ممتاز دانشور اور بائیں بازو کے عظیم رہنما عابد حسن منٹو کا خصوصی انٹرویو (1)


آٹھ دہائیوں پر مشتمل بھرپور تحریکی زندگی گزارنے والے اس شخص سے مل کر لگتا ہے کہ بڑھاپے نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا۔ وہ استوار لہجے میں دلیل کے ساتھ بات کرتے ہیں۔ مکالمے کے دوران وقفے وقفے سے ان کے چہرے پر پھیلتی شگفتہ مسکراہٹ ماحول میں تازگی کا احساس دلاتی ہے۔ یہ عابد حسن منٹو ہیں۔ پاکستان کے ممتاز وکیل اور بائیں بازو کے نمایاں سیاست دان۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے سبھی نشیب وفراز انہوں نے کھلی آنکھ سے دیکھ رکھے ہیں۔ گنگا ہائی جیکنگ اورحیدرآباد سازش کیس جیسے تاریخی نوعیت کے حامل کئی مقدمات میں بطور وکیل پیش ہوتے رہے ہیں۔ سیاسی جد وجہد کے دوران پس دیوار زنداں بھی دھکیلے گئے۔ عابد حسن منٹو کے تجربات و مشاہدات جاننے کے لیے چند دن قبل ماڈل ٹاؤن لاہور میں واقع ان کی رہائش گاہ میں ان کے ساتھ تفصیلی نشست ہوئی۔ بات ان کی سیاسی فکر سے شروع ہوئی اور کئی موضوعات تک پھیلتی چلی گئی۔ میں نے پوچھا کہ پون صدی قائم رہنے والا سوشلسٹ بلاک ٹوٹ گیا تو کیا یہ سمجھ لینا چاہیے کہ سوشلزم اپنی موت آپ مرچکا ؟ انہوں نے قدرے اطمینان کے ساتھ سوال سنا اور اپنی بات کچھ یوں شروع کی۔

’’مارکس ازم 1917ء پر فِکس نہیں‘‘
سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے سے سوشلسٹ کیمپ ختم ہو گیا تھا۔ سوشلسٹ کیمپ کی شکست و ریخت کے بعد بائیں بازو کے کچھ سربرآوردہ لوگوں نے کہا کہ یہ زوال کچھ وجوہات کی بنیاد پر ہے، یہ سوشلزم کی شکست نہیں ہے۔ پھر ٹھیک دس سال بعد بلکہ نوے کے دہائی کے آخری برسوں میں ہی لاطینی امریکا میں ہیو گو شاویز وغیرہ کی قیادت میں سوشلزم کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی۔ کیوبا میں فیدل کاسترو بھی اس نئی لہر کی مثال تھے، معاشی ناکہ بندیوں اور محدود وسائل کے باجود وہ قائم رہے۔ پھر نئی صورت حالات کو دیکھ کر دنیا بھر کے سوشلسٹوں کے ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ یہ نیا سوشلزم کیا ہے؟ اس نوع کے کئی سوالات پیدا ہوگئے۔ کئی ملک اس نئی لہر کے زیر اثر تھے۔ اس کے بعد جب سرمایہ داری دنیا میں بحران آئے تو خود سرمایہ داریت کے حامی ماہرین نے کہا کہ یہ ماضی سے مختلف بحران ہے۔ یہ عالمی معاشی بحران کا حصہ ہے اور اس کو دستیاب نظام میں ٹھیک کرنا مشکل ہے۔ اس صورت حال میں اس دھرتی پربرنی سینڈرز جیسے سوشلزم کا نام لینے والے لوگ پیدا ہو گئے۔ 1917ء میں جس قسم کا سوشل ازم لایا گیا تھا، اب سو برس بعد اس کی ہیئت اُسی طرح کی نہیں ہوگی، تقاضے بدل چکے ہیں۔ مارکس ازم کی بنیاد اس بات پر ہے کہ دنیا بدلتی ہے، اس کے سیاسی و معاشی رجحانات بدلتے ہیں، اس کے مطابق سوسائٹی آگے کی طرف جاتی ہے۔ مارکس ازم کوئی جامد عقیدہ نہیں۔ اس کی اساس یہ ہے کہ ہم نے طبقاتی معاشرے کو ختم کرنا ہے۔ کیسے کرنا ہے ؟ اس کے راستے ہر جدید زمانے اور معاشرے میں مختلف ہوں گے۔ آج کی دنیا کے مختلف خطوں میں مارکسزم کی بنیاد پر اصلاحات کے طریقے وہاں کے حالات اور نظام کار کو دیکھتے ہوئے کیے جاسکتے ہیں۔ اس لیے یہ سمجھنا کہ سوشلزم 1917ء کے واقعے پر فکس ہوئی ہے، درست نہیں۔
’’سوشلسٹ بلاک ٹوٹنے سے میرے خواب بھی بکھرے‘‘
خواب کس کے بکھرے؟جو لوگ سوویت یونین کے ساتھ جذباتی طور پر وابستہ تھے انہی کے خواب زیادہ بکھرے لیکن یہ قدرتی عمل ہے کہ میرا خواب بھی بکھرا، اس لیے کہ سوشیو پولیٹیکل پلیٹ فارم پر کھڑی اتنی بڑی سلطنت کچھ داخلی تضادات حل نہ کر سکنے کی وجہ سے فیل ہو گئی تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس ناکامی کی وجوہات کی جانچ ہونی چاہیے۔ ایک ایسی ریاست جس نے سب لوگوں کو روزگار، تعلیم اور صحت کی سہولیات دیں تو پھر وہ 70سال بعد ناکام کیوں ہو گئی۔ مارکسزم ہمہ وقت سوال اٹھاتا رہتا ہے کہ موجودہ وقت میں کن تقاضوں کو ایڈریس کرنا چاہیے۔
’’ جو بھی استعماری قوتوں کا مخالف ہے وہ لیفٹسٹ ہے‘‘
دنیا میں قائم استعماری (جیسا کہ ابھی تک موجودامریکن بلاک )اور ان تمام قوتوں جن کی یہ کوشش ہے کہ تیسری دنیا تیسری ہی رہے اوروہ اس کا خون نچوڑتے رہیں، بین الاقوامی تناظر میں ان سب قوتوں کی مخالفت کرنے والا بائیں بازو کا سمجھا جائے گا۔ دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ مخالفت تو آپ کر رہے ہیں لیکن آپ چاہتے کیا ہیں؟ آپ کا ورلڈ ویو کیا ہے؟اگر آپ سوشلزم کے لیے 1917ء سے لے کر آج تک کے کامیاب و ناکام تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک نئے انداز میں کام کرتے ہیں تو آپ آج کے لیفٹسٹ ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ ماضی میں مزدور طبقے کی آمریت قائم کر دی گئی تھی۔ کیا کارل مارکس سمجھتے تھے کہ ہمیشہ مزدوروں کی آمریت قائم رہے گی۔ تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔
’’چین سوشلزم سے منحرف نہیں ہوا، پالیسی شِفٹ ہے‘‘
گفتگو کا رُخ چین کی بدلتی پالیسیوں کی طرف مڑا تو کہا:ابھی چائینیز کمیونسٹ پارٹی کی آخری کانگریس میں کہا گیاکہ ہم نے اتنا بڑا انقلاب کیا جو 1930ء سے شروع کر 1949ء تک پہنچ کر منتج ہوا، اس وقت ہم سمجھے کہ ہمارے ملک پر اب ہمارا قبضہ ہو چکا ہے، اب ہم نے یہاں سوشلزم نافذ کر دیناہے لیکن اب ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سوشل ازم یوں نہیں ہوتا، سوشلزم کی پہلی شرط یہ ہے کہ آپ لوگوں کو کھانے پینے سمیت بنیادی ضروریات زندگی دیں گے اور کھانے پینے کی چیزیں تو آپ کے پاس ہیں نہیں، آبادی ایک بلین سے اوپر ہے اور اکثریت دیہات میں رہتی ہے۔ اس صورت حال میں ہمی کیا کرنا چاہیے۔ اب انہوں نے اپنی نئی پالیسی ترتیب دی ہے۔ ان پر تنقید ہوئی کہ آپ اپنے راستے(سوشلزم ) سے ہٹ گئے ہیں تو انہوں نے کہا ہم پیچھے نہیں ہٹے بلکہ ہم نے لوگوں کو جو دینا ہے اس کو پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
’’سوشلزم کا نعرہ ہمارے سماج میں اجنبی نہیں ‘‘
سوال یہ تھا کہ سوشلزم کا نعرہ ایک ایسے سماج میں کیسے پنپ سکتا ہے جہاں اکثریت مذہب کو مانتی ہو؟عابد حسن منٹو نے کہا :ہم نے اپنے ملک میں اجنبی آوازیں انگریزوں کے دور سے سننا شروع کیں۔ جس قسم کی جمہوریت یہاں موجود ہے، اسلام میں تو اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ وہاں تو شورائی حکومتیں تھیں۔ اس قسم کی جمہوری پارٹیاں نہیں تھیں، اس قسم کے الیکشن نہیں تھے، یہ سب ہم نے قبول کیا۔ اب سوائے دائیں بازو کے انتہائی رجعت پسند لوگوں کے کوئی ایسا نہیں جو یہ کہتا ہو کہ جمہوریت نہیں ہونی چاہیے۔ جمہوریت تو سترھویں اٹھارھویں صدی کی پیداوار ہے اور سرمایہ دارنہ نظام میں داخلی سطح پر آنے والی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔ یہ سرمایہ داروں کے اپنے مفاد میں ہے۔ یہ ہمارے آئین کا حصہ بھی بنی، آئین اسلام کی بات کرتا ہے لیکن جمہوریت اس کی بنیادی شق ہے۔
’’ طبقاتی نظام سے پاک جمہوریت کا سوشلزم سے تضاد نہیں‘‘
جب آپ سماج کو ایک راستے پر چلانے کے قابل ہو جاتے ہیں اور تبدیلی کے ابتدائی درجے طے کر لیتے ہیں تو پھر آپ کو لوگوں کو انوالو کرنا پڑے گا۔ اپنی پارٹیوں اور سماج کے اندر جمہوری عمل جاری کرنا پڑے گا۔ کمیونسٹوں کی جانب سے ماڈرن ڈیموکریسی کی مخالفت صرف اس حد تک ہے کہ ماڈرن جمہوریت سرمایہ دارانہ نظام کے تحت کام کرتی ہے جس کا فائدہ سرمایہ دار طبقات اٹھاتے ہیں، اگر طبقات کو ختم کر دیا جائے تو پھر جمہور کو انوالو کرنے میں حرج ہی کیا ہے۔
’’آمریت کے مقابلے میں ہم سرمایہ دارانہ جمہوریت کا ساتھ دیتے ہیں‘‘
جب تک سرمایہ داری نظام ملک میں موجود ہے تو یہ حقیقت ہے کہ اس کے ٹُولز سرمایہ داروں کے پاس ہیں لیکن سمجھنا چاہیے کہ جمہوری حقوق صرف الیکشن نہیں ہوتے۔ ہمیں آئین نے رائٹ ٹو آرگنائز دیا ہے اور اپنے نظریات کے پرچار کی آزادی دی ہے، یہ جمہوریت کا حصہ ہے۔ جمہوریت کے بہت سارے ایسے پہلو ہیں جنہیں بایاں بازو اور نچلے طبقات اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود جب تک جمہوریت سرمایہ دارانہ نظام کے تحت چلتی ہے تو اس کے بنیادی مفادات سے صرف سرمایہ دار ہی مستفید ہوتے ہیں۔ وہی حاکم رہتے ہیں۔ اس لیے ہم اسے سرمایہ دارانہ جمہوریت کہتے ہیں لیکن جب اس سرمایہ دارانہ جمہوریت کو توڑ کر مارشل لاء لگتا ہے تو ہم سب اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ کوئی بائیں بازو کاآدمی پاکستان میں مارشل لاء کو درست کہنے والا نہیں ملے گا۔ میں تو کہتا ہوں کہ ہماراملک اتنا پس ماندہ ہے کہ یہاں ابھی تک ایلیمنٹری ماڈرن انسٹی ٹیوشنز(اسمبلی اور بالادست عدالتیں) صحیح طرح سے قائم نہیں ہو سکے ہیں۔ ان اداروں کو کوئی چھیننے کی کوشش کرے گا تو اس کے خلاف ہم کھڑے ہوں گے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ تیسری دنیا کو تیسری دنیا سے آگے لے جانے کے اسباب پیدا کیے جائیں۔ میں نے پوچھا: گویا آپ چھوٹی مصیبت(سرمایہ دار جمہوریت) اختیار کرتے ہیں تو کہا’اختیار نہیں کرتے بلکہ چھوٹی مصیبت کا اس وقت تک دفاع کرتے ہیں جب تک وہ بڑی مصیبت کے ساتھ لڑ رہی ہو ‘
’’پاکستان میں حکومتیں جاگیراداروں کی مدد سے بنتی ہیں اس لیے زرعی اصلاحات نہیں ہوتیں‘‘
جاگیرداری نظام کے خاتمے میں سب سے بڑی مجبوری یہ ہے کہ ہم اسے کسی انقلاب کے ذریعے تو نہیں توڑ رہے بلکہ آئینی و قانونی راہ سے جد وجہد کر رہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اسمبلیاں اور قانون انہی لوگوں کے ہاتھ میں ہیں۔ آخری عام انتخابات (2013ء)کا جائزہ لے لیں اور دیکھیں کہ اکثر منتخب ہو نے والے افراد کا تعلق فیوڈل اسٹاک سے ہے۔ حتیٰ کہ ہمارے ملک میں نئے بورژوائی(ہمارے ہمسائے نواز شریف وغیرہ ) بھی منتخب ہوئے تو یہ بھی جاگیر داروں کے بغیر اپنی حکومت نہیں بنا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سسٹم کے اندر رہتے ہوئے جاگیرداری کے خلاف مؤثر کام نہیں ہوسکتا۔ ماضی جو ایک دو بار زرعی اصلاحات کی گئیں وہ صحیح طور پر نافذ نہیں کرنے دی گئیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری فوج(جس کے بہت سے کاموں کی ہم تعریف بھی کرتے ہیں) خود زمینوں کی مالک ہے۔ اب ظاہر اگر آپ زمینوں کے مالک ہوں گے، ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹیز چلائیں گے تو پھر آپ ان کا دفاع ہی کریں گے۔ یہ سارا سیٹ اپ زرعی اصلاحات کے خلاف کھڑا ہے۔
’’مرکزی دھارے میں نظریاتی ہم آہنگ پارٹی نہ ہونے کہ وجہ سے ٹریڈ یونینز منتشر ہیں‘‘
پاکستان میں ٹریڈ یونین کی کمزوری کی وجہ یہ ہے کہ ٹریڈ یونین پولیٹیکل ویکیوم میں کام نہیں کر سکتی، پاکستان میں کسی ایسی نمایاں سیاسی پارٹی کی عدم موجودگی میں، جو مزدور طبقے کے ساتھ تعلق رکھتی ہو، ٹریڈ یونین پروفیشنل ازم بن جاتی ہے، انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ اور یہ سب ایسی سوسائٹی میں ہوتا ہے جہاں ساری کی ساری سیاسی قوتیں ان کے خلاف کھڑی ہوتی ہیں۔ پھر وہ ان قوتوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں، اسی سے ٹریڈ یونین ازم تباہ ہو جاتی ہے، دھڑے بن جاتے ہیں اور یہ مراعات حاصل کرنے کے ہتھکنڈوں کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔
’’انجمن ترقی پسند مصنفین کا ایک گروہ عقیدت پرست تھا‘‘
ذرا پیچھے ماضی کی جھروکوں کا رخ کیا اورانجمن ترقی پسند مصنفین میں 40ء کی دہائی کے آخری برسوں میں پڑ جانے والی تفریق کی وجہ جاننا چاہی تو کہا:یہ فرسودگی کا سوال ہے، یہ تمام لو گ وہ تھے جو اپنی سیاسی فکر کو عقیدہ بنا لیتے ہیں، وہ دراصل مذہبی روایت کی بنیاد پر سیاست کرتے ہیں، سیاست میں مذہبی عقیدہ نہیں چلتا، عقیدے کی بنیاد تو ان چیزوں پر ہے جس سے آپ انحراف نہیں کر سکتے لیکن یہ کہ نظام ریاست کیا ہو گا، نظام حکومت کیا ہو گا، یہ چیزیں تو عقیدے کا حصہ نہیں ہو سکتیں۔ یہ چیزیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں، ہمارے ہاں یہ ساری چیزیں عقیدے کا حصہ بنا دی گئی ہیں۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کا ایک گروہ عقیدہ پرست تھا، انہوں نے 1935ء کے ترقی پسند مصنفین کے منشور کو تسلیم کیا تھا۔ تقسیم کے بعد بہت سے ترقی پسند اہل دانش جو پاکستان میں رہ گئے تھے، انہوں نے ذہنی طور پر تقسیم کو قبول نہیں کیا، ابھی تک ایسے لوگ موجود ہیں، جو دلی طور پر تقسیم کو قبول نہیں کرتے۔
’’پاکستان کی تشکیل پر ایمان بننے کا سبب کیمونسٹ پارٹی کا فیصلہ بھی تھا‘‘
1946ء کے آخر میں مسلم لیگ کافی متحرک تھی، میں اس وقت راولپنڈی میں تھا، مجھے بتایا گیا کہ کمیونسٹ پارٹی انڈیا نے تقسیم کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ میرے لیے بڑی ری انفورس منٹ کا باعث تھا، میرا پاکستان کی تشکیل پر ایمان بننے کا سبب کمونسٹ پارٹی کا یہ فیصلہ بھی تھا۔ پھرجب پاکستان بن گیا تو اس ملک کی مخالفت کرنے کا میرے پاس کوئی جوازنہیں تھا، اس میں کیا نظام نافذ کرنا ہے اس پر بحث البتہ ہو سکتی ہے۔ میں تقسیم کے دنوں قریب 15 برس کا تھا۔ پاکستان بنانے کے حق میں جلوس نکل رہے تھے۔ میں بھی ایک جلوس میں والد کے ہمراہ تھا، جب قیادت گرفتار ہوئی تو ساتھ ہم بھی پکڑے گئے۔ چھ سات دن بعد مجھے چھوڑ دیا گیا۔ یہ میری پہلی اسارت تھی۔ میں اس سارے عمل میں شامل رہا لیکن بہت سارے بائیں بازو والے ذہنی طور پر تقسیم کو قبول ہی نہیں کر سکے تھے کیونکہ وہ تحریک کا حصہ تھے ہی نہیں، وہ کانگریس کے قریب تھے باوجویکہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا فیصلہ تھا کہ پاکستان کی حمایت کی جانی ہے۔

’’سکھ نوجوان گلی سے نکلا تو مشتعل ہجوم نے اسے قتل کر دیا‘‘
تقسیم کے زمانے میں راولپنڈی پنجاب کے اس حصے سے تعلق رکھتا ہے جہاں نہ تو کوئی بڑی زمینداری تھی، نہ کوئی انڈسٹری تھی، اور نمایاں طور پر یہ فوجی علاقہ تھا، فوج کی بھرتی ٹریننگ وغیرہ سب یہیں ہوتا تھا، تقسیم سے پہلے جب یہاں مسلم لیگ بنی تو اس وقت مسلم لیگ کے اندر یہ جھگڑا پڑا کہ ہمیں ایک نیشنل گارڈ بنانی چاہئے، یہ 45/46ء کی بات ہے۔ میرے والد کا کہنا تھا کہ یہ سیاسی پارٹی ہے، اس میں گارڈز کا کیاکام، لیکن دوسرے لوگوں کی رائے الگ تھی، انہیں مسلمانوں کی احیاء کے مختلف ادوار سے متعلق اسلامی جرنیل یاد آتے تھے۔ مختصر یہ کہ نیشنل گارڈ بن گئی، وہ روزپریڈ کرتی تھی۔ ان دنوں راولپنڈی ضلع کے کسی کونے( شاید کہوٹہ) میں ایک مسلمان قتل ہو گیا۔ اس کے ردعمل میں راولپنڈی کی نیشنل گارڈ نے ایک جلوس نکالا جس میں ننگی تلواروں کے ساتھ وہ شریک تھے۔ پھر ایک سلسلہ وار ردعمل شروع ہوا۔ اس زمانے میں ہمارے داد کا گھر اس محلے میں ایسی جگہ پر واقع تھا جس کے آگے میدان تھا، وہاں چند قبریں تھیں (جو جعلی تھیں، انگریزوں کے زمانے میں وہ وہاں ایک مشنری ادارہ چرچ بنانا چاہتے تھے، مسلمانوں نے رات راتوں وہاں قبریں بنا دی تھیں) وہ اب بھی ہیں۔ اس میدان کے ایک سرے پر ہم مقیم تھے، سامنے والی گلی میں ہندو رہتے تھے جو اتفاق سے سب کے سب کیمونسٹ پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ انہی دنوں کی بات ہے کہ ایک سکھ نوجوان ہمارے گھر کی پچھلی گلی سے نکل کر اس میدان میں سے جا رہا تھا، وہ ڈرا ہوا لگتا تھا، جونہی وہ بیچ میں پہنچاتو پچھلی گلیوں سے تلواریں سونتے ہوئے لوگ نعرے لگاتے ہوئے نکلے۔ وہ کہہ رہے تھے ہم نے اس کہوٹہ والے قتل کا بدلہ لینا ہے، یہ منظر میں نے خود اپنے گھر کی چھت پر کھڑے ہو کر دیکھا ہے، پھر اس سکھ شخص کو میری آنکھوں کے سامنے قتل کر دیا گیا۔
’’48ء میں میرے والد دلبرداشتہ ہو کر مسلم لیگ سے الگ ہو گئے تھے‘‘
قائد اعظم کی 11 اگست47ء کی تقریر بہت ذکر ہو چکی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اب پاکستان بن گیا ہے، اب ہمیں یہاں دوسرے لوگوں (اقلیتوں)کے بارے میں بھی سوچنا ہے۔ ان کے حقوق کا بھی خیال رکھنا ہے۔ میں 1932ء میں راولپنڈی میں پیدا ہوا، 1942ء تک ہمارا خاندان کانگریس میں تھا۔ اس کے کچھ عرصے بعد ہمارے والد مسلم لیگ میں چلے گئے اوراس کے لیڈر بنے۔ لیکن آپ غورکریں کہ 42ء میں پارٹی کی بنیادیں کھڑی کرنے اور47ء میں ملک بنانے کے بعد کیوں 1948ء میں میرے والد مسلم لیگ سے دلبراداشتہ ہو کر الگ ہوگئے تھے۔ دراصل مسلم لیگ ان کے ذہن میں موجود تصور(جو قائداعظم کے تصور کے ہم آہنگ تھا) کے مطابق نہیں چل رہی تھی۔
’’رویے میں اعتدال دادا کی خاموش تربیت کا نتیجہ ہے‘‘
