پاکستان اور اسرائیل کے مابین خفیہ سفارت کاری


حالیہ چند برسوں میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر جیسے عرب ممالک کا رویہ اسرائیل کے حوالے سے نرم ہوا ہے۔ ترکی، اردن اور مصر پہلے ہی تعلقات استوار کر چکے ہیں۔ تازہ حالیہ تبدیلیاں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی طرف پیش قدمی کا بھی اشارہ ہیں۔

پاکستان ابھی تک تین بنیادی وجوہات کی بناء پر اسرائیل سے تعلقات قائم نہیں کر سکا۔ نمبر ایک عرب مسلم ممالک کے ساتھ مذہبی یکجہتی کی وجہ سے، نمبر دو دنیا بھر میں قدامت پسند مسلمان تنظیموں کے رد عمل کی وجہ سے، اور نمبر تین ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام اور مذہبی گروپوں کے رد عمل کے خوف سے۔ اگر سعودی عرب سفارتی تعلقات استوار کرتا ہے اور کچھ ہی عرصے بعد پاکستان بھی اس کی پیروی کرے گا۔ ترک، اردن یا پھر مصر ماڈل کو اپنا لیا جائے گا۔

ماضی میں سیاسی سطح پر پاکستان اور اسرائیل کے مابین کب کب اور کہاں کہاں خفیہ رابطے ہوئے۔ شہباز شریف ، بے نظیر بھٹو، اکرم ذکی، پرویز مشرف، ظفراللہ خان، شہریار خان، گوہر ایوب خان، مولانا اجمل قادری، خورشید قصوری، سیدہ عابدہ حسین، رفیق تارڑ اور جمشید مارکر کن کن اسرائیلیوں سے اور کب کب ملے، اس کا اندازہ سابق اسرائیلی سفیر اور تین کتابوں کے مصنف ڈاکٹر موشے کا ایک تحقیقی مقالہ، اسرائیلی اسٹیٹ آرکائیو، سینٹرل زینوسٹ آرکائیو اور اسرائیلی وزارت خارجہ کے آرکائیو کی شائع کردہ دستاویزات پڑھنے سے ہوتا ہے۔ اس تحریر میں صرف سیاسی سطح پر ہونے والے رابطوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس میں فوجی اور خفیہ ایجنسیوں کی سطح پر ہونے والے رابطے شامل نہیں ہیں۔

سب سے پہلا رابطہ اسرائیل کے قیام کے فوری بعد ہوا تھا۔ اسرائیلی وزیر اعظم ڈیوڈ بن گوریون نے محمد علی جناح کو سفارتی تعلقات کے قیام کے لیے ایک ٹیلیگرام لکھا تھا لیکن اس کا اسرائیل کو مناسب جواب نہیں دیا گیا تھا۔ 1949ء میں عربوں کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کے بعد چند اسرائیلی حکومتی اہلکاروں کی خواہش تھی کہ وہ کراچی میں ایک سفارت خانہ کھولیں یا کم از کم تجارتی روابط کا آغاز کیا جائے۔ اس حوالے سے سب سے پہلا رابطہ لندن میں پاکستانی سفیر اور اسرائیلی، جیوش تنظیموں کے ایک وفد کے درمیان 1950 کے آغاز میں ہوا۔ اس ملاقات میں پاکستان سے ان یہودیوں کو محفوظ راستہ اور پرمٹ فراہم کرنے کا کہا گیا جو افغانستان سے براستہ بھارت اسرائیل جانا چاہتے تھے۔ بعدازاں یہ یہودی براستہ ایران اسرائیل پہنچے تھے۔

14 جنوری 1953ء کو پاکستانی وزیر خارجہ ظفراللہ خان اور امریکہ میں اسرائیلی سفیر ابا ایبن کے مابین نیویارک میں ایک خفیہ ملاقات

shimon perez

ہوئی۔ اس ملاقات کا موضوع دونوں ملکوں کے مابین سفارتی تعلقات تھے۔ ظفراللہ خان نے اسرائیلی سفیر کو بتایا کہ ملک میں شدید مذہبی مخالفت کی وجہ سے اسرائیل کے ساتھ مستقبل قریب میں سفارتی تعلقات قائم نہیں کیے جا سکتے۔ ان کا کہنا تھا، ’’اس کے باوجود کہ پاکستانی حکومت اسرائیل سے نفرت نہیں کرتی اور اسے مشرق وسطیٰ میں ایک ایسا عنصر سمجھتی ہے، جس کے بارے میں غور ہونا چاہیے۔‘‘ تاہم انہوں نے اس ملاقات میں سر دست ماہرین، طلبا اور پروفیسروں کے باہمی دوروں کی منظوری کا اظہار کیا اور یہ بھی کہا کہ اگر عرب اسرائیل کے ساتھ کسی معاہدے پر تیار ہوئے تو پاکستان معاہدہ کرنے کے حق میں اپنا وزن ڈالے گا۔

بعد ازاں مارچ اور اپریل 1954ء کے درمیان ظفراللہ خان نے یہ بیانات دینے شروع کیے کہ اسرائیل کو نہ تو تسلیم کیا جائے گا اور نہ ہی پاکستان ایسا کرنے کا کوئی ارادہ رکھتا ہے۔ اس وقت ان بیانات اور امریکا کی طرف سے پاکستان کو ہتھیاروں کی فراہمی کا معاملہ اسرائیلی پارلیمان (کنیسٹ) میں اٹھایا گیا۔ اس وقت تقریبا پانچ سو یہودی کراچی میں آباد تھے۔ اسرائیلی وزارت خارجہ نے پارلیمان میں تجویز دی کہ ورلڈ جیوش کانگریس اور دیگر تنظیموں کے ذریعے پاکستان پر اقوام متحدہ میں ان یہودیوں کی حفاظت کے لیے دباؤ ڈالا جائے گا۔

تمام تر صورتحال کے باوجود اسرائیل نے بیلجیم کی کمپنی ایف این کے ذریعے 1961ء اور 1963ء میں پاکستان کو اوزی مشین گنیں فروخت کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ یہ کمپنی اسرائیلی لائسنس کے تحت ہتھیار پیدا کرتی تھی۔

1965ء میں پاک بھارت جنگ ہوئی۔ اس وقت پاکستانی امور کے امریکی ماہر نے اسرائیلی سفارت کار ابے ہیرمن کو مشورہ دیا کہ پاکستان

akram zaki

کی فوج کے ساتھ روابط بڑھانے کا یہ اچھا وقت ہے لیکن سفیر نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔

جنوری 1992ء میں چین اور بھارت سے روابط معمول پر لانے کے بعد اسرائیل نے پاکستان سمیت ایشیا کے مسلم ممالک میں اسرائیل مخالف جذبات پر غور کرنا شروع کیا۔ اسرائیل کو محسوس ہوا کہ پاکستان کا رویہ تبدیل ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے واشنگٹن میں پاکستانی سفیر سیدہ عابدہ حسین کے اس انٹرویو کو ایک اشارہ سمجھا گیا، جس میں سیدہ عابدہ حسین نے کہا تھا کہ فلسطینی اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں، بھارت نے مکمل روابط استوار کر لیے ہیں اور اب کوئی وجہ نہیں رہتی کی پاکستان اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہ کرے۔ یہ انٹرویو شائع ہونے کے بعد پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس کی تردید کی۔

 1992ء میں ہی ورلڈ جیوئش کانگریس کے میلبورن میں ایک نمائندے نے اسرائیلی حکومت سے کہا کہ اس کے چند پاکستانی تاجر دوستوں نے یہ بات ان تک پہنچائی ہے کہ پاکستانی وزیر خارجہ شہریار خان اسرائیل کے ساتھ خفیہ مذاکرات شروع کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اسی برس جون میں کانگریس مین اسٹیفن سولرز نے پاکستانی وزیر خارجہ شہریار خان اور سفیر سیدہ عابدہ حسین سے امریکہ میں ملاقات کی اور انہیں یہ عندیہ دیا گیا کہ جیوش آرگنائزیشن کے نمائندوں کے ساتھ ملاقات ممکن ہے۔ اسی سال پاکستانی اور اسرائیلی سفارت کاروں کے مابین ایک اور ملاقات ہوئی۔ اسرائیلی حکام کے مطابق اس وقت بین الاقوامی سطح اور پاکستان میں اسرائیل مخالف جذبات کم تھے۔

16 دسمبر 1992 کو پاکستانی وزیر اعظم کے وفد اور اسرائیلی وزیر خارجہ شیمون پریز کے وفد میں شامل افراد کی ایک اتفاقیہ ملاقات ہوئی۔ اس وقت پاکستانی وزیراعظم اور اسرائیلی وزیر خارجہ دونوں جاپان کے دورے پر تھے اور ایک ہی ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ اسی وقت پاکستانی وزیر اعظم کے دفتر کے ڈائریکٹر جنرل اکرم ذکی سے یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا نواز شریف اور پیریز کے مابین کوئی باقاعدہ ملاقات ہو سکتی ہے؟

اکرم ذکی نے جواب دیا کہ ایسا خفیہ طور پر نہیں کیا جا سکتا لیکن وہ جنوری 1993ء میں سوئٹزر لینڈ کے شہر ڈیووس میں ایک ملاقات کا اہتمام کرنے کی کوشش کریں گے، جہاں یہ دونوں رہنما موجود ہوں گے۔ اس وقت یہ بات بھی نوٹ کی گئی کہ جب نواز شریف اقتدار میں ہوتے ہیں تو پاکستان میں اسرائیل مخالف بیانات اور جذبات میں کمی آتی ہے۔

ان دنوں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے بھی اسرائیل کے شدید تحفظات تھے۔ اسرائیلی وزارت خارجہ کی دستاویزات کے مطابق اکرم ذکی نے کہا کہ وہ اسرائیل کو یہ گارنٹی دینے کے لیے تیار ہیں کہ حساس ایٹمی ٹیکنالوجی پاکستان کے مغربی ملکوں (ایران اور عرب ممالک) کو فراہم نہیں کی جائے گی۔ بدلے میں اسرائیل سے واشنگٹن میں پاکستان کی مخالفت نہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ جواب میں اسرائیلی عہدیدار نے کہا کہ جب تک سفارتی تعلقات میں پیش رفت نہیں ہوتی، اس وقت تک پاکستانی ’یقین دہانیوں‘ پر عمل کرنا اسرائیل کے لیے مشکل ہے۔ اکرم ذکی نے دوبارہ کہا کہ انہیں پاکستان کے شدت پسند حلقوں کی شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ دنیا بھر کے مختلف دارالحکومتوں میں پاکستانی اور اسرائیل کے نمائندوں کے درمیان حالیہ ملاقاتوں سے آگاہ ہیں اور عابدہ حسین کے مثبت بیان کے بارے میں بھی۔ انہوں نے اسرائیلی حکام سے کہا کہ پاکستان کے پاس اس کی تردید کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

نوے کی دہائی میں اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر گیڈ یاکوبی نے پاکستانی نمائندوں سے مسلسل رابطے قائم رکھے۔ 1992 میں اقوام متحدہ میں اسرائیلی وفد کو فیصلہ کرنا تھا کہ سلامتی کونسل میں پاکستان کے انتخاب کی حمایت کی جائے یا نہیں۔ یاکوبی اس کے حق میں تھے اور یروشلم سے اجازت ملنے کے بعد پاکستان کے حق میں ووٹ دیا گیا۔ اس سے اقوام متحدہ میں یاکوبی اور پاکستانی سفیر جمشید مارکر (دنیا میں سب سے زیادہ ملکوں میں سفارت کار رہنے کی وجہ سے ان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں بھی شامل ہے) کے درمیان مسلسل رابطوں کی راہ ہموار ہوئی۔

جمشید مارکر نے اقوام متحدہ میں اس حمایت پر اسرائیل کا شکریہ ادا کیا اور 17 مارچ 1993ء کو جمشید مارکر اور اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابن کے مابین ایک ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد جمشید مارکر نے یاکوبی کے ایک استقبالیہ میں شرکت کی۔ یہ خبر پاکستانی میڈیا تک پہنچی اور اس ملاقات کو پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف سازش قرار دیا گیا۔ 2 نومبر 1995ء کو یاکوبی نے پاکستان کے نئے سفیر احمد کمال سے خفیہ ملاقات کی اور انہیں تمام پیش رفت سے آگاہ کیا۔ احمد کمال نے جواب دیا کہ پاکستانی پوزیشن میں تبدیلی مشرق وسطیٰ اور پاکستانی عوام کی رائے میں تبدیلی سے ہی ممکن ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments