زیادہ ہائپ پیدا کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ وہ ایک زیرحراست مجرم کا اقبالی بیان تھا، دوران سماعت عدالت کے سامنے بھی اگر یہی بیان قائم رہتا ہے تو اصولاً اس وقت اس کی اہمیت مسلم ہو گی اور اسے اقوام متحدہ میں اٹھایا جانا چاہئیے۔ اس بیان میں بھارت، افغانستان، اسرائیل اور چند مغربی ممالک کو طالبان کا سب سے بڑا سپورٹر بتایا گیا۔ دہشت گردی کی ہر کارروائی پر باقاعدہ پیسے وصولنے کا اعتراف کیا گیا۔ یہ تاثر بھی ابھرا کہ جب تک بھارت نے مدد نہیں کی تب تک احسان اللہ کا ضمیر مطمئن تھا، جیسے ہی وہاں سے پیسے آنا شروع ہوئے ایک دم خیال آیا کہ اوہو یہ تو ہم کفار کی مدد کر رہے ہیں، تو بس پھر ضمیر نے ملامت کی اور واپسی کا سفر شروع ہوا۔

اسی طرح جب طالبان کی امارت کا فیصلہ بذریعہ قرعہ اندازی ہوا تو بھی مزاج پر گراں گزرا کہ یہ کیا بات ہوئی، اب قیادت کے فیصلے بذریعہ فال نکالے جائیں گے، ایک مرتبہ پھر مورال ڈاؤن ہوا۔ فیوچر برائٹ نہ دیکھتے ہوئے آخرِ شب رختِ سفر باندھا گیا اور بس چند دن بعد یہ ویڈیو آ گئی۔ ایسے ایسے موتی رولے کہ بندہ بچشم نم سنتا جائے اور گریہ کرتا جائے۔ کہا وہ شخص امیر بنایا گیا کہ جس نے استاد کی بیٹی سے زبردستی شادی کی اور ساتھ لے گیا، ایسے لوگ اسلام کی کیا خدمت کر سکتے ہیں۔ گویا وہ کام جو پچھلے کئی برس طالبان پاکستان میں کرتے رہے، وہ اسلام کی خدمت تھی۔ بیان دینے کے دوران ہی نہ معلوم کیا خیال آیا کہ ایک جگہ “طالبان اسلام کے نام پر نوجوانوں کو گمراہ کرتے رہے” کی سٹیٹمینٹ آئی اور بہرحال یہ اس تقریر کا اہم ترین نکتہ تھا۔ یعنی کچھ دیر پہلے ان لوگوں سے گلہ تھا کہ جو زبردستی بھگا کر شادی کرے وہ دین کی خدمت کیا کرے گا اور کچھ وقت بعد اندازہ ہوا کہ سب مایا ہے، خدمت شدمت کچھ بھی نہیں، طالبان نے اسلام کے نام پر اگر کچھ کیا بھی تو نری گمراہی ہی پھیلائی، ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں۔

یوں ہے کہ لکھنے والے کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں۔ یا تو اس پر بات کی جائے جو عقل کہتی ہے، یا اس پر شور مچایا جائے کہ جو آندھی جذبات کی چلتی ہے۔ کامیاب عقل ہو یا جذبہ، یہ وقت بتاتا ہے۔ خسارے میں رہنے والوں کی عقل کیا اور جذبہ کیا، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی، بس کچھ حساب گزرے وقت کا دیکھنا باقی ہے، آگے خدا بہتری کرے گا۔

