سعودی عرب کی زیر زمین ثقافت


بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں ان دنوں سعودی معاشرے کی منافقت کا چرچا ہو رہا ہے۔سعودی عرب میں وقت گزارنے والے مغربی شہری پےدر پے انکشاف کر رہے ہیں کہ سعودی معاشرے پر رکھے تقدیس کے مہین پردے کے نیچے ہر طرح کی عیاشی عام ہے۔ نوجوان لوگ شراب اور منشیات میں دھت نظر آتے ہیں اور ایسی پارٹیوں کا منعقد ہونا عام ہے جہاں کھلے عام جنسی افعال سے لطف اٹھایا جاتا ہے۔ سعودی عرب کی سخت گیر پولیس ان سرگرمیوں سے چشم پوشی کرتی ہیں۔برطانوی میڈیا میں سعودی عرب پر تنقید کا یہ سلسلہ تب شروع ہوا جب سعودی حکام نے ایک بزرگ برطانوی شہری کارل آندرے کو وائن کی بارہ خانہ ساز بوتلیں رکھنے پر 350 کوڑوں کی سزا سنائی۔

نامعلوم برطانوی شہریوں نے سنڈے مرر کو بتایا ہے کہ سعودی عرب کے اشرافیہ کے بچے اسلامی قوانین کی کھلے عام خلاف ورزی کرتے ہیں۔ ٹنڈر جیسی موبائل سہولتوں کی مدد سے طوائفیں حاصل کی جاتی ہیں۔ چرس کا استعمال عام ہے ۔ زیر زمین مارکیٹ میں اسقاط حمل کی ادویات آسانی سے مل جاتی ہیں ۔ گھریلو طور پر تیار کی ہوئی ایسی وہسکی عام طور پر مل جاتی ہے جس میں الکحل کی مقدار ننانوے فیصد تک ہوتی ہے۔

سعودی حکومت دنیا بھر میں اپنے سخت مذہبی قوانین پر فخر کرتی ہے لیکن تقدیس کی اس چادر کے نیچے صحیح قیمت ادا کرنے پر سب کچھ دستیاب ہو سکتا ہے۔ دنیا کے چند امیر ترین ممالک میں سے ایک ہونے کے باعث بہت سے لوگوں کے لیے پیسہ کوئی معنی نہیں رکھتا چنانچہ پولیس کی ہمدردیاں جیتنا بہت آسان ہے۔ جن علاقوں میں مغربی گھرانے آباد ہیں وہاں آلو سے ننانوے فیصد پروف والی شراب تیار کی جاتی ہے اور اسے کھلے عام سعودی عرب کے تمام بڑے شہروں میں خریدا جا سکتا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ پلاسٹک کی بوتلوں میں الکحل صرف چند پاﺅنڈ کے عوض خریدی جا سکتی ہے ۔ پولیس افسروں کی تنخواہ عموماً سات سو پاﺅنڈ ماہانہ سے زیادہ نہیں ہے چنانچہ انہیں بالائی آمدنی کی ضرورت رہتی ہے۔

ایک اخبار نے لکھا ہے کہ سعودی عرب میں زیر زمین پارٹیاں مغربی معیارات سے کئی گنا زیادہ کھلی ڈھلی ہوتی ہیں۔ بہت سے گھروں میں گرم پانی کے تالاب موجود ہیں اور وہاں لوگوں کو کھلے عام جنسی سرگرمیوں میں مصروف دیکھا جا سکتا ہے۔ بہت سے سعودی نوجوان ایسی ادویات استعمال کرتے ہیں جو داعش اپنے لڑاکا فوجیوں کا حوصلہ بلند رکھنے کے لیے استعمال کرتی ہے مثلاً کیپٹا گان۔ سعودی نوجوان یہ دوا استعمال کر کے تیز رفتار گاڑیوں میں خوفناک کرتب دکھاتے ہیں۔

چند برس قبل برطانیہ میں دو لاکھ دس ہزار افراد نے ایک عرض داشت پر دستخط کیے تھے جس میں وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ 74 سالہ کارل آندرے کو ملنے والی کوڑوں کی سزا پر عمل درآمد ر کوائیں۔ کارل کے بیٹے سائمن نے کہا ہے کہ اس کا 74 سالہ باپ تین دفعہ کینسر میں مبتلا رہ چکا ہے اور دمے کا مریض بھی ہے۔ اس کا امکان کم ہے کہ وہ اس سزا سے جانبر ہو سکے۔سائمن نے بتایا ہے کہ اس کی معلومات کے مطابق سعودی حکام نے برطانوی حکومت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ کوڑوں کی سزا پر عمل درآمد نہیں کیا جائے گا۔ سعودی قوانین کے مطابق شراب پینے اور زنا کرنے پر کوڑے مارنے اور سرقلم کرنے تک کی سزائیں دی جا سکتی ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).