پرویز ہود بھائی انتہاپسندی پر رائے دیتے ہیں (1)۔


عدنان کاکڑ: ملک میں انتہا پسندی کیوں پھیل رہی ہے؟ عدم برداشت کا رویہ کیوں پھیل رہا ہے؟

ہود بھائی: پہلے ایسے نہیں ہوتا تھا۔ میری پیدائش کراچی میں ہوئی۔ اور میرے سترہ اٹھارہ سال یعنی 1950 سے لے کر 1968 تک وہاں گزرے، اس زمانے میں ہمارے اطراف ہر قسم کے لوگ رہتے تھے۔ ان میں عیسائی بھی تھے، ایک آدھ ہندو بھی تھا اور پارسی تھوڑی دور رہتے تھے۔ سب کے ہاں آنا جانا ہوتا تھا۔ اور جب ان کے تہوار ہوتے تھے تو ان کے گھروں سے ہمارے گھر کوئی اچھی شے بھیجی جاتی تھی۔ جب ہمارے ہاں عید ہوتی تھی یا کوئی اور خوشی کا موقع تو ہم ان کے گھر کچھ نہ کچھ تحفہ بھیجتے تھے۔ لیکن آہستہ آہستہ یہ سب ختم ہو گیا۔ اب اس پورے محلے میں کوئی ایک بھی غیر مسلم نہیں رہا۔ سارے کے سارے ملک چھوڑ گئے ہیں۔ اور اب اس محلے کے اندر صرف اور صرف ایک ہی قسم کے لوگ رہتے ہیں۔ سارے پاکستان میں تقریباً ایسا ہی ہو گیا ہے۔ شیعہ الگ ہو گئے, سنی الگ، جو اقلیتیں رہ گئی ہیں وہ خوف کے مارے یا تو اکٹھے رہتی ہیں یا وہ اپنی شناخت کو ختم کرتے ہوئے اپنے نام تک بدل رہے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی تبدیلی آئی ہے اور کوئی اس سے انکار نہیں کر سکتا۔

اب سوال یہ ہے کہ عدم رواداری کا آغاز کب ہوا اور اس کی وجوہات کیا ہیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ پہلی بڑی تبدیلی 1974میں آئی جب احمدیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم قرار دیا گیا تھا۔ اس کے بعد مذہبیت ہمارے سماج کے اندر زیادہ سے زیادہ سموتی گئی اور ضیا الحق کے زمانے میں اس رجحان میں تیزی آتی گئی۔

اس دور میں ہر ایک کے اوپر یہ لازم کر دیا گیا تھا کہ وہ اپنے آپ کو بہتر سے بہتر مسلمان ظاہر کرے۔ اس وقت ہم قائد اعظم یونیورسٹی کے ایک دفتر میں بیٹھے ہیں۔ 1981ء میں یہ حکم آیا کہ ڈیپارٹمنٹ کا چیئرمیں ظہر کی نماز پڑھائے گا۔ اس لئے یہاں ہر روز صفیں باندھی جاتی تھیں۔ اس وقت عام سٹوڈنٹس اور اساتذہ کی طرف سے اس کی مخالفت ہوئی تھی۔ اور اوپر سے مسلط کئے جانے والے حکم کے خلاف لوگ اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔

لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اوپر سے کسی حکم کے صادر ہونے کی ضرورت نہیں رہی۔ کچھ وقت کے بعد لوگ خود ہی شریک ہونے لگے لہٰذا کمروں کے اندر درس ہونے لگے۔ حالانکہ اس یونیورسٹی میں چار مساجد ہیں لیکن ہر ڈیپارٹمنٹ کے اندر الگ سے چھوٹی چھوٹی مسجدیں بنی ہوئی ہیں۔ تو جو چیز پہلے ہم پر تھوپی گئی تھی وہ اب ہمارے اندر رچ بس گئی ہے۔

اب کیونکہ ہماری قومی زندگی کے اندر مذہب کا عمل دخل پہلے کے مقابلے میں بہت بڑھ گیا ہے تو ہر ایک مسئلہ کو صرف مذہب ہی کے نقطہ نظر سے دیکھا اور پرکھا جا رہا ہے اور صرف اسی زاویے سے درست اور غلط کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ انسان دوستی، انسانی حقوق اور انسانی اقدار کو مغربیت کا فریب کہتے ہوئے ہم مسترد کرتے ہیں۔

آپ کا اصل سوال یہ تھا کہ پاکستان میں انتہا پسندی کیوں بڑھ گئی ہے۔ اس کا جواب آپ کو ہندوستان کے موجودہ حالات دیکھ کر مل سکتا ہے۔ دونوں ملکوں کا موازنہ کریں۔ آپ جانتے ہیں کہ پچھلے دنوں مردان یونیورسٹی میں ایک نوجوان پر کسی نے انگلی اٹھائی اور کہا کہ یہ گستاخ ہے اور گستاخی ہم برداشت نہیں کرتے۔ پھر بیس پچیس سٹوڈنٹس نے پہلے اس کو ننگا کیا پھر اس کو لاٹھیوں اور اینٹوں سے مارا اور اس کے بعد ایک شخص نے اس پر گولی چلائی۔ سٹوڈنٹس نے اجتماعی طور پر یہ فیصلہ کیا تھا کہ کوئی اس شخص کا نام نہیں بتائے گا جس نے گولی چلائی تھی۔
آپ اس واقعے کا مقابلہ ہندوستان میں ایک حالیہ واقعے سے کریں۔ وہاں پہلو خان نامی شخص تھا جس پر کسی نے انگلی اٹھا کر اشارہ کیا تھا کہ یہ گائے سمگل کرتا ہے۔ گائے کو ذبح کرنے کے ارادے سے ادھر سے ادھر لے جاتا ہے ۔ تو پھر وہاں پر بغیر کسی ثبوت کے سینکڑوں گاؤ رکھشک اس کے پیچھے پڑ گئے اور مار مار کر اس کو ہلاک کر دیا اور اس کی ویڈیو بھی بنائی جیسا کہ مشال خان کی ویڈیو بنائی گئی تھی۔

ہندوستان میں بھی اب وہی جنونی کیفیت پیدا ہو رہی ہے جو پاکستان میں پچھلے تیس سال سے ہے۔ ادھر بھی مذہبی جذبہ ابھارا گیا ہے اور اسی طرح کی ذہن سازی کی جا رہی ہے۔ ہم ان سے کچھ آگے ہیں مگر وہ بھی شاید ہمارے برابر کسی دن آ کر ٹھہر جائیں گے۔

تو مختصر یہ کہ جس سماج کے اندر ہر چیز کا دار و مدار مذہب پر ہو، وہاں لوگوں کے اندر ایک تعصب اور تنگ نظری کا پیدا ہونا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ مشال خان صرف ایک مثال ہے ، ان گنت مثالیں ایسی پہلے رہی ہیں اور اس کے بعد بھی ہوں گی۔ مشال خان کے بعد دو اسی طرح کے واقعات ہوئے ہیں۔ ایک وہ واقعہ ہے جس میں تین برقعہ پوش لڑکیوں نے ایک شخص کو ہلاک کر دیا۔ اس پر یہ الزام تھا کہ تیرہ سال پہلے اس نے کوئی غلط بات کی تھی۔ پھر جو ایک باؤلا سا آدمی تھا جس نے مسجد میں جا کر کوئی بکواس کی۔ اگر اس مسجد کے امام نے اس کو نہ بچایا ہوتا تو لوگ اسے چیر پھاڑ کر ختم کر دیتے۔ اور پھر کیونکہ اس بچارے امام نے اس دیوانے کو بچایا تھا تو ایک مشتعل ہجوم نے اس کی گاڑی جلا دی۔

یہ واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ انتہا پسندوں کا صرف کوئی ایک ٹولہ نہیں ہے۔ یہ خرابی اب ہمارے سماج کے اندر ہر طرف رچ بس گئی ہے۔

عدنان کاکڑ: انڈیا میں تو کوئی ضیا الحق نہیں آیا۔ ادھر یہ انتہا پسندی کیوں آ گئی ہے؟

فرنود عالم: اس سوال کو میں آگے بڑھا رہا ہوں۔ ترکی کو اگر ہم دیکھیں تو وہاں بھی مذہبی ذہن جو ہے وہ غالب آ رہا ہے۔ پڑوس میں ہم نے ہندوستان میں دیکھا وہاں پر ہندتوا کی مہم چلی ہوئی ہے۔ امریکہ میں ہم نے دیکھا ٹرمپ تشریف لے آئے ہیں۔ یہ جو پوری دنیا میں ایک ہوا چلی ہے اس کو آپ کس طرح سے دیکھتے ہیں۔ جنرل ضیا تو ہندوستان میں نہیں تھے۔ وہ ترکی میں بھی نہیں تھے وہاں تو مصطفی کمال اتاترک تھے۔ امریکہ میں بھی نہیں تھے۔ تو یہ چیزیں وہاں کیسے ہو گئیں۔ کیا وجہ تھی۔

ہود بھائی: آپ کی بات بالکل درست ہے۔ دنیا کے ہر کونے کھدرے میں مذہبی طاقتیں زور پکڑ رہی ہیں اور یہ صورت حال امریکہ میں بھی نظر آتی ہے۔ دو ہفتہ پہلے میں امریکا کی ریاست میسوری گیا تھا جہاں ٹرمپ کو 70 فیصد سے زیادہ لوگوں نے ووٹ ڈالا تھا۔ اس کے ایک چھوٹے سے شہر میں جو آپ سمجھ لیں کہ گوجرانوالہ کے برابر کا ہے، 350 کے قریب گرجا گھر ہیں۔ ہر محلے میں، ہر گلی میں گرجا گھر ہے اور لوگ اپنی شناخت کسی ایک مخصوص چرچ کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ گویا امریکا میں بھی مذہبیت کا رجحان زور پکڑ رہا ہے۔

پھر سری لنکا جیسے ملک پر ایک نظر ڈالیں۔ کسی زمانے میں یہ امن و آشتی کا گہوارہ ہوتا تھا۔ اور بدھ مت ایک نہایت پرامن مذہب کے طور پر مشہور تھا۔ لیکن اب اسی ملک کے مسلمان اور ہندو خوفزدہ ہیں۔ اسی طرح روہنگیا مسلمان ظلم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ جہاں جہاں مذہبی قوتیں سیاست کے میدان میں اتر آئی ہیں، وہاں وہاں اقلیتوں کو خوب روندا گیا ہے اور انتہا پسندی پورے سماج میں سرائیت کر گئی ہے۔ لہذا آپ کے سوال کو ایک وسیع تر تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔ میرا مدعا یہ ہے کہ قدامت پسندی کا موجودہ رجحان سائنس اور جدیدیت کے خلاف ایک ردعمل کے نتیجہ میں ہے۔

سائنس کی وجہ سے اب دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔ سائنس سے ہم نے ایٹم کا کھوج لگایا ہے، خلا میں ہم دوسرے سیاروں کی طرف نکل پڑے ہیں۔ سائنس کی مدد سے ہم نے یہ بھی جان لیا ہے کہ انسانی ساخت ایسی کیوں ہے اور ویسی کیوں نہیں ہے۔ سائنس اب ہمارے اوپر اس طرح سے حاوی ہو گئی ہے کہ انسان ہر طرف پریشان ہو گئے ہیں کیونکہ ان کو اب یوں لگ رہا ہے کہ جیسا کہ فطرت کی اندھی طاقتیں ہمیں اب چلا رہی ہیں اور جو پرانے مذاہب کے عالم ہیں وہ اب کسی بڑے سوال کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکتے۔ انسانوں کے اندر اس تیز تغیر اور تبدیلی کی وجہ سے ایک عجیب خوف پیدا ہو گیا ہے۔

تقریباً پچاس برس پہلے ایلون ٹافلر نامی ایک مصنف اور محقق نے ایک کتاب لکھی تھی، فیوچر شاک جس میں انہوں نے یہ پیشین گوئی کی تھی کہ کیونکہ سائنس نے اب دنیا کو اتنی تیزی سے بدلنا شروع کر دیا ہے تو اس لئے انسان کا ذہن پریشانیوں اور نفسیاتی الجھنوں میں مبتلا ہو جائے گا۔ اس کو سمجھ میں نہیں آئے گا کہ وہ اِس سمت جائے یا اُس سمت۔ اس لئے کہ جس طرح سے اس کے آبا و اجداد رہتے تھے، جو ماحول ان کا تھا، آج کا ماحول اس سے یکسر مختلف ہے۔ لہذا اپنی زندگی پر قابو پانے کے لئے اور اس میں استحکام پیدا کرنے کی خاطر لوگ اپنی روایات کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں کہ اگر یہ ہمارے ہاتھ سے چھوٹ گئیں تو پھر ہماری بنیادیں بھی ختم ہو جائیں گی۔ جو لوگ سائنس سے ناواقف ہیں وہ اس بے جا خوف کا خاص طور ہر شکار بنتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ گلوبلائزیشن کے نتیجہ میں امیر اور غریب کا فرق بے تحاشا بڑھ گیا ہے۔ غریب طبقہ بے آسرا ہوتا جا رہا ہے اور اس لئے وہ قدیم روایات اور دینی احکامات کا سہارا لیتا ہے۔ اور کوئی اور چارہ دکھائی نہیں دیتا۔

یہی وجہ ہے کہ آج سائنس کے خلاف ایک وسیع پیمانے پر خوف اور نفرت پائی جاتی ہے۔ اب دو دن پہلے آپ نے دیکھا ہو گا کہ سائنسدانوں نے امریکہ اور یورپ میں سائنس کے دفاع میں ایک مارچ کیا تھا۔ حیرت ہوتی ہے کہ ان ملکوں میں جہاں سائنس سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہے، جہاں سائنس کا جنم ہوا تھا، وہاں پر اب سائنسدانوں کو سائنس کے دفاع میں سڑکوں پر نکل آنا پڑا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نہ صرف ہندوستان، پاکستان، سری لنکا اور ایشیا میں بلکہ پوری دنیا میں ہی ایک پریشانی سی ہے۔

مذہب کو استعمال کرنے والی طاقتوں نے اس پریشانی سے خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ وہ یہ دعوی کرتی ہیں کہ ہمارے پاس ہر مسئلے کا جواب ہے۔ ہم تمہیں بتا سکتے ہیں کہ مقصد حیات کیا ہے۔ ہم تمہاری عاقبت سنوار سکتے ہیں۔ قدامت پرستی کے احیا کے پیچھے محرکات دراصل نفسیاتی ہیں، معروضی نہیں۔

عدنان کاکڑ: ایک تو بقا کا خوف ہو گیا۔ اب اس میں برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج یعنی بریگزٹ کا تو سمجھ آتا ہے کہ اس نے بریگزٹ مشرقی یورپ کے خلاف کیا۔ لیکن باقی ساری دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف تو مسلمان ہیں جو مار رہے ہیں یا مر رہے ہیں اور دوسری سائیڈ پر غیر مسلم ہیں۔ تو اس میں آپ تہذیبوں کے ٹکراؤ کا عنصر بھی دیکھتے ہیں؟

ہود بھائی: ہاں تہذیبیں آپس میں ٹکرانے لگی ہیں لیکن تہذیبوں کے اندر بھی تصادم کی شدت بہت بڑھ گئی ہے۔ آج جتنا مسلمان کا خون دوسرے مسلمانوں کے ہاتھوں بہہ رہا ہے، ماضی میں ایسا کبھی نہیں تھا۔ ہر طرف پرانے زخم کھولے جا رہے ہیں۔ اور 1400 سال پہلے کی جنگیں اب پھر سے لڑی جا رہی ہیں۔ ہر طرف لوگ ماضی کی پرستش کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

سرحد کے اس پار ہم دیکھتے ہیں کہ مودی اور بی جے پی کے کارسیوک اپنے قدیم زمانے کو سب سے اچھا اور سنہرا دور سمجھتے ہیں اور اس کے بارے میں بڑھا چڑھا کر بتاتے ہیں مثلاً یہ کہ ہند کے لوگوں کے پاس ہزاروں برس پہلے ایسے خلائی جہاز تھے جو آپ کو زمیں سے مریخ اور مریخ سے عطارد لے جاتے تھے۔ جو پہلی پلاسٹک سرجری ہوئی تھی وہ گنیش کی تھی۔ گنیش کی سونڈ پلاسٹک سرجری سے ادھر سے ادھر کی گئی تھی، وغیرہ۔ مگر یہ سب اس بات کی دلیل ہے کہ اب ہندوستان میں بھی بہت سے لوگ قدیم زمانوں کی طرف لوٹنا چاہتے ہیں۔

جدید زمانے کے تقاضوں کے ساتھ چلنا نفسیاتی طور پر اکثر لوگوں کے لئے بہت مشکل ہو گیا ہے لہذا وہ ماضی کا سہارا لیتے ہیں۔ اس طرح وہ قبائلیت اور اجتماعیت کی طرف جاتے ہیں۔ قبائلیت میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون کس قبیلے کا ہے۔ آپ کا رشتہ صرف اس فرد کے ساتھ جڑے گا جو آپ کے قبیلے کا ہے یا اس سے نزدیک والے قبیلے کا ہے۔ لہذا عالمگیریت یا انسان کو انسان کے طور پر پہچاننا کم ہو گیا ہے۔

عالمگیریت کا نظریہ اس فکری انقلاب سے نکلا تھا جو یورپ میں آج سے تین سو سال پہلے برپا ہوا۔ وہ روشن خیالی کا دور تھا۔ تین صدیوں کے بعد اس کے خلاف ایک ردعمل پیدا ہوا ہے جسے آپ امریکہ اور یورپ میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگ سائنس اور جدیدیت سے نفسیاتی طور پر بہت پریشان ہیں۔ ٹرمپ جیسے لیڈر جو سائنسی تعلیم سے نابلد ہیں، ایسی تحریکوں کی قیادت کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

(2) پرویز ہود بھائی انتہاپسندی پر رائے دیتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).