سوال یہ ہے کہ جن دنوں طالبان کا عروج تھا اس وقت انہیں تاابد قیام کی سند کس نے بخشی؟ جب دنیا دہشت گردی کی مذمت کرتی تھی اور لوگ اس کی وجوہات بتایا کرتے تھے، جب ہر دھماکے پر ایک فریق کہتا تھا کہ یہ کھلا ظلم ہے، وحشت ہے، بربریت ہے، تشدد ہے تو دوسرا یہ کیوں کہتا تھا کہ بھائی، جو ڈرون حملے ہو رہے ہیں، یہ بس اس کا جواب ہے۔ جب لوگوں کے بچے اور ہمارے فوجی جوان مذہب کے نام پر مارے جاتے تھے تو بڑے بڑے علما و دانشور واضح مخالفت سے ہچکچاتے تھے، یہ تک نہیں کہا جاتا تھا کہ اسلام امن کا مذہب ہے، اور یہ وحشی لوگ مسلمان نہیں ہیں۔ دین پاک کی بنیادی تعلیمات کو اس قدر گڈمڈ کیا جاتا تھا کہ طالبان کا اسلام بھی ٹھیک نظر آتا تھا اور بے چارے مرنے والوں کا مذہب بھی ٹھیک ہوتا تھا۔ اگر اس وقت وہ سب ٹھیک تھا تو آج یہ کون ہیں جو انہی لوگوں کی مخالفت میں دلائل دیتے اور لکھتے نہیں تھکتے؟ یعنی جب احسان اللہ کو خیال آیا کہ یہ دین کی خدمت نہیں، اللہ کی مخلوق پر نرا ظلم ہے، لگ بھگ اسی کے آگے پیچھے سبھی کی نیت بندھ گئی کہ اب بہت ہو گئی، مذہب کے نام پر یہ مذاق اب نہیں دہرایا جائے گا۔ چہ فہم دین است!

پھر وہ گڈ طالبان اور بیڈ طالبان والی کہانی شروع ہوئی، اس وقت بھی مخالفت کرنے والوں نے سر پیٹ لیے۔ ہزارہا چیخے، ہر پلیٹ فارم پر روئے، ردالی بن گئے کہ بھئی یہ سارا کام غلط ہو رہا ہے لیکن شاید خدا کو یہی منظور تھا۔ ہو گیا، اسی کشمکش میں اے پی ایس ہوا، چارسدہ سانحہ ہوا، کوئٹہ کے وکیلوں کی لاشیں ایمبولینس ڈھونڈتی رہیں، پاراچنار تو ڈولتا ہی رہتا ہے، اور ان گنت تکلیف دہ واقعات ہوئے لیکن لکھنے والے دور تاریخ کی کوڑیاں لاتے، کچھ گوٹیاں حال کی سمیٹتے، کچھ پیش گوئیاں غضب ناک انداز میں مستقبل کی کرتے اور مکس پلیٹ بکتی رہتی۔ دلیلیں دینے والے دیتے گئے، ہلاک ہونے والے ہوتے گئے، یہ خون خاک نشیناں تھا، رزق خاک ہوا۔

تاریخ کا سبق یہ ہے کہ تاریخ کا سبق کوئی سیکھتا نہیں ہے اور وہ اپنے آپ کو دہرائے جاتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ پنیریاں بزرگ بو گئے اور فصل ہم کاٹتے ہیں، پنیریاں آج بھی لگائی جا رہی ہیں، بیج آج بھی بوئے جاتے ہیں، آنے والے سمیٹیں گے اور ہمیں دعائیں دیں گے۔ ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے۔ دنیا جتنی بائی پولر آج ہے، جتنی انتہا پسند آج ہے، اتنی کبھی نہیں تھی۔ ٹرمپ کا امریکہ میں جیتنا یا مودی حکومت کا بھارت میں مضبوط تر ہوتے جانا، یہ سب بلا جواز نہیں ہے۔ تیسری عالمی جنگ کب کی شروع ہو چکی، انسان بھی مر رہے ہیں، ہجرتیں بھی ہو رہی ہیں، پناہ گزین بھی موجود ہیں، بم بھی گرائے جا رہے ہیں، گرفتاریاں بھی ہوتی ہیں لیکن سب کچھ پھیلا ہوا ہے۔ جیسے ایک زمانے میں گوریلا جنگ ہوا کرتی تھی جو مخصوص علاقوں میں چھاپہ مار لوگ کیا کرتے تھے اور کرنے کے بعد جنگلوں میں چلے جاتے تھے، ویسے ہی یہ جنگ ہے۔ یہاں گوریلوں کے بجائے عالمی طاقتیں ہیں، میدان جنگ غریب غربوں کے ملک ہیں اور لٹنے والے بھی وہی ہیں۔ بڑے ملکوں میں عوام کو چھوٹے چھوٹے ٹریلر دکھا کر رائے عامہ ہموار کی جاتی ہے اور نتیجہ آنے پر اہم ترین میڈیا چینل بھی انگشت بدنداں ہوتے ہیں، چھوٹے ملکوں میں پوری فلم دیکھنے کے بعد بھی سمجھ نہیں آتا کہ انجام پر رویا جائے یا ہنسنے کا مقام ہے۔ خوفناک بات یہ ہے کہ دنیا کی یہ ساری غیر متوازن طاقتیں دائیں پلڑے میں سمٹتی جا رہی ہیں، وہ دایاں بازو کہ جس کی منتہائے مقصود بنیاد پرستی ہے، جس کے نزدیک مخالف کے پاس جا کر بات سننے سے بہتر اس کے کان کاٹ کر اپنے پاس لانا اور حکم سنانا ہے۔

کسی بھی جنگ کی عقلی دلیل دینا ممکن نہیں ہے۔ کبھی ڈرا کر جنگ کی جاتی ہے، کبھی ڈر کے لڑتے ہیں، کبھی وطن کے نام تو کبھی بے وطنی لڑواتی ہے، کبھی کلچر کا سوال اٹھتا ہے، کبھی مذہب کو بنیاد بنایا جاتا ہے لیکن قومیں حالت جنگ میں رہنا پسند کرتی ہیں۔ ایٹم بم کے بعد سے فیصلہ کن جنگ تو شاید ممکن نہ ہو مگر اعصابی اور گوریلا جنگ پوری دنیا پر مسلط ہو چکی ہے۔ پاکستان میں اس لڑائی کے سہولت کار کون ہوئے اور کس نے مخالفت کی، یہ فیصلہ ہر گزرتا لمحہ مزید صاف طریقے سے دکھلائے گا۔ بنیادی عقائد اور مذہب کا احترام کون نہیں کرتا، یہ تو وہ معاملات ہیں کہ جن کا تعلق ہی اندرونی کیفیات سے ہے، جو نہ دلیل مانگتے ہیں اور نہ کسی بحث کی گنجائش ہے۔ لیکن اسی چیز کو بنیاد بنا کر کوئی گروہ اپنی ذاتی خواہشات ایک پورے ملک پر مسلط کرنا چاہے، تو اس پر بات کی جا سکتی ہے، اور کی گئی۔ اور بس یہی ساری بات ہوتی تھی جو ایک جملے میں احسان اللہ احسان نے لپیٹ دی کہ طالبان اسلام کے نام پر نوجوانوں کو گمراہ کرتے رہے۔ لمحہ موجود کا اہم ترین تقاضا فہم دین کا ہے۔ معتدل مزاج علماء ہی یہ کارخیر سرانجام دے سکتے ہیں، چاہے ریاستی سرپرستی حاصل ہو یا قومی فریضہ سمجھ کر یہ کام کیا جائے، یہ کام اب ہو جانا چاہئیے۔ مذہب کو نعرہ مت بنائیے نہ اس کی آڑ لیجیے، اسے آب بقا رہنے دیجیے۔

بس کر میاں محمد بخشا ، موڑ قلم دا گھوڑا

ساری عمرے دُکھ نئیں مُکنے ، ورقہ رہ گیا تھوڑا

یکم مئی 2017

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain