پیمرا نے منٹو اور دیگر بری باتوں پر پابندی لگا دی


پیمرا نے فیصلہ کیا ہے کہ ادب کا معیار وہ متعین کرے گی۔ کیا ادب ہے اور کیا نہیں ہے اس کا فیصلہ وہی کرے گی۔ اس سلسلے میں ڈرامہ نگاروں کے لئے پیمرا نے ہدایات جاری کی ہیں۔

پیمرا کا حکم ہے کہ ’ڈرامہ حقیقت پر مبنی ہو‘۔ یعنی ڈرامہ نگار آئندہ اخبارات کا مطالعہ کیا کریں اور خبروں کو ڈرامائی تشکیل دیا کریں۔ افسانوں یا خیالی ڈراموں کی گنجائش نہیں ہے۔ ادیب کی بجائے رپورٹر کو اگر ڈراموں کی نگرانی سونپی جائے گی تو یہی ہو گا جو ابصار عالم صاحب کر رہے ہیں۔ رپورٹر کو ڈرامہ راست نہیں آتا، اسے تو حقیقت پر مبنی خبر چاہیے ہوتی ہے۔ مملکت خداداد میں سوچنا منع قرار دیا گیا ہے۔  لیکن ایک منٹ توقف فرمائیے۔ پیمرا نے تو جرم کی ڈرامائی تشکیل پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے۔ یعنی حقیقت بھی نہیں چلے گی اور افسانہ بھی نہیں۔

یہ بھی لازم قرار دیا گیا ہے کہ ’ڈرامہ معاشرے کے ہر طبقے اور اس کے مسائل کی نشاندہی کرے‘۔ یعنی آپ نے اگر سبزی فروش پر ڈرامہ لکھا ہے تو اس میں پائلٹ کا کردار بھی لازم ہو گا اور فیکٹری اونر کا بھی اور محلے کے نکڑ پر کھڑے گنڈیریاں چوسنے والے کا بھی۔

پیمرا نے یہ نشاندہی بھی کی ہے کہ ہمسایہ ممالک کی ثقافت پر مبنی ڈرامہ ناظرین کی کوفت کا باعث بن رہا ہے کیونکہ وہ ہمارے معاشرے کی عکاسی نہیں کر رہا ہے۔ پیمرا کو اطلاع ہو کہ ایسا کمرشل ڈرامہ جسے دیکھنے والا کوئی نہ ہو، وہ کوئی بھی تجارتی مقاصد کے لئے بنایا گیا چینل نشر نہیں کرے گا۔ اگر یہ ڈرامے بک رہے ہیں اور بن رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو دیکھنے والوں کی مارکیٹ موجود ہے۔ اگر ابصار عالم صاحب کو کسی ڈرامے سے کوفت محسوس ہو رہی ہے تو اسے مت دیکھیں اور چینل بدل لیں۔ دوسرے بہت لوگ ہیں جو اسے پسند کرتے ہیں۔

ذاتی معاملات، ازدواجی زندگی، اور منفی رجحانات کو نشر کرنے سے اجتناب کرنے کا حکم جاری ہوا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’ڈراموں کی عکس بندی میں گھریلو مسائل کو منفی طور پر پیش نہ کیا جائے‘۔ ڈرامہ یا افسانہ اگر انسانوں پر مبنی ہو گا تو وہ ان کے ذاتی معاملات کو زیر بحث لائے گا۔ کیا یہ معمولی سی چیز ابصار عالم صاحب نہیں جانتے ہیں؟ کیا طلاق یا پرتشدد خانگی صورت حال کو مثبت انداز میں پیش کیا جا سکتا ہے؟ یا پھر ان کی منفیت دکھا کر ہی معاشرے کو سمجھایا جا سکتا ہے کہ یہ بری چیز ہے۔ حکم آیا ہے کہ ’طلاق جیسے حساس معاملے کو ڈرامہ میں نہایت احتیاط سے دکھایا جائے اور اس سے وابسطہ مروجہ اسلامی اور قانونی پیچیدگیوں کا حد درجہ خیال رکھا جائے‘۔ کیا ابصار عالم صاحب کی یہ رائے ہے کہ عوام قانونی رائے اور فتوی لینے کے لئے وکیل اور عالم کے پاس جانے کی بجائے ڈرامہ دیکھتے ہیں؟

حکم صادر ہوا ہے کہ نسل، ذات، قومیت، نسلی یا لسانی رنگ، مذہب، فرقہ، عمر، ذہنی یا جسمانی معذوری پر نازیبا مناظر کی تشکیل و منظر کشی سے اجتناب کیا جائے۔ کیا ابصار عالم صاحب کو اس شے کا علم ہے کہ کسی ایشو پر معاشرے میں حساسیت بڑھانے کے لئے ادیب اور فن کار اسے ایسے انداز میں پیش کرتا ہے کہ اس شخص یا طبقے کی مظلومیت ظاہر ہو، اس سے ناانصافی دکھائی دے، اس کا غلط استعمال لوگوں کو نظر آئے۔ اس پر بات کی جانی چاہیے، نہ کہ اس پر پابندی لگائی جائے۔

دوران ڈرامہ کسی شخص یا پیشے کی حیثیت اور وقار کو مجروح نہ کرنے کا فرمان صادر ہوا ہے۔ شیکسپئیر صاحب، آپ کا وہ مشہور ڈرامہ ’وینس کا تاجر‘ تو پیمرا نہیں چلنے دے گی جس میں معزز سود خور شائیلاک کی شخصیت اور پیشے کی تضحیک کی گئی ہے اور اس کا وقار مجروح کیا گیا ہے۔ ابصار عالم صاحب کے فرمان کا مطلب تو یہ بنتا ہے کہ معاشرے کو منفی کرداروں سے پاک دکھایا جائے اور ڈرامے یا افسانے میں ویلین نہ ہو۔

پیمرا نے فرمایا ہے کہ کالے جادو، عطائیت یا توہم پرستی کی تشہیر نہ کی جائے۔ کیا ان سے جڑے مسائل کو دکھانا معاشرے کے لئے بہتر ہے یا ان کی تشہیر ہے؟

اسلامی تعلیمات پر ڈرامہ لکھنے سے پہلے کسی مستند عالم سے راہنمائی لینے کا ضابطہ بھی بنا ہے۔ چلیں اب علما سے تصدیق شدہ ’حلال اسلامی بینکاری‘ کے بعد ’حلال اسلامی ڈرامے‘ کی گنجائش بھی پیدا ہو گئی ہے۔ صدر ممنون حسین پیمرا کی جانب سے یہ گنجائش نکالنے پر ضرور خوش ہوں گے۔

ضابطہ بنایا گیا ہے کہ ڈراموں میں اسراف و نمود و نمائش سے اجتناب کیا جائے۔ حضرت ابصار عالم، پیدل کو سائیکل والا نمود و نمائش کا مرتکب دکھائی دیتا ہے، سائیکل والے کو موٹر سائیکل والا، اسے کار والا، اسے لینڈ روور والا، تو ابصار عالم صاحب یہ وضاحت بھی کر دیں کہ ڈرامہ لکھتے ہوئے پیدل خواتین و حضرات کو ذہن میں رکھںا لازم ہے یا پھر لینڈ روور والے کو۔

نیا قانون آیا ہے کہ ’سگریٹ نوشی، شراب نوشی اور منشیات کی عادت کو پرکشش بنانا یا خواہش کے طور پر پیش کرنا ممنوع ہے۔ تعلیمی مقاصد کے لئے ایسا دکھانا ضروری ہو تو ان کے خطرناک و نقصان دہ اثرات کو بھی اس کے ساتھ دکھانا ہو گا‘۔ یعنی اگر ہیرو سگریٹ پی رہا ہے تو اسے ڈرامے کے آخر میں پھیپھڑوں کے کینسر سے مرتا دکھایا جانا لازم ٹھہرا ہے۔

ابصار عالم صاحب کی یہ ہدایات پڑھ کر ہمیں تو یہی سمجھ آیا ہے کہ وہ صرف اور صرف سعادت حسن منٹو کے افسانوں کی ڈرامائی تشکیل پر پابندی لگانے کے خواہاں ہیں۔ ان کو ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ میں ہمسایہ ملک کی ثقافت قبول نہیں ہے۔ ’جوتا‘ میں ان کو سر گنگا رام کا بت ناپسند ہے۔ ’کھول دو‘ کی عریانیت سے وہ نالاں ہیں۔ ’گنجے فرشتے‘ ان کو برے لگتے ہیں۔ ’کالی شلوار‘ کی سلطانہ سے وہ تنگ ہیں۔ طرہ یہ کہ منٹو کے افسانوں کی نہ وکلا سے منظوری لی گئی تھی اور نہ علما سے۔

پتہ نہیں منٹو کو اردو کا بڑا افسانہ نگار کون کہتا ہے۔ ابصار عالم صاحب نے تو اس پر پابندی لگا دی ہے۔ بلکہ منٹو کیا پورے ادب پر ہی پابندی لگا دی ہے۔ اچھا کیا۔ ادب ہوتا ہی برا ہے۔ لوگوں کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ پیمرا تو ٹھیٹھ سرکاری بابوؤں کا ادارہ ہے۔ ادھر سوچنے کا کیا کام؟ اسے ادب سے کیا علاقہ؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar