بھیا ڈھکن فسادی پکڑے گئے


ٹررررن ٹرررررن ٹررررن۔ فون کی گھنٹی بجنے لگی۔

بمشکل آنکھیں کھول کر گھڑی پر نظر ڈالی۔ ابھی صبح کے چھ ہی بجے تھے۔ کون ہو سکتا ہے اس وقت جب اس وقت ہزاروں لاکھوں لوگ اس شہر ناپرساں میں نیند کے مزے لوٹ رہے تھے لیکن کوئی ہمیں جگانے پر تلا ہوا تھا۔ ٹررررن ٹرررررن ٹررررن۔ فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔

کون ہو سکتا ہے یہ مونگ پھلی جتنے دماغ والا شخص جس کو تمیز چھو کر بھی نہیں گزری۔ فون نہیں اٹھا رہا ہوں تو بند کر دے۔ کیوں جان عذاب میں ڈال رہا ہے۔ بمشکل ادھ کھلی آنکھون سے فون ڈھونڈ کر ’ہیلو‘ کہا تو دوسری طرف سے ایک درد بھری صدا آئی ’میں لیلی مجنوں ہوں‘ ۔

اوہ۔ تو یہ کوئی ناکام عاشق تھا جو صبح صبح کسی رانگ نمبر کی تلاش میں تھا۔ یا نشہ چڑھا گیا تھا اور اب سامع ڈھونڈ رہا تھا۔

’اگر تم لیلی مجنوں ہو تو میں کیا کر سکتا ہوں؟ چپ کر کے سو جاؤ اور مجھے بھی سونے دو۔ ورنہ تھائی لینڈ کا یا بنوں کا ٹکٹ کٹا لو۔ وہاں ایسا شخص جو بیک وقت لیلی بھی ہو اور مجنوں بھی ہو کافی کامیاب رہتا ہے‘ میں نے فون کان سے ہٹایا ہی تھا کہ دوسری طرف سے روتی ہوئی سی آواز آئی ’لیلی مجنوں نہیں، میں بھیا مجن ہوں‘ ۔

’اوہ، بھیا ڈھکن۔ اس وقت کیوں فون کیا ہے۔ سو جاؤ اور مجھے بھی سونے دو‘ ۔

’یہ مجھے پکڑ لائے ہیں۔ مجھے چھڑاؤ۔ ساری رات انہوں نے تھانے میں بند رکھا ہے۔ سارے پیسے بھی چھین لیے ہیں۔ افففف ہائے۔ غلطی ہو گئی سنتری بادشاہ، اتنے زور سے تو نہ مارو۔ بخدا اب بیٹھ بھی نہیں سکوں گا۔ میرا مطلب ہے کہ میں نے سارے پیسے ہنسی خوشی اپنے ان مہربانوں کو چائے پینے کے لیے دے دیے ہیں اور اب انہیں ناشتے کے لیے دینے کے لیے میرے پاس کچھ نہیں ہے‘ ۔

’کون پکڑ لایا ہے اور کہاں بند کر دیا ہے؟ ‘ میں نے پوچھا۔
’ابراہیم ذوق مارکیٹ تھانے میں بند ہوں۔ مجھے چھڑا دو۔ میری ضمانت دے دو‘ ۔ بھیا روتی ہوئی سی آواز میں بولے۔

’اچھا میں آتا ہوں‘ ۔ فون رکھ کر میں نے منہ پر چند چھینٹے مارے اور کپڑے بدل کر تھانے کا رخ کیا۔

حوالات کے سامنے سے گزر کر محرر کے کمرے کی طرف رخ کیا ہی تھا کہ ایک درد بھری سی آواز نے پکارا ’میرے بھائی میرے دوست۔ مجھے یہاں سے نکالو‘ ۔ بھیا ڈھکن حوالات کی سلاخوں میں منہ پھنسا کر اور بانہیں باہر پھیلا کر مجھے پکار رہے تھے۔

’حوصلہ رکھیں بھیا ڈھکن۔ میں دیکھتا ہوں کہ کیا ہو سکتا ہے‘ یہ کہہ کر میں نے محرر کے کمرے کا رخ کیا۔ ’جی صاحب، حکم کریں آپ کی کیا خدمت کر سکتے ہیں‘ محرر نے میٹھی سی آواز میں کہا۔
’آپ میرے ایک دوست کو کل رات پکڑ لائے ہیں۔ وہ بھیا جو آپ نے بند کیے ہوئے ہیں۔ انہیں چھڑانے کے لیے آیا ہوں جناب‘ ۔

’اوہ وہ بھیا۔ وہ تو چوری کی گاڑی سمیت پکڑے گئے ہیں۔ ایس ایچ او صاحب نے بقلم خود پکڑا تھا اسے۔ اب اس سے تفتیش شروع ہو گی ابھی کچھ دیر میں۔ ضمیمہ تو کل رات ہی اسے دے دیا تھا‘ ۔
’چوری کی گاڑی؟ ارے وہ نہایت شریف آدمی ہیں۔ کچھ غائب دماغ اور خبطی سے ضرور ہیں لیکن گاڑیاں چوری نہیں کرتے‘ ۔

’یہ تو تفتیش کے بعد ہی پتہ چلے گا۔ ابھی ان کو ڈرائنگ روم کی سیر کرائیں گے تو سارا کچا چٹھا سامنے آ جائے گا کہ کتنی گاڑیاں چرائی ہیں اور کہاں کہاں اکیلے ہی اکیلے بیچ ڈالی ہیں۔ ویسے آپ ہیں کون۔ مجھے تو تم بھی اسی ملزم کے گروہ سے متعلق لگتے ہو۔ شکل سے ہی چور کا بھائی گرہ کٹ نظر آتے ہو۔ اسی لیے تو فوراً یہاں پہنچ گئے ہو۔ تمہارے سے بھی تفتیش کرنا پڑے گی۔ اوئے شیدے سپاہی، ادھر اندر آ ذرا‘ ۔

’ضرور تفتیش کریں جناب۔ لیکن میرے ضمانتی کو آپ پریشان کر دیں گے‘ ۔
’اوئے کون ہے تیرا ضمانتی جس کی تڑیاں ہمیں لگا رہا ہے۔ ہم بڑے سے بڑے افسر کی بات نہیں مانتے اور مجرم کو جیل پہنچا کر ہی چھوڑتے ہیں‘ ۔
’آپ کے حلقے کے ایس ایس پی ہیں۔ میرے بڑے بھائی لگتے ہیں۔ ابھی آپ سے بات کرا دیتا ہوں‘ ۔

اس نے مجھے کچھ بے یقینی اور کچھ خوف کے عالم میں دیکھا۔ میں نمبر ملا کر بات شروع کر چکا تھا ’حاکم بھائی جان، یہ میں ابراہیم ذوق مارکیٹ تھانے میں ہوں۔ میرے ایک دوست کو کسی غلط فہمی کی وجہ سے یہ گاڑی چوری کے الزام میں پکڑ لائے ہیں۔ ہاں ہاں میں انہیں اچھی طرح جانتا ہوں، کچھ ہلے ہوئے ضرور ہیں لیکن گاڑی چوری نہیں کر سکتے۔ اپنی شخصی ضمانت دینے کے لیے تیار ہوں۔ اچھا بات کراتا ہوں۔ یہ لیں جناب، بات کریں‘ ۔

محرر نے اٹھ کر سیلوٹ کیا اور فون پکڑا ’غلام علی محرر سر۔ یس سر۔ جو حکم سر۔ میں ایس ایچ او صاحب کو فوراً آپ کا حکم پہنچاتا ہوں سر۔ آپ کے بھائی ہمارے افسر ہیں سر۔ یس سر۔ حکم کی تعمیل ہوگی سر‘ ۔

کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اس نے فون میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا ’آپ نے تعارف ہی نہیں کرایا سر۔ اوئے شیدے سپاہی۔ وہ بھیا کو فوراً صاحب کے کمرے میں عزت کے ساتھ لے کر آؤ۔ ادھر تشریف لائیں سر۔ ‘ ۔

وہ مجھے لے کر ایس ایچ او کے کمرے میں پہنچا۔ ایس ایچ او ایک سمارٹ سا جوانعمر شخص تھا۔

’صاحب جو کل آپ نے گاڑی والے بھیا گرفتار کیے تھے یہ ان کو لینے آئے ہیں۔ ایس ایس پی صاحب کے بھائی ہیں سر۔ شخصی ضمانت دینے کو تیار تھے لیکن میں نے کہا کہ کیوں شرمندہ کرتے ہیں۔ آپ بھی ہمارے افسر ہیں۔ حکم کریں بس‘ ۔

تھانیدار نے مسکرا کر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور محرر کو ناشتہ لانے کا حکم دیا۔ معلوم ہوا کہ ڈائریکٹ انسپکٹر بھرتی ہوا ہے اور ایم اے ہے۔ کافی صاحب مطالعہ اور نستعلیق شخص تھا۔ پتہ نہیں پولیس میں کیسے آ گیا۔ ابھی تعارف ہی ہوا تھا کہ بھیا ڈھکن کی آمد ہوئی۔ لرزتی ہوئی ٹانگوں سے کمرے میں داخل ہوئے اور کاپنتے ہوئے بولے ’میں نے گاڑی چوری نہیں کی صاحب۔ وہ میری اپنی گاڑی ہے۔ آپ کو خدا رسول کا واسطہ مجھے چھوڑ دیں۔ آئندہ گاڑی پر کیا اس سڑک پر پیدل بھی نہیں چلوں گا‘ ۔

’بیٹھیں بھیا۔ تشریف رکھیں۔ آپ کے ضمانتی یہاں موجود ہیں۔ بس ہمارے ساتھ ناشتہ کریں اور پھر جہاں جی چاہے چلے جائیے گا‘ ۔ تھانیدار نے انہیں تسلی دی۔ اب ان کی نظر مجھ پر پڑی اور میرے ہاتھ کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر وہ ساتھ والی کرسی پر بیٹھے ہی تھے کہ چیخ مار کر اٹھ کھڑے ہوئے۔

’وہ سر رات تھوڑی سی تفتیش کر لی تھی تاکہ صبح افسروں سے تمیز سے بات کر سکے‘ ۔ تھانیدار کی استفہامیہ نظروں کے جواب میں شیدے سپاہی نے کہا۔
’بھیا آپ رات کو ہی بتا دیتے تو غلط فہمی نہ ہوتی۔ یہ کشن رکھ لیں۔ پھر آپ کرسی پر بیٹھ سکیں گے۔ بس بسم اللہ کر کے گرما گرم چائے پئیں۔ سکون ملے گا‘ تھانیدار نے کہا۔

ناشتہ شروع ہوا اور بھیا کے حواس بحال ہونا شروع ہوئے۔ میں نے پوچھا ’بھیا آپ پکڑے کس طرح گئے تھے؟ کیا ہوا تھا؟ ‘ ۔

’ہونا کیا تھا بس قسمت خراب تھی۔ ناکردہ گناہ پر پکڑے گئے ہیں۔ کل رات ہم نے سوچا کہ نئی گاڑی لی ہے تو باہر کچھ ہوا خوری کرتے ہیں۔ گاڑی لے کر ابراہیم ذوق مارکیٹ کے قریب پہنچے ہی تھے کہ اشارے پر اگلی گاڑی نے بریک لگا دیے۔ ہماری نئی مہران گاڑی اس مردود مرسیڈیز سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔ غلطی سراسر اسی کی تھی۔ ہمیں ڈرائیونگ سیکھے ہوئے پورے تین دن ہو چکے ہیں۔ الحمدللہ اب تک علم ڈرائیونگ پر اب مکمل اور جامع عبور حاصل کر چکے ہیں اور مالک کی مہربانی سے ہم سے کسی قسم کی کوئی غلطی سرزد ہونے کا امکان ہی نہیں ہے۔

اشارہ پیلا ہوئے کچھ دیر تو ہو گئی تھی لیکن وہ خبیث شخص چاہتا تو اشارے کے سرخ ہوتے ہوتے گاڑی نکال سکتا تھا۔ لیکن اس ملعون خبیث نے گاڑی روک دی۔ صورت سے تو وہ مرنجان مرنج سادہ سا بڈھا لگتا تھا لیکن کرتوت اس کے ابلیسوں والے تھے۔ لیکن ہم نے بھی اس کے ساتھ کماحقہ ستھری کی۔ پہلے تو ہم نے خوب ہارن بجا بجا کر اسے بے عزت کیا۔ پھر شیشہ نیچے کر کے اس کو برا بھلا کہا اور اس پر خوب دشنام طرازی کر کے اس کے چودہ طبق روشن کر دیے۔ پھر بھی تسلی نہ ہوئی تو گاڑی سے باہر نکل کر اس کی گاڑی کو ٹھوکریں مارنا شروع ہی کیں تھیں کہ ہمیں پولیس نے بلاوجہ ناحق گرفتار کر لیا ’۔ بھیا ڈھکن فسادی کی نظر تھانیدار پر پڑی تو بولے‘ ہمارا مطلب ہے کہ کسی غلط فہمی کی وجہ سے ہمیں گرفتار کر لیا گیا اور اس ملعون بڈھے کو جانے دیا گیا ’۔

’واقعی بھیا، غلط فہمی تو سرزد ہو ہی گئی تھی۔ آپ کی گاڑی کے کچھ ہی پیچھے ہماری پولیس کی گاڑی تھی۔ جب آپ نے ہارن بجائے، گالیاں دیں، اور پھر گاڑی کو ٹھوکریں ماریں، تو اس وقت میں خود اپنی گاڑی سے نکل کر آپ کی طرف آ رہا تھا۔ پہلی چیز جو مجھے نظر آئی وہ آپ کی گاڑی پر لگا ہوا بڑا سٹکر تھا جس پر لکھا تھا کہ مجھے سلامتی کے دین اسلام سے پیار ہے۔ اس کے نیچے دوسرا سٹکر لگا ہوا تھا کہ میرے نبیؐ پر لاکھوں سلام جو ساری کائنات کے لیے رحمت و محبت لے کر نازل ہوئے اور ہمارے لیے مثال قائم کی۔ بمپر پر لکھا ہوا تھا کہ غصہ حرام ہے۔ دوسرے کونے پر لکھا ہوا تھا کہ کرو مہربانی تم اہل زمین پر، خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر۔ میں نے ان سٹکروں کو دیکھا۔ پھر آپ کو شدید غصے میں اس بزرگ کو گالیاں دیتے اور اس کی گاڑی کو ٹھوکریں مارتے دیکھا۔ ظاہر ہے کہ میں نے یہی سمجھا کہ آپ نے کسی کی کار چرائی ہوئی ہے اور ایسا حلیہ محض پولیس کو دھوکہ دینے کے لیے اختیار کیا ہوا ہے‘ ۔ تھانیدار نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہا۔

Feb 24, 2016

عدنان خان کاکڑ
اس سیریز کے دیگر حصےبھیا ڈھکن فسادی نے گاڑی خریدیبھیا ڈھکن فسادی کی موٹر کار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments