وجاہت مسعود سے عمار کاظمی کا مکالمہ (پہلا حصہ)
عمار کاظمی: السلام علیکم وجاہت صاحب۔ کچھ دوستوں نے (ہم سب پر شائع ہونے والے مولانا محمد احمد لدھیانوی کے انٹرویو) کے حوالے سے سوالات کئے ہیں۔ یہ دوست آپ سے بہت محبت کرتے ہیں اور جو لوگ محبت کرتے ہیں اگر کوئی ان کی توقعات کے برعکس چیز ہوئی اور ان کو نہ سمجھ آرہی ہو تو پھر وہ تھوڑا سا اموشنل بھی ہو جاتے ہیں۔
وجاہت صاحب۔ آپ ان سوالات کی تلخی کو کم کرنے کی کوشش نہ کریں۔ کوئی بات نہیں۔ یہ ان کا حق ہے۔
اینکر۔ اس میں تھوڑا سا جیسے انہوں نے لکھا ہے میں نے تھوڑا بہت ایڈٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔میں انہیں گمراہ کرتا رہتا ہوں کہ آپ وجاہت صاحب کے پیچھے نہ لگیں میرے پیچھے آئیں لیکن وہ محبت آپ سے کرتے ہیں۔ میں کیا کروں۔ ایک دوست نے یہ پوچھا ہے کہ آپ ایک سینئر اور تجربہ کار صحافی ہیں۔ آپ کا شمار اساتذہ میں ہوتا ہے۔ کیا آپ کو ان شقوں سے واقفیت نہیں جو فورتھ شیڈول میں شامل کسی شخص سے متعلق ہیں۔
وجاہت۔ دیکھئے یہ جو قانون کے معاملات ہیں یہ عدالتوں کو دیکھنا ہیں۔ ہماری جو سوچ ہے وہ اپنے ملک کے حوالے سے ہے۔ ہمارے پاس قوت نافذہ تو نہیں ہے، ہمارے کنسرنز (تشویش) کیا ہیں۔ ہمارا کنسرن یہ ہے کہ ہمارے ملک میں عقیدے کے نام پہ، مسلک کے نام پہ خون بہانا بند ہونا چاہیے۔ یہی حتمی مقصد قانون کا بھی ہے، قانون کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے۔ جو تمدنی مکالمہ ہوتا ہے، جس میں صحافت بھی شامل ہے، جس میں سیاسی عمل بھی شامل ہے، اس کا طریقہ کار قانون سے مختلف ہوتا ہے۔ میں ان بھائی کے سوال کی نیک نیتی کو سمجھ رہا ہوں۔ میں آپ کی توجہ کچھ مثالوں کی طرف دیتا ہوں۔ دیکھئے اپارتھیڈ کی لڑائی ساﺅتھ افریقہ میں ہوئی۔ نیلسن منڈیلا 1962ء سے قید میں تھے۔ 72 ء آ گیا، 82ء آ گیا، 86ء آ گیا، 24 سال جیل میں ہو گئے۔ اب ایک شخص نے چوبیس سال جیل میں کاٹ لیے ہیں۔ آپ اس کی کمٹمنٹ پہ تو انگلی نہیں اٹھا سکتے۔ 1986ء وہ سال ہے جب پری ٹوریا گورنمنٹ کے ساتھ مذاکرات شروع ہوئے نیلسن منڈیلا کے، بہت خوبصورت باب ہے Long walk to freedom میں، جس میں نیلسن نے یہ تجربہ بیان کیا ہے کہ جب ان کے ساتھیوں کو یہ پتہ چلا کہ وہ بوتھا گورنمنٹ کے ساتھ، جوہانسبرگ گورنمنٹ کے ساتھ بات چیت کر رہا ہوں تو ان میں بہت زیادہ غم و غصہ پھیل گیا۔ ہمیں یہ بات اس لیے سمجھ آتی ہے کہ جب محترمہ بینظیر بھٹو نے 1986 ءمیں جب وہ پاکستان لوٹیں تو اتفاق سے وہ اپریل ہی کا مہینہ تھا، 21 برس ہو گئے ہیں، 10 اپریل تھا وہ، جب انہوں نے یہاں آکے کہا کہ ہمیں خونی انقلاب نہیں چاہیے۔ انہوں نے سوشل ڈیموکریسی کا تصور دیا۔ انہوں نے بھٹو صاحب کے دور سے جو لسنلائزیشن کی پالیسی تھی اس سے انحراف کرنے کا فیصلہ کیا۔ درحقیقت 1983 ءمیں جب محترمہ پاکستان سے تشریف لے گئی تھیں توتب بھی وہ بات چیت کر کے گئی تھیں۔ کیونکہ ضیاالحق کی حکومت 1985ء کے انتخابات میں بینظیر اور پیپلز پارٹی کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتی تھی۔conflict پر اصولی طور پہ کھڑے ہونا بنتا ہے لیکن یہ جو انسانی معاشرہ ہے اس میں conflict کو resolve کرنا مقصد ہے۔ مقصد جو ہے وہ امن ہے۔ جنگ نصب العین نہیں ہے۔ ازراہ کرم اس کو سمجھا جائے کہ لڑنا مقصد نہیں ہے۔ لڑتے تو ہم اس لیے ہیں کہ امن قائم ہو جائے۔ جہاں قربانیاں دینے کا معاملہ ہے، جہاں خطرہ مول لینے کا معاملہ ہے، جہاں کوئی اٹھ کے بندوق لے کے کھڑ ا ہو جائے، تو اس وقت اگر کوئی دوست اپنے کسی دوسرے دوست کی حفاظت کے لیے کھڑا نہ ہو تو پھر تو آپ اس پہ الزام لگائیں۔ لیکن جسے تمدنی مکالمہ کہتے ہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنی آخری کتاب Reconciliation: Islam, Democracy and the West میں اگر آپ دیکھیں کہ محترمہ نے کیا ویژن پیش کیا تھا۔ یہ محض محترمہ بینظیر بھٹو کے ویژن کی بات نہیں، گاندھی جی نے کیا ویژن پیش کیا تھا۔ کیا گاندھی جی نے انگریزوں کے ساتھ کسی ازلی دشمنی (eternal conflict) کی بات کی تھی؟ نہیں۔ بس یہ کہا کہ ہماری آزادی دو، ہم تو تمہارے دوست ہیں۔ جمہوری اور امن کی سوچ ہمیشہ انگیجمنٹ (Engagement) کی سوچ ہوتی ہے۔ پستول کی گولی میں دلیل نہیں ہوتی۔ ہمیں تو دکھ ہے کہ gwli ہمارے بھائی کو لگے یا کسی کے بھی بھائی کو لگے، وہ ہمارے ہی بھائی کو لگتی ہے۔ بندوق یا پستول کی گولی میں آرگومنٹ (دلیل) نہیں ہوتا۔ جمہوریت، امن اور رواداری کی بات کے دو اصول ہیں۔ ایک ہے انگیجمنٹ (engagement) یعنی بات کیجئے۔ دیکھئے جو گولی چلاتا ہے وہ یہ پیغام دیتا ہے کہ میں تمہیں صفحہ ہستی سے مٹا دوں گا۔ ہم اسے کہتے ہیں کہ بھائی بات کرو۔ تم بتاﺅ کہ تمہارا کیا مفاد ہے۔ اس پہ بات کرتے ہیں کہ کیا تمہارا موقف منصفانہ ہے۔ ٹھیک ہے ناں۔ تو اس پہ بات کرنی چاہیے۔ انگیجمنٹ پہلا اصول ہے۔ دوسرا اصول جو ہے اسے ہمیں سمجھنا چاہیے۔ وہ ہے شمولیت (Inclusion)۔ کسی شخص کا فعل جرم ہو سکتا ہے، کسی شخص کی شناخت جرم نہیں ہوتی۔ ہم جب شہری مساوات کی بات کرتے ہیں۔ تو ہم کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں جو ہمارے اہل تشیع ہم وطن ہیں، جو ہمارے اہل سنت ہم وطن ہیں، انہیں اس ملک میں عقیدے کی بنیاد پہ کسی فرق کا سامنا نہیں کرنا چاہیے۔ انہیں تحفظ ملنا چاہیے۔ ان کے روزگار کا، ان کے بچوں کا، ان کی تعلیم کا،ان کی کوالٹی آف لائف کا، میرٹ کا، میرٹ نام ہی برابری کا ہے کہ جس میں اہلیت ہے وہ آجائے۔ ہمارا ملک نہ تو ایران ہے کہ یہاں اہل تشیع کی ریاستی بالادستی قائم ہو جائے اور نہ ہی ہمارا ملک سعودی عرب ہے کہ اہل تشیع کو ریاست کے جبر سے دبایا جائے۔ ہمارا ایک متنوع (ڈائی ورس) ملک ہے۔ ہماری ایک سیاسی روایت ہے۔ ایران کے لوگ تو تیس برس میں جمہوری بندوبست کے بنیادی اصولوں پر نہیں پہنچ سکے، کیونکہ ان کے ہاں تو ویٹو کر دیا جاتا ہے کہ فلاں فلاں شہری تو الیکشن نہیں لڑ سکتے۔ سعودی عرب میں تو ممکن نہیں کہ کبھی الیکشن ہوں۔ ان کے ہاں تو روایت نہیں ہے۔ ہماری 135 سال کی روایت ہے۔ ہمارے ملک کے بانی اسماعیلی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے اور اثنا عشری عقائد رکھتے تھے۔ وہ تو ہمارا قائداعظم تھے۔ ہمارا جو ادب ہے۔ اس میں انتظار حسین ہیں، ناصر کاظمی اور جوش ملیح آبادی ہے۔ اختر حسین جعفری ہیں۔ ہمارے ہاں تو جس لیڈر پہ پاکستان کے لوگوں نے سب سے زیادہ اعتماد کیا اس کے جھنڈے کے رنگ تو دیکھ لو، وہ سبز، سرخ ہے اور سیاہ جھنڈا ہے۔ غور تو کیجئے کہ یہ رنگ کس فکر کی علامت ہیں۔ ہمیں اپنے ملک کے آخری اہل تشیع اور آخری اہل سنت کا تحفظ کرنا ہے۔ ہم اپنے آپ کو فرقے کی لڑائی میں الجھانے والوں کے رحم وکرم پہ نہیں چھوڑ سکتے۔ ہمیں ان کے ساتھ بات کرنی چاہیے۔ اس پر ہمارے کچھ دوستوں کو اعتراض ہے۔ ہمارا کہنا ہے کہ ہم نے عدالت کے پراسیس سے انکار تو نہیں کیا۔
اینکر۔ ایک روشن خیال پلیٹ فارم پر بغیر سوال جواب کے کسی کالعدم جماعت کے سربراہ کا ایڈٹڈ موقف پیش کرنا کیا اس کی برانڈنگ نہیں۔
وجاہت۔ ہمارے دوستوں نے فیصلہ کیا تھا کہ جن لوگوں کو ہمارا مخالف سمجھا جاتا ہے ان کے ساتھ بات کرنے میں پہل کرنی چاہیے۔ اگر یہاں پہ ساجد نقوی صاحب کا یا اہل تشیع کے کسی بھی رہنما کا موقف، انٹرویو اسی عزت و احترام کا ساتھ شائع نہ ہو تو پھر تو دوستوں کا شکوہ کرنا بنتا ہے اور جہاں تک تعلق ہے پہل کا تو اس میں کبھی کبھی موقع ملنے کی بات ہوتی ہے۔ ہماری ٹیم میں تو سید مجاہد علی اور حسنین جمال ہمارے برابر بیٹھے ہیں، تو ایسا تو نہیں ہو سکتا کہ انہیں یہ نہ علم ہو کہ ہزارہ کے واقعات پر ہمارا کیا اس پہ ردعمل تھا، پارا چنار اور صفورا گوٹھ پر ہمارا کیا ردعمل تھا، ہم ایک سیکولر پاکستان کی بات کرتے ہیں۔ سیکولر پاکستان کا مطلب ہے جو پاکستان میں رہتے ہیں وہ برابر ہیں۔ ان کو ایک جیسا تحفظ ملنا چاہیے اور عقیدے کے نام پر کسی کے ساتھ فرق نہیں کرنا چاہیے۔ امتیاز نہیں ہونا چاہیے۔
اینکر۔ آپ کی اپنی ٹیم کے ایک بندے ذیشان ہاشم نے اس کے دفاع میں عدنان کاکڑ کے طرز عمل پر تنقید کرتے ہوئے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ وجاہت صاحب اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔
وجاہت صاحب۔ ذیشان ہاشم ہم سب کی بانی ٹیم کے رکن ہیں اور قابل احترام ہیں۔ ہم سب ساتھیوں کا راﺅنڈ ٹیبل ہیں۔ راﺅنڈ ٹیبل کا مطلب ہی یہ ہے کہ جتنے ارکان ہیں سب برابر ہیں۔ تو ذیشان ہاشم کی رائے ہم سب کے انہی پیجز پر، انہی کے لفظوں میں شائع ہوئی ہے۔ وہ اس سے بھی زیادہ سخت لکھتے پھر بھی شائع ہونا تھی۔ یہی مکالمے کا حسن ہے کہ عدنان کاکڑ صاحب نے اپنی رائے دی ہے۔مولانا احمد لدھیانوی کی گفتگو جس پیرائے میں بیان کی گئی ہے اس پر نام لکھے ہوئے ہیں وصی بابا اور عدنان خان کاکڑ۔ ہمارے دروازے پاکستان کے کسی شہری کے لیے بند نہیں ہوسکتے۔ دوسری بات یہ کہ ہمیں تو ہر طرح کی ناانصافی کے خلاف کھڑے ہونا ہے۔ لوگ بندوقیں لے کے سڑکوں پر نہیں نکل سکتے، نہ ایسے کیا جا سکتا ہے۔ تو بات تو کرنی پڑے گی۔ ذیشان ہاشم کے اختلاف سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہمیں اس سے دکھ ہوتا کہ اگر کسی کو اختلاف ہو اور وہ خاموش رہے۔ ہمارے ساتھی کو اختلاف ہو اور اسے اتنا اعتماد ہو کہ میری بات ہو بہو چھپے گی اور سب تک پہنچے گی تو پھر ہم کہیں گے کہ یہی جمہوریت ہے۔
اینکر۔ معاشرے میں رواداری کے قیام کے لیے کالعدم تنظیم کے سربراہ ہی سے کیوں آغاز کیا گیا۔ اس سے بہتر آپشن موجود نہیں تھی کیا؟ تاکہ یہ مہم متنازع نہ بنتی اور نہ ہی اسے کالعدم تنظیموں کو مین سٹریم کرنے کی پالیسی کا حصہ سمجھا جاتا۔
وجاہت مسعود۔ دیکھئے مین سٹریم ہمارے کرنے سے تو نہیں ہو گا۔ ہم لوگ جو جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علمائے پاکستان کی مخالفت ہی اس لیے کرتے آئے ہیں کہ وہ تو عقیدے کے نام پہ ووٹ مانگتے ہیں، یہ میری رائے ہے۔ پاکستان میں جمعیت علمائے اسلام کی سیٹیں ہیں۔ اگر لوگ انہیں ووٹ دیتے ہیں تو وہ میری خواہش پہ تو باز نہیں آ سکتے۔ میری ذاتی رائے کیا ہے اور پاکستان کا شہری ہوتے ہوئے اور صحافی ہوتے ہوئے میری ذمہ داری کیا ہے۔ مجھے اس میں فرق کرنا پڑے گا۔ رہی کالعدم کی بات تو شاید آپ کو یاد ہو کہ اکتوبر 1979 ءکے میں ضیاالحق نے تمام سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ اخبار میں خبر آتی تھی "کالعدم سیاسی جماعت کے کالعدم رہنما نے کالعدم کارکنوں سے بات کرتے ہوئے یہ کہا”۔ یہ تاریخ کا اپنا پراسیس ہے۔ ریاست کی قوت نافذہ ہوتی ہے۔ حتمی تجزیے میں ہمیں ماننا پڑے گا کہ یہ ملک، یہاں کے رہنے والے شیعہ، سنی، احمدی، پارسی، کیتھولک پروٹسٹنٹ یعنی جو اس ملک کے سب شہریوں کا ہے۔ مولونا لدھیانوی نے اپنے مسلک کے مطابق فوجداری قانون سازی کی بات کی ہے۔ میں نے الگ نوٹ لکھ کے مخالفت کی ہے۔ اور جو ماضی میں کیا ہے اس کو قطعاً انڈورس نہیں کیا۔ کسی کی نیت پہ شک نہیں کرنا چاہیے۔ دیکھئے وہ جھنگ سے الیکشن جیت کے آگئے۔ اب الیکشن کمشنر ان کو اجازت دے رہا ہے الیکشن لڑنے کی، لوگوں نے ان کو ووٹ دیے ہیں۔تو اب ہمیں ان سے پوچھنا پڑے گا کہ مولانا آپ چاہتے کیا ہیں۔ تو مولانا صاحب تو کہتے ہیں کہ ہم تو فرقہ واریت نہیں چاہتے۔ تو ہمارا کہنا ہے کہ مولانا اب ذرا دھیان سے رہیے گا۔ جب مکالمے کا پراسیس شروع ہو گا تو پھر پوچھا بھی جائے گا۔ اسلام آباد میں مولانا گئے جن دنوں میں لاک ڈاﺅن والا سلسلہ چل رہا تھا۔ وہاں انہوں نے جلسہ کیا، وہاں جو نعرے لگائے گئے اس کی مخالفت کی گئی۔ یہ پوچھ تو لیں کہ کن لوگوں نے مخالفت کی تھی۔ ہم کسی کو قتل تو نہیں کر سکتے۔ بات ہی کر سکتے ہیں۔
اینکر۔ آپ ان چند لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے یہاں پہ اقلیتوں کے حق میں ہمیشہ آواز اٹھائی۔
وجاہت مسعود۔ میرے بھائی عمار کاظمی میں عرض کروں کہ مینارٹیز سرے سے کوئی کانسٹی ٹیونشل کانسیپٹ ہی نہیں ہے۔ دو چیزیں ہیں ناں۔ ایک تو سیدھا شماریاتی معاملہ ہے (Numerical equaltion)، میں ایک سوال کرتا ہوں کہ پنجابی بولنے والے اس ملک میں ساٹھ فیصد ہیں۔ تو پنجاب بڑا صوبہ ہے وفاقی یونٹ ہے۔ اب ایک پنجابی بولنے والی عیسائی خاتون کو لسانی بنیاد پہ اکثریت میں گنا جائے یا عقیدے کی بنیاد پر اقلیت میں گنا جائے۔ جمہوری نظام میں اکثریت، اقلیت کا تصور ففٹی پرسنٹ پلس ون کا اصول کہتے ہیں۔ و ہ یہ ہے کہ کانفلکٹ ریزولوشن کے لیے بنیادی طور پہ کیا حل نکالا جائے۔ اگر ہم چار پانچ لوگ بیٹھے ہیں۔ تو اختلاف دور کرنے کے لئے کانفلکٹ ریزولوشن کا طریقہ رائے شماری ہے۔ جو تین لوگ کہیں گے ان کی بات مانی جائے گی لیکن تین کی بات ماننے سے دو کے حقوق ساقط نہیں ہو جاتے۔ اور نہ دو کو کوئی سزا مل گئی ہے کہ وہ مینارٹی ہیں۔ ہم تو مینارٹی کے لفظ کو ہی غیر جمہوری سمجھتے ہیں۔ میں نے پہلی دفعہ ہزارہ کی ایک شیعہ بہن کے منہ سے یہ لفظ سنا کہ ہم مینارٹی ہیں۔ میں یہ لفظ سن کر ہکا بکا رہ گیا۔ ہم تو پہلے ہی مینارٹی کی اذیت جھیل رہے ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں کہ اقلیت قرار دو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں رکھا ہوا ہے کہ اقلیت کوئی تعزیری درجہ ہوتا ہے۔ ہم اہل تشیع کو اقلیت نہیں سمجھتے۔ ہم اس ملک کے کسی عقیدے کو ماننے والے کو اقلیت نہیں سمجھتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس ملک میں زبان کی، عقیدے کی، نسل کی، ثقافت کی بنیاد پہ بہت سی شناختیں پائی جاتی ہیں۔
عمار کاظمی۔ اس سوال کا شاید یہ بھی مقصد ہو کہ مولانا احمد لدھیانوی صاحب مکتب دیوبند سے ہیں تو مکتب دیوبند سے ہی مولانا طارق جمیل اور مولانا فضل الرحمن بھی ہیں۔ تو ان کا ابتدا شاید ان سے کی جاتی اور پھر ان کی طرف آجاتے۔
وجاہت مسعود۔ میں جواب دیتا ہوں لیکن تھوڑا سا سخت ہو جائے گا۔ ہم سب بڑی خودداری سے صحافت کر کے یہاں تک پہنچا ہے۔ اس ملک میں ہر کسی پہ سوال اٹھتے ہیں۔ اس ملک میں صحافی کو بلیک میلر سمجھا جاتا ہے۔ سیاسی کارکن کو قبضہ گروپ سمجھا جاتا ہے، مذہبی رہنما کو اشتعال پھیلانے والا سمجھا جاتا ہے، عدالت کے ججوں پر انگلی اٹھائی جاتی ہے سادہ سی بات ہے جب میں ایک سیاست دان سے جا کے کہتا ہوں کہ آپ کا انٹرویو کرنا ہے تو وہ ادھر ادھر دیکھتا ہے اور کہتا ہے کہ اس سے پہلے آپ نے کس کا انٹرویو کیا ہے۔ یہاں تو ایسے سیاست دان بھی ہیں میں نام نہیں لینا چاہتا جو یہ کہتے ہیں کہ میں آپ کے ٹیلی ویژن پروگرام میں تو شریک نہیں ہو گا آپ میرا ایکس کلیسو انٹرویو لیں۔ ’ہم سب‘ کے پڑھنے والوں کا احسان ہے کہ وہ اس کو اتنا وقت دیتے ہیں۔ ہم سب اب رائے عامہ تشکیل دینے والے ایک باوقات پلیٹ فارم کے طور پر سامنے آرہا ہے۔ میں ذاتی طور پر مولانا احمد لدھیانوی اور تمام دیگر مذہبی اور سیاسی لیڈران کا شکر گزرار ہوں۔ آپ نے غور کیا ہو گا کہ ہم نے جناب قمر زمان کائرہ صاحب کا بھی انٹرویو کیا ہے۔
اینکر۔ جناب قمر زمان کائرہ صاحب اور پیپلز پارٹی کے اندر بھی جناب فرحت اللہ بابر صاحب کافی روشن خیال مانے جانے والے لوگ ہیں۔ لیکن مکاتب فکر کے اعتبار سے مکتب دیوبند کو ہی ری پریزنٹ کرتے ہیں۔
وجاہت صاحب۔ یہ بات میرے علم میں نہیں ہے۔ ہمارے لیے تو سوائے مذہب کی بنیاد پہ سیاست کرنے والے رہنماؤں کے دیگر سیاسی رہنماؤں کا عقیدہ ہم پوچھتے ہی نہیں۔ سادہ سی بات ہے۔ ہم تو کبھی اس پہ بھی غور نہیں کیا کہ قمر زمان کائرہ صاحب کی ذات پات کیا ہے۔ وہ ایک پاکستانی سیاسی لیڈر ہیں اس لیے وہ قابل احترام ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے ان کے مسلک سے کچھ غرض نہیں۔ اسی پیپلز پارٹی میں تاج حیدر صاحب ہیں ہمارے اساتذہ میں سے۔ وہ پیپلز پارٹی کے سیکرٹری بھی رہے ہیں پروفیسر کرار حسین صاحب کے صاحبزادے ہیں۔
اینکر۔ میں سوال دوبارہ دہراتا ہوں کہ مولانا فضل الرحمن یا طارق جمیل صاحب سے ابتدا کیوں نہیں ؟
وجاہت مسعود۔ ہماری رسائی کا مسئلہ ہے۔ بہت سے سیاسی و دینی رہنما سوشل میڈیا کے اس آپشن سے آشنا بھی نہیں ہیں۔ وہ ہمارے دوستوں سے رابطے میں تھے۔ ان سے بات ہو گئی ہے لیکن یہ کہ اسی طرح سے دوسرے رہنماﺅں کو بھی اپروچ کیا جا رہا ہے کہ بھائی آپ بھی بات کیجئے۔
اینکر۔ جسٹس فائز عیسیٰ کی رپورٹ جو کوئٹہ سول ہسپتال سے متعلق ہے، چوہدری نثار کے خلاف ہے۔ کیا یہ انٹرویو کرنے سے قبل اس رپورٹ کو ذہن میں رکھنا ضروری نہیں تھا۔
وجاہت مسعود۔ اس رپورٹ پر چوہدری نثار صاحب نے جو فرمودات عرض کئے تھے۔ میں نے اس پہ کالم لکھ جسٹس فائز عیسیٰ صاحب کی تائید کی تھی۔ اور لکھا تھا کہ وزیر داخلہ ایسے ذمہ دار منصب پہ بیٹھے ہوئے بندے کو جسٹس صاحب پر تنقید زیب نہیں دیتی۔ کوئٹہ سول ہسپتال دھماکہ میں ہمارے ملک کا اثاثہ کھیت رہا۔ اس کی رپورٹ پر چوہدری نثار کے موقف پر ہم نے سخت اعتراض کیا تھا۔ میرا لکھا ہوا موقف روزنامہ جنگ میں چھپا ہوا ہے۔ ہم جسٹس فائز عیسیٰ کی رپورٹ کو درست سمجھتے ہیں۔ ہمارے وزیر داخلہ نے کبھی رواداری، ہم آہنگی، سیکولرازم، لبرل ازم، جمہوریت پر بات ہی نہیں کی۔ چوہدری نثار علی خان صاحب ہمارے کلاسک نمونے کے سیاست دانوں میں سے ہیں چنانچہ ان کے ساتھ کماحقہ انصاف کیا جاتا ہے۔
اینکر۔ آپ نے ہمیشہ نفرت انگیز گفتگو یا تحریر یعنی ہیٹ سپیچ کی مذمت کی بلکہ اپنے شاگردوں کو بھی کلمہ حق کہنے اور ہیٹ سپیچ کا فرق بتایا۔ مولانا لدھیانوی ہیٹ سپیچ کرنے والوں میں سے ہیں یا کلمہ حق کہنے والوں کے نمائندے ہیں۔
وجاہت مسعود۔ میں اس سوال کا جواب اس لحاظ سے نہیں دینا چاہتا کہ مولانا کا ماضی جو ہے وہ تو ریکارڈ کا حصہ ہے تو اس پر ہم کس بات کی بحث کر رہے ہیں۔ مولانا کا جو انٹرویو ہم سب پر چھپا ہے کیا اس میں مولانا صاحب نے کسی نکتے کی تردید فرمائی ہے؟ اس انٹرویو میں انہوں نے کہا ہے کہ ہم قتل و غارت گری نہیں چاہتے۔ ہم فرقہ واریت نہیں چاہتے، ہم پاکستان کے آئین کو، جمہوریت کو تسلیم کرتے ہیں۔ جہاں انہوں نے کہا ہے کہ ہم اپنے ووٹروں میں مسالک کی تقسیم نہیں کرتے تو میں نے لکھ کے اختلاف کیا ہے کہ صاحب یہ صرف ترقیاتی کام کا مسئلہ نہیں یہ بطور شہری کے سٹیٹس کا پرابلم ہے۔ ’ہم سب ‘ کی ٹیم راﺅنڈ ٹیبل ہے۔ اس میں سب برابر ہیں۔ سب کو اپنی رائے دینے کا حق ہے۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ مجھے عدنان کاکڑ یاوصی بابا نے جس پیرائے میں اس کو بیان کیا ہے مجھے اس سے اختلاف ہو اور اختلاف تو میں نے لکھ کے دیا ہے۔ اور وہیں چھپا ہے اس پہ تو دوست توجہ نہیں دے رہے تو پھر ان کی مہربانی ہے، میں کیا کر سکتا ہوں۔
اینکر۔ سوال کیا گیا ہے کہ آپ کی اپنی اولاد بھی مولانا صاحب نے ٹپکائی ہوتی تب بھی سپیس دیتے۔ سپیس کا لفظ اس میں خاص طور پر استعمال ہوا ہے۔ پھر ہمارا مشورہ ہے کہ بے چارے یزید کو بھی معاف کر دیں۔ صدیاں گزر گئیں، چھوڑ دیں۔ اب صلح صفائی کر لیں۔
وجاہت مسعود۔ بہت اہم سوال ہے۔ سوال کبھی بھی غلط نہیں ہوتا۔ جواب صحیح یا غلط ہو سکتا ہے۔
اینکر۔ جنہوں نے یہ سوال پوچھا ہے میں انہیں ذاتی طور پر جانتا ہوں یہ اہل سنت مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔
وجاہت مسعود۔ دیکھئے دہشت گردی میں داتا گنج بخش کے مزار حملہ ہوا، رحمن بابا کے مزار پہ، مست توکلی کا مزار نہیں چھوڑا گیا۔ غازی عبداللہ کے مزار پہ حملہ ہوا۔ پاک پتن میں حملہ ہوا۔ پہاڑوں میں بنے درویشوں کے مزاروں پہ، انہوں نے سہون شریف پر حملہ کیا ہے۔
اینکر۔ اہل سنت کے اندر ایک بڑی تقسیم ہے اور اس تقسیم کے اندر بھی ایک ڈویژن ہے۔
وجاہت مسعود۔ میں تو ایک جملے میں اپنی بات کہوں گا کہ جو مرے ہیں وہ میرے ہی بیٹے ہیں۔ انہیں یہ علم نہیں ہے کہ ان میں میرے کتنے طالب علم تھے۔ میرے کتنے دوست تھے۔ میرے ان کے ساتھ کیا رشتے تھے۔ جب یہ سب ہو رہا تھا (اور ابھی جب یہ سب ہو رہا ہے) اس پر توجہ کی جائے۔ یہ ماضی کی بات نہیں ہے۔ کل ہمارے دس ہم وطن مارے گئے ہیں۔ ان کی ویگن بارودی سرنگ سے ٹکرائی ہے۔ دس لوگ مارے گئے ہیں۔ اس ملک میں ہر وہ شخص جو پاکستان کی بات کرتا جو انسانیت کی بات کرتا ہے وہ محفوظ نہیں ہے یہاں پہ گولی گن کے نہیں بکتی، یہاں گولی تُل کے بکتی ہے۔ یہاں جس پہ انگلی رکھ دی جاتی ہے اس کو ختم کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کسی کو سو فیصد سکیورٹی مل ہی نہیں سکتی۔ دوسری بات میں آپ سے عرض کروں کہ یہ جو یزید والا بار بار دوست استعارہ استعمال کر رہے ہیں ان سے درخواست ہے کہ صاحبان آپ کا عقیدہ سیاسی مکالمے کی بنیاد نہیں بننا چاہیے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ یزید غلط ہے، ہم کہتے ہیں کہ آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ ہم کسی کے عقیدے کو غلط کہہ ہی نہیں سکتے۔ عقیدے کی آزادی کا مطلب ہی یہ ہے۔ سیاسی معاملات میں یزید وغیرہ کا معاملہ جو ہے کیونکہ اس کا تعلق تقدیس سے ہے، اس لیے فانی انسانوں کی بات کریں۔ جب یزید کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو مسلم تاریخ میں اس کا مطلب ہے نان نگوشی ایبل (یعنی اس پر بات نہیں ہو سکتی)۔ پالیٹکس نگوشی ایبل ہوتی ہے۔ (سیاست مکالمے کا نام ہے)
اینکر۔ قوم کے بیٹے احسان اللہ احسان کا انٹرویو کب کر رہے ہیں۔ اس سوال سے آپ جذبات کا اندازہ کر لیں۔
وجاہت مسعود۔ جان عزیز، وہ مسلم خان تھا یا وہ صوفی محمد تھے۔ پاکستان کے لوگوں کا جمہوری برابری، ترقی اور امن کا خواب ہے وہ آج کا نہیں ہے۔ میرے بھائی وہ تو 1996 ءمیں بھی اس پہ لڑ رہے تھے۔ ہم تو 1992 ءمیں بھی اس پہ لکھ رہے تھے۔ ہم تو عارف اقبال بھٹی کے قتل پر بھی اسی طرح کھڑے تھے جیسے ہم سلمان تاثیر کے قتل پر کھڑے تھے۔ تو گزارش یہ ہے کہ احسان اللہ احسان جن کا بیٹا ہے ان کا انٹرویو بھی انہی سے کروا لیا جائے۔
اینکر۔ کیا آپ ملا عمر کا انٹرویو کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ یعنی دوسرے الفاظ میں آپ لوگ بھی ذرا متضاد انداز میں گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ آپ کی نظر میں انٹرنل دہشت گردی پر زیرو ٹالرنس ہونی چاہیے یا ایکسٹرنل پر۔ ایک پر کلاس ورڈ ٹیررازم کا الزام ہے دوسرے پرملک کے اندر، دونوں میں کون سی بری ہے، آپ کا اس ضمن میں اصولی موقف کیا ہے۔ اگر آپ مولانا صاحب اور ان کی جماعت کو سپس دینا مناسب سمجھتے ہیں تو پھر عمران خان کی طرف سے طالبان کو دفتر کھول کر دینے کی بات کو برا کیوں مانتے ہیں۔
وجاہت مسعود۔ ملاعمر تو ظاہر ہے اب ملابغدادی رہ گئے ناں۔ ایک ملا عمر تو چلا گیا ناں۔ دیکھئے اس ملا عمر بغدادی کا ہمارے ملک کے ساتھ تعلق نہیں ہے۔ ہم داعش کی سیاست کو، القاعدہ کی سیاست کو، طالبان کی سیاست کو، عقیدے کی بنیاد پر سیاست کو، خامنائی کی سیاست کو، سعود خاندان کی سیاست کو غلط سمجھتے ہیں۔ ہم عقیدے کو سیاسی موقف نہیں سمجھتے۔ ہم سیکولر لوگ ہیں۔ ازراہ کرم اس طرح کے طعنے نہ دیے جائیں۔ گڈ طالبان، بیڈ طالبان، طالبانیت کیا ہے کہ اس ملک میں ان کی جو فہم ہے مذہب کی اسے سیاسی نظام کے طور پر مسلط کیا جائے۔ ہم نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی ہے۔ گڈ طالبان اور بیڈ طالبان والی بات تو میرے بھائی میری 2006ء والی کتاب محاصرے کا روزنامچہ میں دیکھ لیجئے۔ ہم نے تو اس وقت کہہ دیا تھا کہ ہم اس تقسیم کو تسلیم نہیں کرتے۔ ہم طالبان کے موقف اور سوچ کو غلط سمجھتے ہیں۔ ہم عقیدے کی بنیاد پہ سیاست تسلیم نہیں کرتے۔ انٹرنل دہشت گردی یا ایکسٹرنل دہشت گردی غلط ہے۔ یہ ہمارا اس ملک میں تیس برس کا، پیتیس برس کا موقف ہے ہم تو حکمت یار کے وقت سے جب یونیورسٹیوں کے طالب علم تھے ہم اس وقت سے اس پر بات کرنے والے لوگ ہیں۔ ہماری دہشت گردی کی ڈیفی نیشن سرحدوں کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتی۔ہم یہ نہیں کر سکتے کہ ایک طرح کی دہشت گردی کو ہم فریڈم موومنٹ قرار دیں اور ایک طرح کی دہشت گردی کو ہم برا سمجھیں۔ ملک کے اندر ہو تو ہم کہیں کہ دہشت گردی نہیں ہونی چاہیے اور ملک کے باہر ہو تو ٹھیک سمجھیں۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔
جہاں تک عمران خان کی بات ہے تو عمران خان نے ستمبر 2013 میں دفتر کھولنے کی بات کی تھی۔ طالبان نے پاکستانی حکومت کو ماننے کا اعلان نہ تب کیا تھا نہ اب کیا ہے۔ اگر طالبان پاکستان کے آئین اور جمہوریت کو مانتے ہوں یا ماننے کا اعلان کریں جیسے لدھیانوی صاحب نے کیا ہے۔ طالبان بھی ہمارے بھائی ہیں۔ اس میں کیا قصہ ہے۔ اگر اس ملک کے رہنے والے،اس ملک کے شہری ہوں، بسم اللہ۔
اینکر۔ یعنی پنجابی طالبان سے مفاہمت کو آپ سمجھتے ہیں کہ جیسے ان کو سپیس دی گئی ان کو بھی دے دینی چاہیے۔
وجاہت مسعود۔ جو پاکستان کے آئین کو مانے اور ہتھیار نیچے رکھ دے۔ مولانا احمد لدھیانوی کے بارے میں اس انٹرویو میں رپورٹ کیا گیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم جمہوریت کو مانتے ہیں اور پاکستان کے آئین کو مانتے ہیں۔ یہی جھگڑا پہلے دن سے طالبان کے ساتھ ہے۔ پاکستان کے آئین کو مانو، جمہوریت کو مانو، بندوق رکھ دو، اس کے بعد بیٹھ کے بات کر لو۔ ہماری تو کسی سے کوئی دشمنی ہی نہیں ہے۔ ہمارا تو کوئی قبیلہ نہیں ہے آپ کی مخالفت کا۔
اینکر۔ سپاہ صحابہ کے بانی لیڈران یعنی اہل تشیع کو واجب القتل قرار دینے والوں کو اور طالبان لیڈرز کو گرین چٹ کب دی جائے گی۔
وجاہت مسعود۔ ہم فرقے کی بنیاد پر کسی طرح کی سیاست کو درست نہیں سمجھتے۔ ہم نے کبھی سپاہ صحابہ یا اس کی مخالف فرقہ وارانہ تنظیمیں ہیں ان کو ٹھیک نہیں سمجھا۔ ہم نے دنیا میں کبھی کہیں پہ بھی مذہب کے نام پر سیاست کو صحیح نہیں سمجھا لیکن اگر لوگ آر ایس ایس کو انڈیا میں ووٹ دیتے ہیں تو یہ جو ہے ناں یہ ٹالرنس کا پیرا ڈاکس (Paradox of Tolerance ) ہے کہ آپ کو جمہوریت کو کام کرنے دینا پڑے گا، جمہوری شعور کو وہاں پہ لے جانا پڑے گا جہاں آر ایس ایس کو ووٹ نہ دیے جائیں۔ جہاں ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ نہ دیے جائیں۔ جہاں کسی بھی ایسے فرقے کو جو مذہب کے نام پر ووٹ مانگتا ہے، ووٹ نہ دیے جائیں۔ بھلے وہ اہل تشیع کے نام پہ ووٹ مانگے یا وہ اہل سنت کے نام پہ ووٹ مانگے۔
(جاری ہے)
وجاہت مسعود سے عمار کاظمی کا مکالمہ (دوسرا حصہ)
- اردو بلاگنگ کا آن لائن کورس - 11/12/2022
- جمہوریت کا انہدام: روزنامہ ڈان کا تاریخی اداریہ - 04/04/2022
- بہا الدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں بے ضابطگیاں - 03/03/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).