سانحہ 12 مئی کا ذمہ دار کوئی انسان نہیں بلکہ بھوت تھا


ایم کیوایم پاکستان کے وسیم اختر کراچی کے میئر کہلاتے ہیں مگر یہ ان کا ایک ادھورا تعارف ہے۔
2007 میں وسیم اختر سندھ کے مشیر داخلہ بھی تھے۔
جب اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری مئی کی 12 تاریخ کو کراچی آئے تو پرتشدد واقعات کے نتیجے میں 50 سے زائد سیاسی کارکنان قتل کردیے گئے۔
یہ قتل عام نہ تواتفاقیہ تھا اور نہ ہی غیرمنظم۔
ایئرپورٹ سے آنے والے راستے یعنی شارع فیصل پر کنٹینر لگے ہوئے تھے۔
گلیوں میں مسلح افراد گھات لگائے بیٹھے تھے۔
دن کی روشنی میں کراچی میں عوامی نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو چن چن کر قتل کیا گیا۔
مسلح افراد نے سٹی کورٹ پر حملہ کردیا، ججوں کو چھپ کر جان بچانا پڑی۔
12 مئی کو کراچی میں جنگل کا قانون تھا۔

تصور کیجئے کہ ایک باپ اپنے چھوٹے بیٹے کو موٹرسائیکل کے آگے بٹھا کر بلوچ کالونی کے پل پر سے گذررہا ہے اور وہ بے خبر ہے کہ گھات لگائے مسلح افراد کی بندوقیں اس کی جانب ہیں۔
مرغابی پہ گولی چلی اور شکاری کا کیا خوب نشانہ تھا۔
چلتی موٹرسائیکل پر گردن کے دائیں جانب گولی لگی۔
موٹرسائیکل سلپ ہوئی۔
پل کی دیوار سے جب اس شخص کا وجود پوری طاقت سے ٹکرایا تو شاید اسے تکلیف نہیں ہوئی ہوگی کیونکہ وہ ان چند لمحوں میں مرچکا تھا۔
گردن سے خررر کی آواز کے ساتھ خون کا تیز فوارہ نکل رہا تھا اور اس خون میں اس شخص کا ننھا بیٹا نہارہا تھا۔
عجیب منظر تھا۔
بچہ رورہا تھا نہ باپ کی لاش کے قریب جارہا تھا، بس کچھ حیران اور کچھ پریشان سا بیٹھا تھا۔

خیر، مئی کی 12 تاریخ کو کراچی میں جو ہوا، اس کا ذمہ دار کوئی نہیں ہے۔

سابق صدر پرویز مشرف نے سانحہ 12 مئی کے بعد مکا لہرا کر ان پرتشدد واقعات یا اسی روز ایم اے جناح روڈ پہ ہونے والی ایم کیوایم کی ریلی کو عوامی ردعمل کہا تھا، آپ نیت پر شک نہ کریں، ان کا مطلب وہ نہیں تھا جو آپ میں سے کچھ سمجھے، اس لئے وہ ذمہ دار نہیں ہیں۔
کراچی کے میئر کہلانے والے اس وقت کے مشیر داخلہ شہر کی سیکیورٹی کے ذمہ دار تھے مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ 12 مئی کے سانحے کے بھی ذمہ دار تھے۔
انسان ایک وقت میں ایک ذمہ داری ہی سنبھال سکتا ہے۔
گو وسیم اختر پر اپنے 55 ساتھیوں سمیت 12 مئی سانحے کے نہ صرف سات مقدمات درج ہیں، وہ ان مقدمات میں گرفتار رہ چکے ہیں، ان پر فرد جرم عائد ہوچکی ہے، وہ ضمانت پہ رہا ہیں، پولیس کے مطابق موصوف کی نشان دہی پر ایک شخص اسلحے سمیت گرفتار ہوا جبکہ وسیم اختر جولائی 2016 میں سانحہ 12 مئی کے مرکزی کردار ہونے کا اعتراف کرکے اس سے انکار بھی کرچکے ہیں۔
مگر وہ کراچی کے خیرخواہ ہیں اور مسئلہ 12 مئی نہیں ہے، مسئلہ یہ ہے کہ وسیم اختر کے پاس ملک کے تمام شہروں کے میئرز کی طرح وہ اختیارات نہیں ہیں جو پرویز مشرف کے دور میں ان کی پارٹی کے میئر کو حاصل تھے۔

وسیم اختر ایک ایسی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں، جو تمام اردو بولنے والوں کی نمائندہ ہونے کی دعویدار ہے۔
اگر آپ وسیم اختر کی جانب انگلی بھی اٹھائیں گے تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ آپ تمام اردو بولنے والوں کے خلاف ہیں گویا وسیم اختر اردو بولنے والوں کی کمیونٹی کا اصل چہرہ ہیں۔
ضمیر کا بوجھ ہلکا کرنے کا موڈ ہورہا ہے تو آپ صرف الطاف حسین کو سانحے کا ذمہ دار ایسے ٹھہرا دیں کہ وہ صاحب ہی ایم کیو ایم تھے، باقی تمام ایم کیو ایم رہنما تو اس وقت فیڈر سے دودھ پیتے تھے اور اب تو ویسے بھی مائنس الطاف کے بعد بس کراچی میں دودھ مہنگا ہے مگر باقی سب اتنا ہی سستا ہے کہ جتنا 12 مئی کو بہنے والا خون تھا۔

نریندر مودی کو ہم گجرات کا قصاب سمجھتے ہیں اور وہ بھارت کا وزیراعظم ہے، ہمارے خیال میں نریندر مودی کی حمایت کرنے والے ہندوستانی غلط ہیں۔
ایک دن میں نے حب الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے نریندر مودی کے خلاف تقریر کردی۔

ایک دل جلے صاحب بولے کہ جناب ہندوستان سے سرحد پار کرکے شہر قائد آنے والے لوگ کراچی کے قصاب وسیم اختر کی بھی تو حمایت کرتے ہیں تو وہ برے کیوں نہیں۔
میں بھی ایک سچا مہاجر ہوں، میں نے ان صاحب کو فوراً مہاجروں کا دشمن قرار دے دیا۔

ٹھیک کیا ناں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).