میری پرورش میں ایک اور بڑا اثر ہمارے دادا کا پڑا ہے، وہ وکیل تھے اور 1904/5ء سے وکالت کر رہے تھے۔ ہمارے کنبے میں 46ء تک جوائنٹ فیملی سسٹم قائم رہا جب تک کہ انہوں نے وہ گھر بیچا نہیں۔ ہمارے دادا پُھندے والی ترکی (رومی)ٹوپی، بند گلے کا کوٹ اوربڑی چمکدار برکابی زیب تن کرتے تھے، پانچ وقت کے نمازی تھے لیکن انہوں نے اپنے خاندان میں کسی کو نظریات کے حوالے سے مجبور نہیں کیا۔ ان کے سب سے چھوٹے بیٹے کیمونسٹ پارٹی کے رکن تھے اورآل انڈیا اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے لیڈر تھے، دوسرے محمود منٹو صاحب علامہ عنایت اللہ مشرقی کے خاکساروں میں شامل ہو گئے تھے۔ میرے والد پہلے کانگریس اور پھر مسلم لیگ میں آگئے تھے۔ یہ ہمارے گھر کا تنوع تھا۔ ہم نے اس وقت یہ سیکھا تھا۔
’’جب میں میلاد النبیؐ کے جلسے میں تقریر کرتے ہوئے ایک لفظ پر رُک گیا تھا‘‘
میرے نظریات 1949/50ء سے بننے شروع ہوئے۔ ساٹھ برس گزر جانے کے بعد وہ مجھ میں اتنے رچ بس چکے ہیں کہ اب انہی کے ساتھ جیتا ہوں، لیکن میری اپنی پرورش ذرا الگ ماحول میں ہوئی۔ 1942ء میں مَیں اسلامیہ ہائی اسکول مری روڈ راولپنڈی میں داخل ہوا، اس سارے دورانیے میں ہم آریہ محلے میں رہتے تھے۔ پاکستان بننے تک ہمارا گھر اسی محلے میں تھا، اس محلے میں مکینوں کی غالب اکثریت ہندو تھی۔ ہماری گلی میں البتہ ہندؤں کا کوئی گھرنہیں تھا، گلی کی دوسری طرف دو مسیحی اورایک یہودی گھرانہ آبادتھا، اسی گلی میں ایک گھر احمدیوں کا بھی تھا، ہمارے گھر میں ہر سال عید میلاد کی تقریب ہوتی تھی۔ (میں نے پوچھا کہ آپ تو اسکول میں نمازیں پڑھاتے رہے ہیں؟ مسکراتے ہوئے کہا : نماز تو اتنی نہیں پڑھائی جتنی کی اذانیں دیتا رہا) میلاد کی محفل میں ایک تقریر کرنی ہوتی تھی جوہمارے چچا کسی بچے کو تیار کر کے دیتے تھے، مجھے بھی وہاں ایک تقریر کرنے کا موقع ملا۔ اس گلی کا جو ماحول اور کلچرل میک اپ بن چکا تھا، اس کا مجھ پرعجیب اثرہوا۔ میرے چچا کی طرف سے لکھی گئی تقریر میں ایک واقعہ بھی شامل تھا جس میں اس یہودی کا ذکر تھا جس نے مسجد نبوی میں کوڑا پھینک دیاتھا۔ اب اس واقعے کو بیان کرنے کے لیے تقریر کی عبارت کچھ اس طرح تھی کہ’’ ایک بدذات یہودی نے گندگی پھینکی‘‘ مجھے وہ تقریرازبرتھی، جونہی میں اس فقرے پر پہنچا تو رُک گیا کیونکہ وہاں ہمارے دوست یہودی لڑکے اور لڑکیاں بیٹھے ہوئے تھے، بعد میں مجھے تقریر ٹھیک سے نہ کرنے پربڑی ڈانٹ پڑی۔ میں نے کہا کہ آپ نے بد ذات یہودی لکھا تھا، وہاں تو فلاں بھی بیٹھا تھا، یہ میرے لیے بہت عجیب تھا کہ میں انہیں بدذات کیسے کہہ سکتا ہوں، جس کلچرل ماحول میں آپ پروان چڑھتے ہیں اس کا آپ کی شخصیت پر گہرا اثر ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

(بشکریہ: 92 نیوز سنڈے میگزین)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments