فاٹا میں نیب کا تاریخی قدم مگر ۔۔۔


حالیہ عرصے میں فاٹا کے حوالے سے حوصلہ افزا چیزیں سامنے آئی ہیں جس کی وجہ سے فاٹا کا ایک خوشنما نقشہ دل میں ابھر کر سامنے آتا ہے، خاص کر اگر فاٹا مکمل طورپر صوبے میں ضم ہوا تو امید ہے کہ حالات نہایت تیزی کے ساتھ بہتری کی طرف جائیں گے اور اس ملک و خطے کے لئے نہایت ضروری علاقہ کاروباری راستہ بنے گا اور ملک کی ترقی و خوشحالی میں بڑی رکاوٹ بھی ختم ہوجائے گی۔ فاٹا میں تبدیلی کیسے آئے اور اس کے لئے عملی طور پر کیا اقدامات اٹھائے جائیں؟ اس سلسلے میں اب تک عملی اقدامات نہیں اٹھائے جاسکے اس کے باوجود کہ فاٹا دن بدن پرامن بنتا جارہا ہے اور امید ہے کہ مزید بہتری ہوگی لیکن سوال یہ ہے کہ اس کامیابی کا سلسلہ برقرار کیسے رکھا جائے کیونکہ اگر ایک طرف امن آرہا ہے تو دوسری طرف لوگوں کی بنیادی ضروریات کی چیزیں اس طریقے سے نہ میسر کی جاسکیں جس کی ضرورت تھیں۔

اس کی ذمہ داری یقیناً فاٹا میں موجود قوانین پر ہے جو ایک طرف پولیٹیکل ایجنٹ کو لاحاصل اختیارات دیتی ہیں اور دوسری طرف کرپشن کی انتہا کا کوئی اختتام نظر نہیں آتا بلکہ اگر دیکھا جائے تو کرپشن ایک کاروبار کے طورپر سامنے آرہی ہے جس کو ایک عام سا رواج سمجھا جانے لگا ہے۔ کرپشن کے حوالے سے اب تک تو اعلی حکومتی سطح پر کوئی خاص قدم نہیں اٹھے لیکن جمعرات چار مئی کو ایک تاریخی دن کے طورپر یاد رکھا جائے گا جب ڈائریکٹر جنرل نیب خیبر پختونخواہ نے گورنر ماڈل سکول ٹانک کے فنڈز میں ہونے والی خرد برد کا نوٹس لیتے ہوئے پولیٹیکل ایجنٹ جنوبی وزیرستان سے دو تین دن میں جواب طلب کیا اور سکول فنڈز کے حوالے سے سارا ریکارڈ طلب کرلیا ہے۔

’پیپل اکاؤنٹبلیٹی فاٹا‘ کے چئرمین انجنئر غنی گل محسود نے اپنی خصوصی درخواست میں ڈی جی نیب سے استدعا کی ہے کہ اس وقت سکول کے لئے ہر ڈومیسائل پر پچاس روپے، ہر پاسپورٹ صفائی پر پانچ سو روپے وصول کیے جاتے ہیں جس کا اگر حساب لیا جائے تو اس بہت بڑی رقم کا کوئی حساب کتاب نہیں۔ دوسری طرف قومی کمیشن کی مد میں بہت سالوں سے کروڑوں روپے جمع کیے جاچکے ہیں لیکن اس کا حساب بھی کسی کے پاس نہیں کہ یہ پیسے کس کے اکاؤنٹ میں جارہے ہیں اور آیا یہ رقم غائب کی جاچکی ہے کیونکہ سکول اساتذہ کو انتہائی کم تنخواہ ملتی ہے جو اکثر سکول فیس سے پوری ہوجاتی ہے۔

جنوبی وزیرستان کے جن لوگوں سے ہماری بات ہوئی ہیں وہ اس بات کے لئے بہت خوش ہیں کہ کم ازکم نیب نے یہاں بھی اچھے کام سے ابتداء کی ہے اور اس سے مستقبل میں کئی اہم کیسیز سامنے آسکتے ہیں جو اگر قابل گرفت ثابت ہو تو نیب علاقے میں ایک بہت بڑی تبدیلی کا موجب بنے گی۔ وزیرستان حالیہ سالوں کا ایک ایسا نام ہے جو دنیا میں کئی حوالوں سے ہاتھوں ہاتھ بکتا ہے، بالخصوص میڈیا کو آج تک وزیرستان میں سب کچھ برا ہی نظر آتا رہا ہے لیکن آج تک اس میڈیا نے ان پہلوؤں کو قابل غور نہیں سمجھا۔ آج تک کسی چینل نے بریکنگ نیوز چلانے کی زحمت نہیں کی کہ یہاں کرپٹ انسانی قصاب غریب قبائل کا خون چوس رہے ہیں۔

حال ہی میں محکمہ ایجوکیشن پر بڑے پیمانے پر مبینہ طور پر غیرقانونی طور بھرتیاں ہوئی ہیں اور ایک مقامی صحافی نے بتایا کہ میں نے بھی این ٹی ایس کے لئے اپلائی کیا ہے اور کچھ دنوں میں ٹیسٹ بھی اناؤنس ہوچکے ہیں لیکن میری معلومات یہ ہیں کہ پوسٹوں پر پہلے ہی بھرتیاں ہوچکی ہیں۔ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ محکمہ ایجوکیشن میں کتنا ہی ایماندار افسر کیوں نہ آئے، اگر وہ پولیٹیکل ایجنٹ کے آگے سرخم تسلیم نہیں کرے گا تو اسے نوکری کے لالے پڑتے ہیں۔ محکمہ ایجوکیشن کے حوالے سے مزید معلومات بھی سامنے آئیں گے کیونکہ اس وقت پاک فوج نے تمام اساتذہ کی فہرست مانگی ہیں اور ذرائع بتارہے ہیں کہ خواتین اساتذہ کی بھرتیوں میں بہت بڑے گھپلے ہوئے ہیں اور ان میں مبینہ طور پر سابقہ پولیٹیکل ایجنٹ، اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ وغیرہ کے رشتہ دار خواتین میرٹ کے بغیر بھرتی ہوئی ہیں، اور مبینہ طور پر پولیٹیکل ایڈمنسٹریشن میں موجود اہلکاروں کی ازواج بھی بھرتی شدہ اساتذہ میں شامل ہیں۔

اس سارے معاملے میں بظاہر اگر ایک طرف کرپشن کی گئی ہے تودوسری طرف اکثریت نان لوکل اساتذہ کی ہے۔ محکمہ ایجوکیشن کے ایک اہلکار نے بتایا کہ اگر ایسا کچھ ہوا بھی ہے تو اس معاملے کو سامنے لانا بہت مشکل ہوگا کیونکہ اگر کسی نان لوکل کلرک یا سٹینو کی بیوی غیرقانونی طورپر بھرتی ہوئی بھی ہے تو اس کا نام سامنے لانا اس لحاظ سے مشکل ہوگا کہ ان خواتین اساتذہ کے سرٹیفیکیٹس میں والد کے نام درج ہوتے ہیں اور اس کے بارے میں معلومات لینا کافی مشکل ہوگا۔ یہاں اگر نیب نوٹس لے تو معاملات جلد سامنے آجائیں گے اور اگر محکمہ ایجوکیشن کو درست ٹریک پر ڈالنے میں کامیابی مل جائے تو علاقے کا مستقبل مزید روشن ہوجائے گا۔

موجودہ پولیٹیکل ایڈمنسٹریشن نے اودھم مچارکھا ہے لیکن بدقسمتی سے اعلی حکام خود اپنے معاملات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہرروز پولیٹیکل ایجنٹ کے خلاف کسی نہ کسی معاملے پر احتجاج ہوتے ہیں اس کے تبدیلی کے مطالبے کیے جاتے ہیں لیکن ہوتا کچھ نہیں۔ بلکہ اب تو سکول کے بچے بھی اس تبدیلی کے خواہاں ہیں مگر نظام میں ایسا کوئی موومنٹ نظر نہیں آرہا۔ ہمارے ذرائع کے مطابق فاٹا سیکرٹریٹ نے گورنر ماڈل سکول کے بچوں کے احتجاج کے بعد پولیٹیکل ایجنٹ سے جواب طلب کیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ سوال کا تو صرف جواب ملتا ہے اور جواب پر ایکشن کون لے سکتا ہے؟ گزشتہ ایک دو سالوں میں کنسٹرکشن کے نام پر جو لوٹ مارہوتی دکھائی دی ہے وہ ناقابل یقین ہے لیکن شنوائی کا کوئی نظام ہوتو بات کی جاسکتی ہے۔ پشتو کی ایک کہاوت کا ترجمہ ہے کہ کسی جگہ اگر پانی زیادہ دیرتک کھڑا رہے تو بدبودار بن جاتا ہے اس لئے اعلی حکام کو فاٹا کے مستقبل کی خاطر کچھ دنوں کے لئے پولیٹیکل ایجنٹ کی کرسی پر صرف اور صرف میرٹ پر تعیناتی کرنی چاہیے کیونکہ پولیٹیکل ایجنٹ سیٹ کی خاطر ادا کی گئی قیمت کا چوگنا غریب عوام سے وصول کرتا ہے اور موجودہ حالات میں اس کا نقصان ملک کے مستقبل کو ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).