ڈاکٹر عبدالسلام اور محترم عامر خاکوانی ….


\"tahir

 عاجز نے جب سے \’ہم سب\’ میں لکھنا شروع کیا ہے تو خود کو اس بات سے باز رکھنے کی مقدور بھر کوشش کی ہے کہ دیگر قلمکاروں سے نام لے کر اختلاف رائے بھی نہ کیا جائے۔ لیکن آج جلیل القدر عامر خاکوانی صاحب کا نرگس ماول والا کے حوالے سے مضمون دیکھا تو کچھ باتیں عرض کرنے کی مجبوری آن پڑی ہے کہ خود اس عاجز، ’ہم سب‘ اور آپ سب کو دیر تلک اور دور تلک جانے کی امید لگائے ہوئے ہوں۔ اس لئے اس بظاہر محدود اور ابتدائی فورم کی بنیادوں میں دیرپا مسالہ اور نیتیں بھر لی جائیں تا کہ اس کو اندر سے زوال نہ آئے۔

پاکستان کا سیاسی اور سماجی طور پر دیانت کے ضروری معیار سے بھی ساقط ہونا پڑھنے والوں کے لئے عام معلومات کی بات ہے اور اس میں کوئی فوری اور انقلابی تبدیلی نظر بھی نہیں آتی۔ لیکن حوصلہ شکن مرحلہ یہ ہے کہ ہمارے اہل دانش فکری بد دیانتی کے ساتھ ہنسی خوشی رہ رہے ہیں اور جو اس ننگ کی طرف اشارہ کرے اس کی جان کو آجاتے ہیں۔ اب نام کیا گنوانا…. یوں سمجھ لیں کہ ایک بھی اخبار، ادارہ، میڈیا ہاﺅس یا جامعہ آج کے دور میں عبدالمجید سالک، حمید نظامی، فیض احمد فیض، منظور قادر، ایم آر کیانی، پروفیسر حمید احمد خان، قاسم پیرزادہ، ابو الخیر کشفی ، ڈاکٹر مہدی حسن، ڈاکٹر اسلم سید یا ڈاکٹر پرویز ہود بہائی جیسے اہل علم و فن کے حوالے سے شہرت نہیں رکھتا اور ان اسمائے گرامی میں میں نے عمداً راجہ غالب، ثاقب زیروی ، پروفیسر قاضی اسلم اور جسٹس سلام بھٹی یا طاہر عارف کے نام شامل نہیں کئے۔ اور جب اس طرح کی متوازن شخصیات کا قحط پڑ جائے تو پھر لشٹم پشٹم بس کام چلانا پڑتا ہے مگر ایسے ڈنگ ٹپاﺅ دانشوروں اور ارباب امتیاز و تفاخر سے کسی نئے اور دیر پا طرز فکر کی بنیاد نہیں پڑا کرتی۔

اس بے توقیری اور کم نظری کے سیلاب میں اس نئے \’ہم سب\’ کی بنیاد پڑی تو ہر طرح کا موقف سامنے آنا شروع ہوا۔

راقم کو دو سال تک ’اردو کالم نگاری کا ادواری مطالعہ‘کے عنوان پر ڈاکٹریٹ کے مقالے میں تحقیقی معاونت کا موقع ملا اور مخزن اور نیرنگ خیال سے لے کر 2010 تک کے اخبارات و رسائل دیکھے لیکن اہل قلم کی ایسی ننگی اور کم سواد جانبداری دیکھنے کو نہیں ملی جیسی گذشتہ تین دہائیوں سے تھی اور \’ہم سب\’ نے لمبے عرصے بعد احمدیوں کو احمدی لکھنے کو رواج دیا اور احمدیوں پر احسان دھرے بغیر ایسا کیا ہے۔

امر واقعہ بھی یہی ہے کہ ترک شر اپنی ذات میں کوئی نیکی نہیں بلکہ یہ تو منفی سے صفر پر واپس آنے کا نام ہے۔ نیکی ایصال خیر ہے جو کوشش اور ہمت سے صفر سے مثبت مدارج کا سفر ہے جو حالیہ منظر نامے میں ناپید تھا اور اس نئی ٹیم اور ادارے نے اس پہ کمر باندھی ہے تو اب اس کا ساتھ دینا فرض ہے۔ جناب عامر خاکوانی صاحب نے پھر ڈاکٹر عبدالسلام کے ساتھ قادیانی کی چھیڑ لگا کر اپنے مرتبے سے کم رویے کا اظہار کیا ہے۔ آپ سب سے صرف یہ گذارش کرنی ہے کہ آپ مرزائی ،قادیانی، کادیانی، یا دیگر پست تخاطب اختیار کر لیں اس سے احمدیوں کو کم اور آپ کے اپنے وقار اور آپ کی آنے والی نسلوں کی تہذیب پر بہت برا اثر پڑے گا۔ میں علی وجہ البصیرت جماعت اسلامی اور بانئی جماعت اسلامی مولانا ابوالاعلی مودودی کے عقائد سے اتفاق نہیں کرتا لیکن اپنی تحریر و تقریر میں مودودی صاحب کا صیغہ واحد میں ذکر اور ان کے پیروکاروں کو جماعتئے لکھنا تہذیب کے منافی سمجھتا ہوں اور کسی خوف سے نہیں رکھ رکھاو کے معیارات کی وجہ سے۔

دوسرا یہ امر کہ پہلے بھی ایک جگہ لکھا تھا کہ آئینی ترمیم کو ایک طرف رکھیں اور سیاسی اور سماجی مظالم اور تذلیل و نا انصافی کے سالانہ گوشواروں کو بھی۔

آج سے ہی یہ سمجھ لیں کہ ربوہ میں اور دیگر مقامات پر پاکستان میں احمدی رہتے ہیں، پاکستان کے شہری ہیں، اپنے گھر سے کھاتے اور اپنی صلاحیتوں سے (جہاں موقع ملے) آپ کو فائدہ پہنچاتے ہیں اور….

آج تک ایک بھی اینٹی سٹیٹ اور سماج دشمن جرم ان کے کھاتے میں نہیں …. تو اسی خدا سے ڈر کر جس کے حوالے دیتے ہیں اور اسی رسول کریم ﷺکے اسوہ کے مطابق جس کی طرف منسوب ہوتے ہیں، احمدیوں کے تخاطب اور تذکرے کے حقوق خوشدلی سے ادا کریں۔

باقی جہاں تک ڈاکٹر نرگس کی سماجی ترجیحات ہیں تو وہ آخرت اور خدا اور مذہب کے مطابق نہیں ہیں تو نرگس کا کب دعوی ہے کہ وہ آپ کے مذہب یا کتاب کی پیروکار ہے تو پھر آپ کو اس کی سماجی ترجیحات پہ کیا مسئلہ ہے۔ آپ البتہ یہ بتائیں کہ ڈاکٹر عبدالسلام تو پنجگانہ عبادت، شعائر اسلام کے پابند، ملکی ثقافت کے امین، قرآن کریم کی حمائل ہمہ وقت ساتھ رکھنے والے اور صحائح ستہ پر تدبر کرنے والے، اسلامی ممالک کی معاشی اور سائنسی ترقی کے لئے کوشاں کویت سائنس فاونڈیشن کے بانی اور روح رواں اور درود و سلام کو ورد رکھنے کے عادی تھے۔ ہماری بزعم خود صالح سوسائٹی نے ان کو کیوں اپنے ہاں نہیں پنپنے دیا۔ ان کو نوبل پرائز تو فزکس پہ ملا تھا، مرزا صاحب کی صداقت ثابت کرنے پہ تو نہیں ملا تھا۔

عالی جاہ۔ اپنے خوف سے باہر نکلیں اور ’ڈاکٹر سلام پہ پھر کبھی گفتگو‘ہو گی کی بجائے اپنے رویوں پر نظر کریں۔ یہ آسیب ہم جنس پرستی کی انفرادی گریز پائی سے آگے بڑھ کر اجتماعی سطح پہ اپنی جنس نہیں بلکہ اپنی نوع کے اتلاف\’ انہدام اور قعر مذلت تک انحطاط پہ تلا بیٹھا ہے۔ قابل اجمیری کے اٹھائے ہوئے اس سوال پہ اختتام کرتا ہوں :

ابھی تو تنقید ہو رہی ہے مرے مذاق جنوں پہ لیکن
تمہاری زلفوں کی برہمی کا سوال آیا تو کیا کرو گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
40 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments