سیاسی حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ لیڈ کیوں نہیں کرتی؟


دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ہے۔ لیکن ایک چیز دکھائی دے رہی ہے۔ صرف افواج پاکستان ہی آگے بڑھ کر دہشت گردوں کے خلاف کردار ادا کر رہی ہیں۔ فاٹا اور دیگر جنگ زدہ علاقوں میں تو یہ بات سمجھ آتی ہے مگر سیٹلڈ ایریاز اور کراچی لاہور جیسے شہروں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سیاسی قیادت کے کردار کی کمی کو شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے۔

اس جنگ میں سیاست دانوں نے اپنے حصے کی قربانیاں دی ہیں۔ سب سے زیادہ لوگ اے این پی کے مارے گئے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں ایم کیو ایم اور اے این پی کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر کھل کر انتخابی مہم نہیں چلانے دی گئی۔ پیپلز پارٹی بھی ہدف رہی ہے۔ پنجاب کے وزیر داخلہ خودکش حملے میں مارے جا چکے ہیں۔ شریف خاندان بھی ہائی رسک پر ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ سیاستدانوں کی طرف سے اس جنگ میں نمایاں کردار ادا نہیں کیا جا رہا ہے؟

اس کی وجہ جاننے کے لئے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ڈان لیکس ہی کافی ہیں۔ سیاستدان خوفزدہ رہتے ہیں کہ ان کا کوئی جرات مندانہ قدم الٹا ان کو اقتدار سے اتارنے کا باعث نہ بن جائے۔ فرض کیا کہ اجلاس کی یہ کارروائی وزیراعظم کی منشا سے سیرل المیڈا تک پہنچائی گئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک کے منتخب وزیراعظم کے پاس یہ اختیار ہے کہ کسی بھی خفیہ دستاویز کو عام کرنے کا حکم جاری کر سکے؟ کیا آئین اور قانون اسے یہ اختیار نہیں دیتا ہے؟

حکمران کے اختیارات کی بات چلی ہے تو کچھ پیچھے بھی چلتے ہیں۔ اگر حکمران یہ دیکھے کہ کوئی شے ملکی سلامتی کے لئے ایک واضح خطرہ بن رہی ہے تو وہ اپنا قانونی اختیار استعمال کرتے ہوئے جس حد تک جا سکتا ہے، اس کے لئے ہم نائن الیون کے واقعے کو دیکھتے ہیں۔ اغوا کیے جانے والے جہازوں میں سے دو ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرا دیے گئے۔ تیسرا جہاز پینٹاگون کی عمارت کے پاس گرا اور اسے جزوی طور پر نقصان پہنچانے کا سبب بنا۔ چوتھا جہاز جس کا رخ وائٹ ہاؤس کی جانب تھا، پراسرار طور پر گر کر تباہ ہو گیا۔ کہا گیا کہ مسافروں سے ہائی جیکروں کی کشمکش سے ایسا ہوا۔

سربراہ مملکت کو اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ ملک کو کسی خطرے کی صورت میں مسافر جہاز کو مار گرانے کا حکم دے دے خواہ اس حکم کے نتیجے میں جہاز کے بے گناہ مسافر بھی مارے جائیں۔ نائن الیون کمیشن کی رپورٹ کے مطابق اس وقت وائٹ ہاؤس میں موجود امریکی نائب صدر ڈک چینی نے صدر بش کی اجازت سے مسافر بردار جہازوں کو مار گرانے کا حکم دیا تھا۔ سوویت یونین نے جنوبی کوریا کا ایک مسافر جہاز مار گرایا تھا۔ امریکیوں نے ایران کا۔ جبکہ اس سے کہیں کم اختیار استعمال کرتے ہوئے جب نواز شریف صاحب نے بطور سربراہ ریاست جنرل پرویز مشرف کے جہاز کا رخ موڑنے کا حکم دیا تو اس پر ہی ان پر ہائی جیکنگ کا مقدمہ قائم کر دیا گیا تھا۔ حالانکہ اس وقت جنرل مشرف کے بارے میں یہ یقین کیا جاتا تھا کہ وہ حکومت پر غیر جمہوری طریقے سے قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔

ہم دھرنے کا معاملہ بھی دیکھ لیتے ہیں۔ انگریزی روزنامے ’دا نیوز‘ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق جنرل شجاع پاشا اور جنرل ظہیر الاسلام عباسی دھرنے کی مدد سے نواز شریف صاحب کی حکومت کو غیر مستحکم کرنا چاہتے تھے مگر جنرل راحیل شریف نے اس موقعے پر نواز شریف صاحب کی بھرپور مدد کی۔ خواجہ آصف نے ٹی وی انٹرویو میں جنرل پاشا اور جنرل ظہیر الاسلام عباسی کا نام لیا تھا۔ جاوید ہاشمی صاحب اس دھرنے کے پیچھے جنرل شجاع پاشا کا ہاتھ ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کی حکومت میں میمو گیٹ کا معاملہ اٹھا تھا اور پیپلز پارٹی کے وزیراعظم کو گھر بھیج دیا گیا تھا۔ اب گزشتہ چند ماہ میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین آصف زرداری صاحب کے قریبی ساتھیوں کے خلاف کارروائیوں سے اس میں بھی یہ تاثر راسخ ہوا ہے کہ فوج اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔

ان حالات کو دیکھتے ہوئے سیاسی حکومتیں ایسے کسی بھی معاملے میں نہایت بچ کر چلنے پر مجبور ہیں جن میں ان کو فوج یا ایجنسیوں سے ٹکراؤ کا خدشہ درپیش ہو۔

کہا جاتا ہے کہ افغانستان کی پالیسی سویلین حکومت کے پاس نہیں ہے۔ دہشت گردوں کی پناہ گاہیں بھی افغانستان میں ہی ہیں۔ ان میں سے بہت سے دہشت گرد وہ ہیں جو کہ پہلے پراکسی وار کے لئے خود پاکستان نے تیار کیے تھے۔ نہ اس وقت وہ سیاسی حکومت کے کنٹرول میں تھے اور نہ اب ان کے معاملے میں سیاسی حکومت اپنا کردار ادا کرنا چاہتی ہے کیونکہ اسے یہی خدشہ ہے کہ ایسے معاملے میں پڑنے کے بعد اس کی اپنی چھٹی ہو سکتی ہے۔

ڈان لیکس کے تنازعے کا باعث بھی یہی سابقہ مجاہدین اور حالیہ دہشت گرد ہیں۔ اب پاناما سکینڈل پر کور کمانڈر کانفرنس کے اعلامیے کو بھی سیاسی حکومت اپنے خلاف قدم ہی سمجھے گی اور یہی گمان رکھے گی کہ اس جے آئی ٹی میں شامل ایجنسیوں کے نمائندے سیاسی حکومت کے خلاف ہی چلیں گے۔

ایسے میں جب کہ دونوں بڑی سیاسی پارٹیاں یہ تاثر لئے بیٹھی ہیں کہ ان کی حکومتوں کو غیر مستحکم کیا جاتا ہے اور ان کو وہ اختیار استعمال نہیں کرنے دیا جاتا جو کہ آئین کے تحت ان کو حاصل ہے، تو پھر وہ کیوں دہشت گردوں کے خلاف لیڈنگ رول ادا کر کے ہر دو جانب سے خود کو نشانہ بنوائیں گے؟ ایک طرف انہیں مارشل لا کا خطرہ ہوتا ہے تو دوسری جانب خودکش حملے کا۔

سیاسی حکومت کو اپنا دوست اور ملک کا خیر خواہ سمجھ کر معاملات چلائے جائیں گے تو پھر ہی سیاستدان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں آگے آئیں گے۔ پاناما کے معاملے کو سویلین عدالت کو طے کرنے دیا جائے اور اس پر بیان بازی سے احتراز کیا جائے۔ ڈان لیکس کے معاملے کو سویلین حکومت کو طے کرنے دیا جائے۔ ورنہ سویلین حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وہی کردار ادا کرنے میں عافیت جانے گی جو وہ اس وقت کر رہی ہے، یعنی وہ اس سے بہت حد تک لاتعلق ہے۔

سیاسی حکمرانوں کو ہم خواہ کتنا ہی کرپٹ اور نا اہل کیوں نہ سمجھیں، ان کی حب الوطنی پر ہمیں ہرگز بھی کوئی شبہ نہیں ہے۔ سیاستدانوں کی تربیت دوست اور دشمن انسانوں سے نمٹنے کی ہوتی ہے۔ یہ کام ان سے بہتر کوئی دوسرا نہیں کر سکتا ہے۔ ان کو ہی کرنے دیا جائے تو مناسب ہے۔ وہ اپنی سیاسی حکمت عملی استعمال کرتے ہوئے کہیں زیادہ بہتر طور پر افغانستان سے بھی نمٹ لیں گے، انڈیا سے بھی، امریکہ سے بھی اور ملکی دہشت گردوں سے بھی۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar