12 مئی 2007: کراچی کا قتل عام اور پرویز مشرف کے مکے


اقتدار کا کھیل ہمیشہ سے موت کا کھیل بھی رہا ہے۔ وطن عزیز میں یہ دونوں کھیل ہمیشہ سے کھیلے جارہے ہیں۔ کھلاڑی البتہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ ایسا ہی کھیل آج سے 14 برس قبل 12 مئی 2007ء کو کراچی میں کھیلا گیاتھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ موت کا یہ کھیل کھیلنے والے کھلاڑی تو آج بھی موجود ہیں، لیکن 12 مئی 2007ء کے اس المیے کو ان کھلاڑیوں نے اور شاید خود ہم نے بھی فراموش کر دیا۔ کھلاڑی تو اب کسی اور کھیل میں مصروف ہیں اورشاید کسی نئے 12 مئی کا بندوبست کررہے ہوں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمیں یہ دکھ بھرا دن کیوں بھول گیا۔ وہ دن جب کراچی کی سڑکوں پر خون کی ہولی کھیلی گئی۔ جب  40 یا اس سے زیادہ افراد کو ٹارگٹ کلرز نے موت کے گھاٹ اتارا اورجب سینکڑوں افراد زخمی ہوگئے عمر بھر کے لئے معذور ہو گئے۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کا سورج نصف النہار پر تھا تاہم ان کے خلاف تحریک شروع ہوچکی تھی۔ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری اورچودھری اعتزار احسن اپنے ہمنواﺅں کے ساتھ آئین کی بالادستی کا پرچم تھامے کسی کے اشارے پر سڑکوں پر موجود تھے۔ لوگوں کو انصاف کی نوید سنائی جارہی تھی اور اعتزاز احسن لہک لہک کر ”دنیا کی تاریخ گواہ ہے “ کی قوالی کرتے تھے اور لوگوں کو یقین دلاتے تھے کہ جب انصاف کا بول بالا ہوگا، امن ہوگا تو پھر ہمیں ہمارے حقوق ملیں گے اورپھر” ریاست ہو گی ماں کے جیسی“۔ ذلتوں کے مارے لوگ کٹھ پتلیوں کے نعروں پر ہمیشہ کی طرح جھومتے تھے اور ان پر یقین کرتے تھے کہ ان بے چاروں کے پاس یقین کرلینے کے سوا چارہ بھی کیا ہوتا ہے۔

اسی تحریک کے دوران جسٹس افتخارچودھری نے اعلان کیا کہ وہ کراچی میں ہائی کورٹ کی گولڈن جوبلی کے موقع پر منعقدہ تقریب میں شریک ہو ں گے۔ یہ تقریب 12مئی کو منعقد ہونا تھی۔ فوجی ڈکیٹیٹر اوراس کے ہمنواﺅں نے بھی طے کرلیا کہ افتخار چودھری کو کراچی ایئرپورٹ سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ان کے استقبال کے لیے آنے والے پیپلزپارٹی اور اے این پی کے کارکنوں اور وکلا کا راستہ ہرقیمت پر روکا جائے گا۔ دن نکلتے ہی کراچی میں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوگیا۔ کنٹینروں سے کراچی کی تمام سڑکیں بلاک کردی گئیں۔ اور یہ سب اقدامات پرویز مشرف کے حکم پر کیے گئے۔ پرویز مشرف کی ہدایت پر ہی  12 مئی سے دو روز قبل نائن زیرو اور گورنرہاﺅس میں اعلیٰ سطح کے اجلاس منعقد ہوئے جن میں اس وقت کے اعلیٰ سرکاری افسروں اور سیاسی رہنماﺅں نے بھی شرکت کی۔ ایک لمحے کے لیے اب ان ہستیوں کا بھی تذکرہ ہوجائے جو پرویز مشرف کے احکامات پر عمل درآمد کرا رہی تھیں۔ ان میں اس وقت کے گورنرسندھ عشرت العباد، ناظم کراچی مصطفیٰ کمال، وزیرداخلہ سندھ وسیم اختر، ایم کیو ایم کے رہنماء فاروق ستار، بابرغوری، فیصل سبزواری اور بہت سے دوسرے لوگ شامل ہیں۔ آئی ایس آئی کے سربراہ اس زمانے میں جنرل اشفاق پرویز کیانی تھے اور بعد کے دنوں میں معلوم ہوا کہ پرویز مشرف کے خلاف جسٹس افتخار چوہدری کا انکار بھی شاید انہی کے اشارے کا نتیجہ تھا۔

مصطفیٰ کمال کی ہدایت پر سندھ ہائی کورٹ کے باہر کنیٹنر لگادیئے گئے اور ایم کیو ایم کے مسلح افراد دن بھر لوگوں کو للکارتے رہے۔ میڈیا کی ٹیمیں حملوں کی زد میں آئیں۔ ہم دن بھر ٹی وی چینلز پر دیکھتے رہے کہ سڑکوں پر نقاب پوش دندنا رہے ہیں۔ لوگ تڑپ رہے ہیں۔ ایمبولینسیں دوڑ رہی ہیں اور ان کاراستہ بھی روکا جا رہا ہے۔ افتخارچودھری اس تمام عرصے کے دوران کراچی ایئرپورٹ کے لاﺅنج میں اعتزاز احسن کے ہمراہ ٹی وی چینلز دیکھتے رہے۔ میڈیا کو ٹیلیفون پر انٹرویو دیتے رہے، اصرار کرتے رہے کہ میں سندھ ہائی کورٹ تک ضرور پہنچوں گا، کوئی بھی رکاوٹ میرا راستہ نہیں روک سکتی، وغیرہ وغیرہ۔ اوراس کے ساتھ ساتھ وہ مرنے والوں کا دکھ کم کرنے کے لیے چائے اور سینڈوچ سے بھی لطف اندوز ہوتے رہے۔ شام تک آگ اورخون کا کھیل جاری رہا اوراس کے بعد سندھ حکومت نے افتخار چودھری کی صوبہ بدری کے احکامات جاری کردیئے۔

دوسری جانب اسلام آباد میں مسلم لیگ (ق) نے عوامی قوت کے مظاہرے کا اہتمام کررکھا تھا۔ ملک بھر سے قافلے پرویز مشرف کے آہنی ہاتھ مزید مضبوط کرنے کے لیے اسلام آباد پہنچ رہے تھے۔ شام کے سائے گہرے ہوئے تو پرویز مشرف کے حامی شیخ رشید، چودھری شجاعت اور پرویز الٰہی جیسے جمہوریت پسندوں کی قیادت میں جوق درجوق پارلیمنٹ ہاﺅس کے باہر واقع پنڈال میں پہنچنا شروع ہوگئے۔ یہ سب لوگ اگرچہ پرویز مشرف کے ہاتھ مضبوط کرنے آئے تھے لیکن جب جلسہ شروع ہوا اور رات آٹھ بجے کے بعد پرویز مشرف اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز کے ہمراہ سٹیج پر آئے توحاضرین کومعلوم ہوا کہ وہ جن ہاتھوں کو مضبوط کرنے آئے ہیں وہ تو اب مکوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ فوجی ڈکٹیٹر تالیوں کی گونج میں سٹیج پر آیا۔ اس نے بہت جذباتی انداز میں تقریر کی اور مکے لہراتے ہوئے عوام کوبتایا کہ آپ نے کراچی میں عوامی قوت کا مظاہرہ دیکھ لیا ناں؟عوام کی طاقت تو میرے ساتھ ہے۔ یہاں پنڈال میں بھی اور وہاں کراچی میں بھی۔ یہ تکبر اور غرورکی انتہا تھی۔ تکبر اور غرور صرف پرویزمشرف کے لہجے میں موجود نہیں تھا ان کے حواری بھی مکے والی زبان ہی استعمال کررہے تھے۔ فاروق ستار چینلز پر آ کر پیپلزپارٹی اور اے این پی کو مورد الزام ٹھہرا رہے تھے اورکہہ رہے تھے کہ ان پارٹیوں نے ایم کیو ایم جیسی ’’امن پسند‘‘ جماعت کو بدنام کرنے کے لیے اپنے کارکن خود مروا دیئے۔ ایسے ہی بیانات ایم کیو ایم اور مسلم لیگ(ق) کے دیگر رہنماﺅں کی جانب سے داغے جا رہے تھے۔

بحیثیت قوم ہمارا حافظہ چونکہ خاصہ کمزور ہے اس لیے بہت سی باتیں، بہت سے کردار اور بہت سے واقعات دہرانا ضروری ہوجاتے ہیں۔ جسٹس افتخار چودھری کی تحریک کامیاب ہوئی۔ وہ اپنے منصب پر دوبارہ فائز ہوئے اورانہوں نے ازخودنوٹسوں کی بھرمار کردی۔ ایسے میں گمان گزرا کہ شاید وہ 12مئی کے کرداروں کوبھی کٹہرے میں لائیں گے۔ شاید وہ کراچی میں رزق خاک ہونے والوں کے ورثاءکو انصاف دلائیں گے۔ شاید وہ قتل وغارت کے احکامات جاری کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے لیکن افسوس ایسا نہ ہوسکا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ سب کردار آج بھی ڈھٹائی کے ساتھ دندنا رہے ہیں۔ اس وقت کے وزیرداخلہ سندھ وسیم اختر 2016ء میں کراچی کے میئر منتخب ہوئے۔ اسی قتل عام کے مقدمے میں وہ اعتراف جرم کر چکے تھے۔ بہت سے نام بتا چکے تھے کہ کس کس کے حکم پر موت کا یہ کھیل کھیلا گیا، لیکن قانون کتنا بے بس ہوتا ہے اس کا اندازہ ہمیں بھی نہیں تھا۔ 12مئی 2007ء کی قتل وغارت میں ملوث ہونے کا اعتراف کرنے کے باوجود وسیم اختر کو ضمانت پر رہا کیا گیا۔

مصطفیٰ کمال آج بھی کراچی میں حب الوطنی کی عملی تصویربنے پھرتے ہیں۔ فاروق ستار اسی مخصوص انداز میں ٹھہر ٹھہر کراور دانت چبا چبا کر اس واقعہ کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ عشرت العباد محفوظ مقام پر ہیں۔ اور کسی کو یہ بھی یاد نہیں کہ وکی لیکس نے اس ٹیلی فون کال کا انکشاف کیا تھا جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ اس روز ٹارگٹ کلرز کی ڈیوٹیاں خود فاروق ستار نے لگائی تھیں۔ ایک امریکی عہدیدار کے ساتھ ان کی ٹیلی فونک گفتگو کا چرچا بھی کئی روز تک سننے میں آیا اور آخری بات یہ کہ پرویزمشرف دبئی میں رونق افروز ہیں۔ قوم انہیں پولیس کی تحویل سے نکال کر بحفاظت دبئی بھیجنے والوں کو خوب پہچانتی ہے بلکہ پرویز مشرف خود بھی اپنے محسنوں کی نشان دہی  کر چکے ہیں۔

ایک سوال کا جواب ہمیں تو اب تک معلوم نہیں ہوسکا۔ ممکن ہے آپ کو کہیں سے مل جائے۔ سوال صرف اتنا سا ہے کہ کیا اقتدار اور موت کے اس کھیل میں بعض لوگ صرف مرنے اور بعض صرف مارنے کے لیے پیدا ہوتے ہیں؟ اور کیا بے گناہ لوگوں کا خون ہمیشہ اسی طرح رائیگاں جاتا ہے جیسے سانحہ 12 مئی کے شہداء کا خون رائیگاں گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).