پاکستان کی نفرت کی تثلیث


ہندوستان کے خلاف کبھی نہ ختم ہونے والی پاکستان کی جنگ میں اسے ایک نیا حلیف مل گیا ہے یہ اور بات کہ وہ ہمارے بدترین قاتلوں کا عوامی چہرہ رہا ہے۔

سالوں تک لیاقت علی جسے ہم احسن اللہ احسان کے طور پر جانتے ہیں، قومی میڈیا میں قتل و غارت کا استعارہ رہا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے ہر بہیمانہ غارت گری کے بعد احسان الله احسان فاتحانہ بیانات جاری کرتا یا دیکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے کر دینے والی ویڈیوز جاری کرتا جو ایک جانب تو پاکستانی میڈیا کے لئے خدا خوفی کا سامان فراہم کرتیں وہیں دوسری جانب عوام میں نفرت کا موجب بنتیں۔

جنوری 2014 میں جب ٹی ٹی پی نے ایکسپریس ٹیلی وژن کے تین ملازمین کو قتل کیا تو نیوز چینل نے احسان اللہ احسان کو فون کے ذریعہ آن ایئر کیا۔ اس نے بہت اطمینان سے قتل کرنے کی وجوہات بیان کیں اور انٹرویو لینے والے اینکر نے بہت احترام کے ساتھ بار بار اس بات کا وعدہ کیا کہ وہ طالبان کو اپنے چینل میں زیادہ ایئر ٹائم مہیا کریں گے، مذکورہ اینکر ساتھ ساتھ لجاجت سے اس بات کی یقین دہانی بھی مانگتا رہا کہ اب چینل پر مزید حملے نہیں کئے جائیں گے۔

پچھلے سال احسان الله احسان نے لاہور کے گلشن پارک میں ایسٹر پر ہوئے دھماکے کی بھی ذمہ داری قبول کی، اس دھماکے میں درجنوں لوگ شہید ہوئے۔ اس سے پہلے وہ ملالہ نامی لڑکی پر ہوئے حملے کی بھی ذمہ داری قبول کر چکا ہے۔ ملالہ کو سر پر گولی ماری گئی جب وہ اپنے سکول کے راستے میں تھی، احسان الله احسان نے اپنے پیغام میں یہ بھی کہا تھا کہ اگر ملالہ زندہ بچ گئی تو تحریک طالبان پاکستان اسے ڈھونڈ کر دوبارہ نشانہ بنائے گی۔

احسان اللہ احسان کی ’تقریب رونمائی‘ کے ذریعہ پاکستانی فوج عوام کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ کوئی بھی ہزاروں پاکستانیوں کو قتل کرنے کے بعد اگر صرف یہ ضمانت دے کہ اسے ہندوستان سے اتنی ہی نفرت ہے جتنی کہ پاک فوج کو تو اسے معاف کیا جاسکتا ہے۔

اگرچہ اس عمل کی مذمت بھی کی گئی، پیمرا کی جانب سے احسان الله احسان کا انٹرویو جیو ٹیلی وژن پر آن ایئر کرنے پر تب پابندی لگا دی گئی جب طالبان کے حملوں میں نشانہ بننے والوں کے خاندانوں نے اس اقدام پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔ آرمی پبلک سکول میں طالبان کے ہاتھوں مارے جانے والے بچوں کے والدین احسان الله احسان کو اسکول کے سامنے پھانسی دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

مگر فوج اس بات پر مصر رہی ہے کہ اس کی پریڈ کروائی جائے، اسے ٹی وی کیمروں کے سامنے فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ دکھایا جائے نیز ایسی ویڈیو جاری کی جائے جس میں وہ اپنے ساتھی طالبان کی عیاشی پر مبنی کہانیاں سنائے کہ کیسے ان کی تین تین بیویاں ہیں اور کیسے تحریک طالبان پاکستان کے موجودہ سربراہ نے اپنے استاد کی بیٹی سے زبردستی شادی کر لی۔ شاید مقصد یہ باور کروانا تھا کہ طالبان کوئی ایسی خوفناک جنگجو تنظیم نہیں ہے جس کے نظریات پاکستانی معاشرے میں گہری جڑیں رکھتے ہیں بلکہ یہ نفس امارہ کا مارا شہوت پرست گروہ ہے جو ہندوستان سے پیسے لے کر کارروائیاں کرتا ہے۔ جی وہی ہندوستان جو ہمارا ازلی ابدی دشمن ہے۔

اگرچہ یہ درست ہے کہ اس بات کے ثبوت پائے جاتے ہیں کہ کشمیر میں پاکستانی مداخلت کے بدلے میں ہندوستان نے بعض گروہوں کو پاکستان میں کارروائیوں کے لئے سرپرسرتی فراہم کی مگر کیا ہم واقعی ہندوستان کے خلاف جاری اپنی مہم میں اپنے بچوں کے قاتلوں کو اپنے مفاد میں استعمال کرنا چاہتے ہیں؟

طالبان کون ہیں؟ پاکستانی معاشرہ آج بھی اس سوال پر منقسم ہے۔ کچھ تو انہیں وحشی جنگجو سمجھتے ہیں جو ہمارے ملک کی بچی کھچی جمہوریت اور شہری نظام کو نیست و نابود کرنے کے درپے ہیں۔ جب کہ دوسرے سمجھتے ہیں کہ طالبان ہمارے ناراض بھائی ہیں، نیز یہ کہ طالبان بھی ایک انصاف پر مبنی سماج کی تشکیل چاہتے ہیں، بس ان کے لئے ایسا معاشرہ حاصل کرنے کے لئے طالبان کے طریقے قابل قبول نہیں ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ طالبان بہت بہادر ہیں اور ہم ان پر کچھ کچھ فخر بھی کرتے ہیں۔ افغانستان میں یہ ناراض بھائی، ہماری تخلیق، امریکہ کو چھٹی کا دودھ یاد کروانے میں اب بھی مصروف ہیں۔

مگر ہماری بدقسمتی کہ وہ پاکستان میں بھی ایسی ہی بہادری کے ساتھ لڑنے میں مشغول ہیں!

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ طالبان ہندوستان کے خلاف ہماری تاریخی لڑائی میں ہمارے اثاثے ہوتے۔ یادش بخیر جب ہندوستان اور پاکستان 2008 میں جنگ کے دہانے پر تھے تو اس وقت کے تحریک طالبان پاکستان کے رہنماؤں نے اس بات کی قسم کھائی تھی کہ وہ پاکستانی فوجیوں کے کندھوں سے کندھا ملا کر ہندوستان کے خلاف لڑیں گے۔

اس وقت کے تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان مولوی عمر نے کہا تھا کہ ’’اگر ہندوستان نے پاکستان پر حملہ کرنے کی جرات کی تو انشاالله ہم پاکستانیوں کی خوشی اور غمی میں برابر کے شریک ہوں گے۔ پاکستانی فوج کے ساتھ اپنی دشمنی کو ایک طرف رکھ کر طالبان ان کی سرحدوں اور مملکت کی حفاظت ان کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر کریں گے۔‘‘

آج جب کہ قوم اس بات کا فیصلہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ آیا کل کے دہشت گرد آج کے محب وطن ہوسکتے ہیں یا نہیں فوج نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ اس معاملے میں اس کی رائے حتمی ہوگی۔

پچھلے سال ڈان نے یہ رپورٹ دی تھی کہ ملک کی سول و فوجی قیادت ملک میں ہندوستان مخالف عسکری گروہوں کے مستقبل کے معاملے میں منقسم ہے۔ ان گروہوں پر اکثر یہ الزامات لگتے رہتے ہیں کہ یہ پاکستان سے بھارت کے اندر حملوں میں ملوث ہیں۔ فوج نے اس رپورٹ کو قومی سلامتی میں رخنے سے تعبیر کیا تھا اور اس بات کا سختی سے مطالبہ کیا تھا کہ قیادت کے بیچ اس اختلاف کی رپورٹ کو لیک کرنے کے ذمہ دار لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ اس معاملے کو جسے ڈان لیکس کا نام دیا جا رہا ہے کی تفتیش کے لئے اعلی سطحی کمیٹی قائم کی گئی۔

پچھلے ہفتے اس کمیٹی کی سفارشات کو دیکھنے کے بعد وزیراعظم نے اپنے دو قریبی ساتھیوں کو عہدوں سے ہٹانے اور اخباری تنظیموں کو ایک صحافی کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایت جاری کی۔ فوج کے ترجمان نے اس پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ’’نوٹیفیکیشن کو نامنظور کیا جاتا ہے‘‘۔

فوج جمہوری نمائندوں کے ساتھ بیٹھ کر کسی قسم کا مکالمہ کرنے کو تیار نہیں ہے جس کے ذریعہ یہ طے کیا جاسکے کہ ’’کون اچھا یا برا جنگجو ہے یا کون اچھا یا برا پاکستانی ہے‘‘۔

بہت سے پاکستانی اب بھی پاکستانی فوج سے محبت کرتے ہیں اور بہت سے سیاستدان آج بھی اس سے ڈرتے ہیں۔ وہ اپنے مخالفین سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے فوج کا سہارا لیتے ہیں، انہیں اگر غدار نہ کہیں تو کم از کم قومی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دے کر کام چلاتے ہیں۔ بہت سے سیاستدان وزیراعظم نواز شریف کی اس جرات پر ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہوں نے بند کمرے میں ہوئی اس گفتگو میں فوج کے اچھے اور برے دہشت گرد کے نظریہ کی خامیوں کی نشان دہی کی۔

کہا جاتا ہے کہ اکثر ممالک کے پاس ایک فوج ہے مگر پاکستان میں فوج کے پاس ایک ملک ہے۔ اگر سیاستدان ملک واپس لینا چاہتے ہیں تو انہیں فوج کو خوش کرنے کے لئے ایک دوسرے کو غدار کہنے کی روایت کو ترک کرنا ہوگا۔

__________________

یہ مضمون نیویارک ٹائمز کے لئے لکھا گیا جسے عمید ملک نے ’ہم سب‘ کے لئے ترجمہ کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).