23 مارچ اور ڈاکٹر صفدر کا ذوق تاریخ سازی


ڈاکٹر صفدر محمود کا اللہ بھلا کرے بہت محنتی انسان ہیں۔ قائد اعظم اور ان کے دور کی تاریخ ان کی دلچسپی کا خصوصی موضوع ہے مگر مشکل یہ ہے کہ اکثر لوگوں کو قائداعظم پر لگنے والے الزامات کا علم بھی ڈاکٹر صاحب کی وجہ سے ہی ہوتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ وہ اس صفائی مہم کے تحت اچانک جنگ اخبار میں کالم دیتے ہیں کہ قائداعظم یا مسلم لیگ پر لگنے والا فلاں الزام اس اس وجہ سے غلط ہے۔ اب ڈاکٹر صاحب کی تحقیق اور نتیجہ تحقیق پر کوئی اعتماد کرے یا نہ کرے مگر اکثر لوگوں کو پہلی بار پتہ چل جاتا ہے اور وہ سوچتے رہ جاتے ہیں کہ اچھا! یہ بات بھی ہے؟

اصل میں ڈاکٹر صاحب کی یہ تمام کوششیں ایک غلط مفروضے پر مبنی ہیں۔ انہوں نے یہ فرض کررکھاہے کہ چونکہ قائداعظم بابائے قوم ہیں لہذا انہیں ہر لحاظ سے فرشتہ اور معصوم ہونا بھی ضروری ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ وہ قائد اعظم پر ہونے والی تنقید کو پاکستان یا خود قائداعظم کی مخالفت بلکہ نفرت کے مترادف سمجھتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک لیڈر کی جس طرح سیاسی زندگی ہوتی ہے اسی طرح اس کی نجی زندگی بھی ہوتی ہے۔ لیڈر کے ذہن میں صرف سیاست ہی نہیں ہوتی بلکہ دوسرے انسانوں کی طرح ان کے بھی جذبات اور میلانات ہوتے ہیں جس میں بعض چیزوں میں چند کمزوریاں اور غلطیاں بھی موجود ہوتی ہیں۔ اب چونکہ ایک سیاسی لیڈر کی پوری زندگی ہی پبلک پراپرٹی بن جاتی ہے تو لوگ ہر حوالے سے اس کے بارے میں بولتے اور سوچتے ہیں جس میں نفرت اور مخالفت کا کوئی دخل بھی نہیں ہوتا مگر ڈاکٹر صاحب نے پچھلے دنوں ایسی ہی ایک بحث میں ڈاکٹر مبارک علی کو انڈیا کا ایجنٹ کہا تھا۔

قائداعظم کی کھوٹے سکوں والی بات کو بھی ڈاکٹر صفدر صاحب مسترد کرچکے ہیں۔ عارف میاں کو انٹریو دیتے ہوئے انہوں نے فرمایا ہے کہ میں پوری تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچاہوں کہ قائداعظم نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ اب یہ کتنا مشکل ٹاسک ہے کہ آپ کسی شخص کی ان باتوں کا بھی علم حاصل کریں جو اس نے نہ کی ہوں۔ مگر ڈاکٹر صاحب نے یہاں بھی ہتھیار نہیں ڈالے۔

حالانکہ قائداعظم کے دو قریبی ساتھیوں اور مسلم لیگی رہنماؤں سردار عبدالرب نشتر ( آزادی کی کہانی میری زبانی ص 132 میں) اور سردار شوکت حیات ( گم گشتہ قوم ص 232 میں)اپنی اپنی خودنوشت سوانح میں یہ بات لکھ چکے ہیں کہ قائداعظم نے خود مجھے یہ بات کہی۔

وہ تو 27 رمضان کی مبارک ساعتوں میں قیام پاکستان کو بھی قدرت کا کوئی غیبی اشارہ سمجھتے ہیں مگر یہ سامنے کی بات نہیں سوچتے کہ گاؤ ماتا کے پجاری بھارت کی ولادت بھی اسی سعید رات کو ہوئی تھی۔

بہرحال مبارک علی کے ساتھ اپنے حالیہ مکالمے میں ڈاکٹر صاحب نے یہ بات بھی دوبارہ دہرائی ہے کہ 23 مارچ کو یوم پاکستان کے طور پر منانے کا فیصلہ 1940 میں ہی کیا گیا تھا۔

تین ماہ پہلے 23 مارچ کو اس خاکسار نے فیس بک وال پر ایک پوسٹ لکھی تھی کہ 1957 سے پہلے کبھی بھی 23 مارچ کو یوم پاکستان کے طور پر نہیں منایا گیا۔ اس پر کچھ دوستوں نے کمنٹس اور کچھ نے ان باکس میں اس دعوے کا ثبوت مانگا۔ مگر میرے لیے مسئلہ یہ تھا کہ ’نہ منائے جانے‘ کا ایسا ثبوت کس طرح دوں جس پر یہ مطمئن ہو جائیں۔ یعنی عدم کی وجود کی دلیل۔

اب ڈان میں شائع ہونے والی ایک پرانی تصویر کے بدولت 1953 کا ایک کلینڈر ہاتھ لگا ہے (مضمون کے نیچے تصویر موجود ہے) جس میں تمام قومی دنوں اور سرکاری تعطیلات کی تفصیل موجودہے مگر 23 مارچ اس میں ایک عام دن کے طور پر ہی نظر آتا ہے۔ شاید اب دوستوں کو اس بات کی ماننے میں تامل نہ ہو کہ 23 مارچ صرف یوم جمہوریہ سے جان چھڑانے کے لیے 1957 میں یوم پاکستان کے عنوان سے ایجاد کیا گیا تھا اور اس سے پہلے اس کا کوئی وجود نہیں تھا۔

چلتے چلتے ایک نیا سوال ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کے ’ذوق تاریخ سازی‘ کی نذر کرتے ہیں کہ 1953 کے اس کلینڈر میں تو قائد اعظم کا یوم پیدائش 26 دسمبر لکھا گیا ہے جبکہ اب ہم یہ دن 25 دسمبر کو مناتے ہیں۔ یہ کیا ماجرا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).